پانچ نومبر 1996 وہ تاریخ جب پاکستان میں تاریخ دہرائی گئی۔ اس روز صدر مملکت فاروق لغاری نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کر دیا۔ سردار صاحب تو شاید اس بات سے واقف نہ ہوں مگر انھوں نے اپنے اختیارات کو ایک منتخب وزیر اعظم اور اپنی ایک دیرینہ ساتھی کا دھڑن تختہ کرنے کے لیے ایک نہایت مناسب دن چنا۔
شاید آپ کی یاداشت کے کسی کونے میں گائے فوکس (Guy Fawkes) کا نام موجود ہو۔ یہ وہ شخص ہے جو پانچ نومبر 1605 کو لندن میں ہاؤس آف لارڈز کو اڑانے کی سازش میں گرفتار کیا گیا۔ اس کے پاس سے آتش گیر مادے کا ایک ذخیرہ برآمد ہوا اور بعد کی تفتیش میں اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔
اس کہانی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ پولیس کو شرپسندوں کے علاقے میں ہونے کی اطلاع ایک نامعلوم ذریعے سے ملی جس کے بعد سسٹم کو بچانے کی کارروائی کی گئی۔ کچھ ایسا سسٹم بچانے کا کردار 6 اگست سنہ 1990 کو لاہور کے ایک بڑے نامی گرامی اور معلوم صحافی کا بن سکتا تھا مگر کیا کریں کسی کا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا۔
جی ہاں بے نظیر بھٹو کی چھٹی کی خبر ان کی برطرفی سے کئی گھنٹے قبل چھپ چکی تھی یعنی بتا دیا گیا تھا آج صدر مملکت محترمہ کی حکومت کو فارغ کر دیں گے۔ اس خبر کے راوی اور کوئی نہیں ممتاز صحافی عارف نظامی تھے۔
خبر کے مطابق شام تک جمہوریت کی ڈگر پر بے راہ روی کا شکار بھولا گھر جا چکا تھا۔ نا کوئی عوام باہر آئے، نا لاہور اور کراچی استنبول بنے نا ہی کوئی رونا پیٹنا ہوا۔ یہ کسی اور مقام اور اور کسی اور دور کی باتیں ہیں۔ عوام خاموش تھے۔ لوگوں کو ذہن نشین کرا دیا گیا تھا۔ یہ ایک کرپٹ حکومت تھی۔
پانچ نومبر 1996 کو محترمہ کے ساتھ یہ حادثہ دوسری بار پیش آیا۔ اس بار فرق یہ تھا کہ یہ کام ایک گھر والے یعنی پیپلز پارٹی کے اپنے سردار فاروق لغاری نے انجام دیا جن کے بارے میں یہ اس وقت مشہور تھا کے ان کے مسز بھٹو کے شوہر سے تعلقات بہت ہی خراب ہیں۔
1990 اور 1992 کے کیسز اب تک چل رہے ہیں بلکہ بعد میں میاں نواز شریف، جو بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے نکالنے کی سیاست کے سب سے بڑے ظاہری محرک تھے، وہ بھی کرپٹ قرار پائے اور ایک عدالت نے انھیں نا اہل بھی قرار دیا۔
نواز شریف کو اقتدار سے باہر کرنے اور پھر مسلسل دور رکھنے کی تحریک چلانے والوں کے پاس بھی وقت کم تھا اور انھیں بھی سیاسی میدان میں دشمن کو پیچھے دھکیلنے کا سب سے آسان راستہ احتسابی عمل میں اور عدالتوں سے گزرتا دکھائی دیا۔
ایک دوسرے زاویہ نظر سے یہ ایک بیکار اور لا حاصل عمل ہے۔ آپ بے نظیر بھٹو کو نکالتے ہیں، سرے محل کے واویلا کرتے ہیں، بھٹو فیملی کے بارے میں امریکہ کے اخبار میں کرپشن کے انکشافات پر انکشافات شائع کیے جاتے ہیں۔ آصف علی زرداری کو ایک بدمعاش ولن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب نواز شریف صاحب پر بھی اپنی باری پر اسی قسم کے شدید الزامات کی بارش کی جاتی ہے مگراس تمام شور و غوغا کا انجام کیا ہوتا ہے؟
اپنی حکومتوں کی برطرفی کے کوئی تین دہائی بعد پیپلز پارٹی ہر جگہ یہ یاد کراتی پھرتی ہے کہ اس کے لیڈروں پر کبھی کوئی کرپشن کا الزام ثابت نہیں ہوا اور میاں صاحب کو بھی اگر نااہل کیا گیا تو وہ بھی کسی اور ملک کے اقامہ یعنی رہائشی پرمٹ رکھنے کی بنیاد پر۔ یہاں دو سوالات ابھرتے ہیں جن کا ایک مختصر جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
پہلا سوال ہے، جب کرپشن کی بات کی جاتی ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ اس میں مالی فراڈ ہی پر تمام زور رکھا جائے؟
کرپشن بگاڑ کے معنی میں اور بھی بہت جگہ دیکھی جا سکتی ہے، خاص طور پر جب معاملہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے اور قانون اور اصولوں سے ماورا، اپنی حیثیت کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے کا ہو۔
ہماری زبان میں کرپشن کو بدعنوانی کہا جاتا ہے جو شاید وہ سب خامیوں کا زیادہ بہتر طور پہ احاطہ کرتا ہے بمقابلہ ان محدود معنوں کے جو ہم نے کرپشن کے ساتھ مستقلاً چپکا دیے ہیں۔ بدعنوان میں وہ بھی ہے جو اپنی حیثیت کو غیر قانونی طور پر استعمال کر کے کسی دوست ملک کی عارضی رہائش کی سہولت حاصل کرتا ہے۔
بدعنوان وہ شخص بھی کہلائے گا جو رشوت لیے بغیر کسی فرد یا کمپنی کا حق اپنے کسی دوست یا شناسا کو دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔
دوسرا سوال جو زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ جب آپ کو پتہ ہے کہ عدالت میں لگائے گئے آپ کے الزامات ثابت کرنے میں کتنے پہاڑ حائل ہیں تو پھر آپ بار بار کیوں الزامات کہ پلندے لے کر عدالتوں کے چکر لگانے میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں؟
اس سوال کا جواب بہت آسان سا ہے اور اگر آپ اجازت دیں تو میں یہاں ماضی کی ایک یاد کو تازہ کرنا چاہوں گا۔ لڑکپن میں آپ کے خادم کو جاسوسی ناول پڑھنے کی لت پڑ گئی تھی۔ سب سے پسندیدہ سلسلہ اس سیریز کے ناول تھے جن کا کلائمیکس ہمیشہ ایک عدالت میں ہوتا تھا۔ ایک وکیل دفاع تھے جو کمال مہارت سے استغاثہ کے کیس کے بخیہ ادھیڑ کے رکھ دیتے تھے۔
ان لائق فائق وکیل صاحب کی کچھ خاص ترکیبیں تھیں جن میں سے ایک حافظے میں محفوظ رہ گئی۔ وہ نہایت تیزی کے ساتھ سوال پوچھتے تھے اور اگر ان کا مدمقابل اس پر اعتراض کرتا تھا اور جج اس اعتراض سے متفق بھی ہو پھر بھی وہ اپنا سوال پورا کر لیتے تھے۔
یہ سب وہ ایک مقصد کے تحت کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا یہ سوال وہ صرف اور صرف لوگوں جیوری تک اپنے خیالات پہنچانے کے لیے کرتے تھے، جیوری پر اثر انداز ہونے کے لیے کرتے تھے۔
یہ وہی طریقہ ہے جس کو پروپیگنڈہ کرنے والوں نے بارہا اپنایا اور جس کی سب سے بڑی مثال ہٹلر کی پروپیگنڈہ مشین کی دی جاتی ہے۔
اصل بات جیوری، عوام تک ہتھوڑے کے وار سے تسلسل سے اپنی بات پہنچانی ہوتی ہے۔ آخر کار عوام مان جاتے ہیں۔ کہتے رہیے کہ این آر او مشرف کے برخلاف ہم سیاستدانوں کو این آر او ( یعنی وہ سہولت جس کی وجہ سے بڑے بڑے سیاسی ناموں کے پرانے عدالتی کیس قائم ہوئے) نہیں دیں گے۔ کوئی لے کر دکھائے این آر او، وغیرہ وغیرہ۔
یہ تمام الفاظ پانی کی ان بوندوں کی مانند عام لوگوں کے ذہن میں گڑھتی چلی جائیں گی جو اپنے تسلسل کی وجہ سے پتھر میں سوراخ کر دیتی ہیں۔ اس کا کیا اثر پڑتا ہے، پاکستانیوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔
یہ وہ ملک ہے جہاں کرپشن کا راگ کچھ اس شدت سے الاپا گیا ہے کہ بہت ہی کم مدت میں ایک پوری پارٹی متحرک ہو کر اقتدار میں آ چکی ہے اور اپنے سوا پاکستانی پارلیمان میں سب معزز خواتین و حضرات کو کرپٹ قرار دے چکی ہے۔
پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اس کے ساتھ ہے، اس پارٹی کی حکومت میں اب تک کی کارکردگی چاہے کچھ بھی رہی ہو۔
کرپشن اور کرپشن کے الزامات ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ آپ پیپلز پارٹی کے نیکولس گروپ سے باہر نکل کے دیکھیے۔ پارٹی آپ کو ہزار بار یہ باور کراے کہ اس کے رہنما بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری عدالتوں کے سامنے سرخرو ہوئے ہیں۔ پتہ کرنے والی بات یہ ہے کہ آج عوام کی پیپلز پارٹی کے بارے میں کیا رائے ہے۔
پی پی پی کے بارے میں خاص طور پر سندھ کے دیہی علاقوں سے باہر یہ رائے اس قدر عام ہے کہ گویا پارٹی نے کرپشن کے لیبل پر اپنے ملکیتی حقوق ثابت کر دیے ہیں۔ یہ پیپلز پارٹی نے ثابت نہیں کیے، یہ واردات اس کے مخالفوں کی ہے۔ پیپلز پارٹی محض اپنے خلاف ان دعووں کی نفی کرنے میں ناکام رہی۔
زرداری کی جگہ بلاول آ گئے ہیں لیکن ہمارے کان اس اعلان کو ترس رہے ہیں جس کے تحت فلاں فلاں صاحبان کو پی پی سے نکالا جائے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ ایسا کوئی عمل سیاسی خود کشی کے مترادف ہو گا۔ یہ اعتراف ہوگا پیپلز پارٹی میں بد عنوانوں کی موجودگی کا۔
سیاستدانوں اور سیاست کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ یہی مجبوریاں انھیں بہت سی حقیقتوں سے منہ چرانے کی عادت ڈال دیتی ہیں۔ اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرنا جائز ہے۔ قانون کے بل بوتے پر ہر حکومت اپنے مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی۔
پی ٹی آئی کو یہ بات معلوم ہو گی۔ بات یہ ہے کہ کسی کو بھی کسی قسم کا آسان حملہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے مگر ایک حالیہ واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ اں صافی بھی اپنے آپ کو نشانے پر رکھنے کی کافی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لاہور کے ایک حلقے میں، جہاں اگلے ماہ ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، اس وقت انتہائی دلچسپ صورتحال ہے۔ این اے 133 میں یہ انتخاب مسلم لیگ نون کے رہنما پرویز ملک کے انتقال کی وجہ سے منعقد کیا جا رہا ہے۔
یہاں پر پاکستان تحریک انصاف نے جمشید اقبال چیمہ کو اپنا امیدوار نامزد کیا اور جیسا کہ عام روایت ہے، ان کی بیگم کو ان کی کورنگ امیدوار کے طور پر کھڑا کیا۔ مگر جیسا کہ کہا جاتا ہے، حالات کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
یقیناً یہ ایک کڑا امتحان تھا کیونکہ لاہور میں ن لیگ کو ہرانا ا آج بھی ایک ناممکنات میں نہیں تو اس کے آس پاس کی چیز ضرور ہے۔ مگر آفرین ہے چیمہ صاحب اور ان کی بہتر نصف پر کہ وہ اس امتحان سے ایسے گزر گئے جیسے کوئی باغ میں چہل قدمی کر رہا ہو۔ صاف اور شفاف۔
چیمہ صاحب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا۔ وہ پہلے بھی الیکشن لڑتے اور لڑواتے رہے ہیں لیکن اس بار وہ ایک انتہائی بنیادی غلطی کے مرتکب ہوئے اور نتیجتاً ایک کڑی آزمائش سے بچ گئے جس میں وقت بھی بہت صرف ہوتا اور پیسہ بھی اچھا خاصا لگ جاتا۔
مسٹر اینڈ مسز جمشید اقبال چیمہ اس تقریب انتخاب میں شرکت کے لیے نا اہل قرار پائے ہیں محض اس لیے کے ان کو الیکشن کی دعوت دینے والا یعنی ان کا تجویز کنندہ، اس شرط پر پورا نہیں اترتا تھا جس کے تحت اس شخص کا اس حلقہ کا رہائشی ہونا لازم تھا۔
اس غیر جبری نا اہلی کے بعد تحریک انصاف نے جو بھی چھوٹا موٹا کچھ شور مچایا، وہ معاملہ کی مضحکہ خیزی کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔ مطلب سوچیے اس پارٹی کے بارے میں جس کا سارا زور کرپٹ یعنی بد عنوان لوگوں کو جیل کی راہ دکھانے اور سیاست سے بابر کرنے پر ہو وہ یہاں اپنے مد مقابل کو یہ طعنہ دیتا پکڑا جائے کہ ہمت ہے تو یہ تکنیکی اعتراض واپس لو اور اصلی سیاستدانوں کی طرح سیاسی نا کہ قانونی طریقہ سے اس معاملہ کو حل کرے۔
پی ٹی آئی کا یہ مطالبہ، التجا یا اپیل اس کے اپنے اس بیانیہ سے مطابقت نہیں رکھتی جس میں ملک کا سب سے بڑا احتسابی ادارہ نیب ایک مرکزی کردار میں موجود ہے۔ ابھی کل کی ہی خبر تھی وزیراعظم کے کرپشن کے خلاف عزم کے بارے میں جو انھیں قانون میں ترمیم کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ مقصد ہے کہ کوئی کرپٹ فرد انصافی جال سے بچ نکلنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ کیا یہ ہمیشہ کے لیے طے ہو چکا ہے کہ قانونی راہ پر چل کر کس کس سیاستدانوں کو روکا جا سکتا ہے؟
جو صاحب اقتدار ہیں وہ یاد رکھیں پروپیگنڈہ اور سب سے بہترین پروپیگنڈہ کرنے والے چاہے وہ میڈیا میں ہوں یا اس سے باہر ان پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ آج جو لوگ وہاں شکایت لے کر جاتے ہیں کل کٹہرا بھی ان کا مقدر ہو سکتا ہے۔ سیاست میں کوئی کیس، کوئی فیصلہ آخری نہیں اور جیوری کی رائے میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ