انصافی سیاسی بالشتیے خونخوار بھیڑیوں کی طرح(half baked)ادھ کچے پکے سندھ پر جھپٹ پڑے۔ چیف جسٹس کی ایک وارنگ نے ان کے دانت کھٹے کر دئے۔ ان کے ھوش اڑا دئے اور پھنے خانی بڑھکیں مارنے والے دم دبا کر بلوں میں گھس گئے۔ سندھ میں گورنر راج لگانے، پی پی پی میں فارورڈ بلاک بنا کر سندھ حکومت پر ناجائز، غیر آئینی قبضہ کرنے کے بلند بانگ دعویٰ کرنے والے وفاقی وزرا، وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور پی ٹی آئی سندھ کے ناپختہ کار لیڈر پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ھو گئے۔ اب الٹے سیدھے منطق اور دروغ گوئی کے سہارے خفت مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ احتساب کے غل غپاڑے میں انصافی حکومت نے آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا کر ماشل لا ئی آمرانہ حربے استعمال کرنا شروع کر دئے ہیں۔ سیاسی بلیک میلنگ اور ھارس ٹریڈنگ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ 2018 الیکش کے بعد پنجاب میں اکثریتی پارٹی نواز لیگ کو صوبے کا اقتدار نہ سونپا گیا۔ صوبائی اسمبلی کے آزاد اراکین کی خریدوفروخت کی کھلے عام بولی لگائی گئی۔ ھارس ٹریڈنگ کے کرشمے سے پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت برآمد ھوئی۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت انصافی حکمرانوں کو ایک آنکھ نیہں بھا رہی۔ وفاقی حکومت کے غیر جمہوری عزائم سے ظاہر ھوتا ہے کہ وفاقیت، صوبائی خودمختاری اور سندھی عوام کے میںڈیٹ کی دھجیاں اڑانے کی سازشیں تھمنے کے آثار بہت کم ہیں۔
انصافی حکومت اس پسپائی سے سبق حاصل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈا پر عمل پیرا حکومتی عزائم کے راستے میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بڑی رکاوٹ ثابت ھو رہی ہے۔ زخم چاٹتی وفاقی حکومت کی نا تجربہ کاری، ناپختگی اور جاہلانہ تکبر اسے سندھ حکومت پر دوبارہ حملہ کرنے پر اکسائے گا۔ فرشتوں کی غائبانہ مدد کے ساتھ تمام صوبوں پر غیر آئینی قبضہ کرنے، اٹھارویں ترمیم کو عملا بے اثر کرکے صوبائی خودمختاری کو محدود کرنے کی سازشیں جاری رکھی جائیں گی۔
کیا چند ووٹوں کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی پی ٹی آئی کی مخلوظ وفاقی حکومت، سندھ حکومت کو سازشوں کے ذریعے گرا سکے گی، یا گرانے کے بعد ملک میں سیاسی استحکام اور جمہوری تسلسل کو برقرار رکھنے میں کامیاب ھو سکے گی۔ اس سوال کے جواب سے پہلے انصافی حکومت کی پالیسیوں کا طائرانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کا گراف روز بروز اوپر کی جانب متحرک ہے۔ انصافی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے کمر توڑ مہنگائی، ٹیکسوں کی بھر مار اور بڑھتی بے روزگاری نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ حکومتی ترجمان برائے معاشی امور آج یہ اعتراف کرنے پر مجبور کہ حکومت کی معاشی پالیسی تجارتی خسارہ کنٹرول کرنے میں ناکام ھو چکی۔ ان کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر کم کرنے کے باوجود حکومت کو ایکسپورٹ بڑھانے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ ایف بی آر نے ٹیکس آمدنی میں 170 ارب کمی کا اعتراف کر لیا۔ بیرونی ملک مقیم پاکستانیوں سے زرمبادلہ کی ترسیلات میں کمی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری نہ ھونے کے برابر۔ چھوٹے بڑے کاروباری طبقات کاروبار میں جمود پر پریشان۔ گذشتہ حکومت کے نامکمل منصوبے دھرے کے دھرے، لمبے لمبے کابینہ اجلاسوں میں معاشی یا عوامی فلاح کا کوئی نمایاں منصوبہ شروع کرنے کا پروگرام مرتب نہ کیا جا سکا۔ وزیر اعظم اور وزرا کو احتساب احتساب کا راگ الاپنے سے فرصت نیہں۔ جبکہ وفاق اور پنجاب کی بیوروکریسی چپ سادھے ریاستی اور حکومتی ذمہ داریاں اٹھانے سے گریز کی پالیسی اختیار کئے ھوئے ہے۔ اقتصادی، خارجہ اور قومی سلامتی کے امور پر اسٹبلشمنٹ کی گرفت مضبوط۔ تر، منتخب پارلیمنٹ اور جمہوری ادارے بے بسی کا شکار۔ اسٹبلشمنٹ کی خواہش پر سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ، وفاقیت اور صوبائی خودمختاری پر قدغنیں، اور احتساب کے نام پر انتقام کا راستہ سیاسی عدم استحکام کی طرف لے جاتا ہے۔ حکومت کی معاشی پالیسیاں غربت میں اضافے، عوام اور کاروباری طبقوں میں بے چینی اور انتشار پیدا کرنے کا موجب بنتی جا رہی ہیں۔ انصافی حکومت اسی راستے پر گامزن رہی تو ملک کو سیاسی عدم استحکام، انتشار اور معاشی بحران سے بچانا مشکل ھو جائے گا۔ آمریت پسندوں میں گھرے وزیر اعظم کی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ھوتے انتشار اور معاشی گراوٹ میں آمریت دوست قوتوں کو گل کھلانے کے لئے کھلا میدان میسر آ جائے گا۔ جمہوری تسلسل کو حقیقی خطرات درپیش ھو سکتے ہیں۔ سندھ حکومت گراتے گراتے عمران خان کو اپنی حکومت کے لالے پڑ جائیں گے۔ نئے نئے سیاسی عجوبے پاکستانی سیاست کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ شائد پاکستان کے عوام کو یہ انہونی بھی دیکھنے کو مل جائے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی سیاسی بقا کے لئے نواز اور زرداری کے دربار میں حاضری دینے پر مجبور ھو جائیں۔ اگر عمران خان اقتدار کی خاطر گجرات کے چوہدریوں اور ایم کیو ایم کے آگے جھولی پھیلا سکتے ہیں تو اقتدار پر چمٹے رہنے کے لئے زرداری اور نواز کا پلو پکڑنا کون سا دشوار کام ہے۔
فیس بک کمینٹ