جذبات کی دُنیاگویاِ ’’جذب‘‘ کی دُنیاہوتی ہے ۔اس دُنیائے آب وگل میں موجودبھی اوراس سے جدابھی۔آبگینوں سی نزاکت اور دلکشی لیے جذبوں کاجہان، میرتقی میرسے مستعار ترکیب کے مصداق اِک’’ کارگاہِ شیشہ گری‘‘ ہے جہاں ہلکی سی لرزش بھی ان آبگینوں کوٹھیس پہنچاسکتی ہے۔جذبوں کی اسی حساسیت کے پیشِ نظران کے اظہارکے لیے بھی کومل اورشائستہ سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔اُردوزبان کی شائستگی اورنفاست ان کومل جذبوں کواپنے اندرسمونے اوراظہارکاروپ دینے کے لیے انتہائی موزوں ہے۔
بات کرنے کاحسیں طورطریقہ سیکھا
ہم نے اُردوکے بہانے سے سلیقہ سیکھا
موجودہ زمانے میں جذبوں کی کوملتاکولفظوں کی زبان عطاکرنے کے لیے اُردوکاسہارالینے والوں میں ایک نام ایازمحمودیازکابھی ہے۔ان کی شاعری احساس وجذبے کی نرم وگرم دھوپ سے عبارت ایک ایساآئینہ ہے جس میں ہرحساس دل اپناعکس دیکھ سکتاہے۔’’میں نے یہ جاناکہ گویایہ بھی میرے دل میں ہے ‘‘کے مصداق ہرشخص کوان کے اشعارمیں اپنی کہانی اوراپنادکھ دکھائی دیتا ہے۔ایازمحمودایازکاشعری سفران کے شعوری سفرکاترجمان ہے۔اس سفر کی پہلی منزل محبت کے عطاکرددہ دکھ ہیں جوکبھی یادکاروپ دھارلیتے ہیں اورکبھی آنسوؤں کی صورت شاعر کے کتھارسس کاباعث بنتے ہیں۔جدائی اوراس کے ستم اگرچہ جاں سوزہوتے ہیں اورایک وقت ایسا بھی آتاہے کہ آنکھوں سے اشکوں کی بجائے’’ لوہو‘‘بہنے لگتاہے ۔مگریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں یہ غم ہمارے شاعر کونڈھال کرتے ہیں،اس کی رُوح کوزخم لگاتے ہیں وہیں اس کی شعوری بالیدگی کے لیے مہمیزکاکام بھی کرتے ہیں اوراس کافن ان سے نکھارپاتاہے۔یہاں ’’یاد‘‘،’’سفر‘‘،اور’’انتظار‘‘کے استعارے ناصرکاظمی کی یاددلاتے ہیں۔ کچھ اشعارنذرِقارئین ہیں:
چھپ چھپ کے تیرے ہجرمیں روناتھاہمارا۔۔۔یہ حال کسی روزتوہوناتھاہمارا۔خیمہ دل سے باندھ رکھی ہیں۔۔۔تیری یادوں کی رسیاں ہم نے۔کتنی دلچسپ کہانی میں چلاآیاہے۔۔۔وہ میری آنکھ کے پانی میں چلاآیاہے۔تم جوہوتے توزندگی ہم سے۔۔۔ تلخ لہجے میں بات کیوں کرتی۔ہم کہاں دشت میں دیواربنانے نکلے۔۔۔جس کوآناہی نہیں تھااس کوبلانے نکلے۔ہم محبت کشیدلوگوں پر۔۔۔عشق صدمے بحال رکھتاہے۔کتنے ہی اختلاف تھے اس شخص سے مگر۔۔۔بچھڑاتوجیسے دل پہ قیامت سی ڈھاگیا۔دل میں کچھ ٹوٹ ساگیاہوگا۔۔۔اس کی یادآنسوؤں سے ترآئی۔اب بھی لگتاہے پیارہے اس سے۔۔۔اس کوسوچاتوآنکھ بھرآئی۔۔۔دب جائے کسی یادکی زنجیرکاماتم۔۔۔اے تیزہواشورکی پازیب بجادے۔تمہارے ہجرکے ماہ وسال سہتے ہوئے۔۔۔میں تھک گیاہوں سفرکے ملال سہتے ہوئے۔زندگی بھرکمال کرتارہا۔۔۔میں تمہاراملال کرتاہے۔
ان تمام اشعارمیں نرم وکومل جذبے اپنی چھب دکھاتے ہیں جوکہ شاعر کی حساسیت کے غمّازہیں۔یہیں سے ہمارے شاعرکے شعوری سفرکااگلامرحلہ اپناآغازکرتاہے۔شاعر جب دکھ اورغم کی بھٹی سے نکلتاہے توکُندن کاروپ دھارلیتاہے۔اب وہ زمان ومکان سے بے نیاز’’تلاشِ ذات‘‘ میں سرگرداں ہوتاہے۔ایک پیارے کے انتظارکی تڑپ اورلوٹ آنے کی آرزوشاعرکودروں بینی پرآمادہ کرتی ہے جس کے بنا تکمیلِ ذات ممکن نہیں۔وہ اپنی ذات کی بھول بھلیوں میں اپنے آپ کوتلاش کرتاہے۔
دل پہ ہرپل خراش رہتی ہے۔۔۔مجھ کومیری تلاش رہتی ہے۔
اس دوران شاعر کواپنے من کے بھیتردکھوں کاایک جہان آباددکھائی دیتاہے۔وہ ان زخموں کوبارسمجھنے کی بجائے حرزِجاں بنانے کوترجیح دیتاہے اوراس کااظہارکچھ یوں کرتاہے۔مجھ میں رہ کر بڑے ہوئے ہیںیہ۔۔۔میرے دُکھ بھی تومیرے بچے ہیں۔بیتے لمحوں کاساتھ رکھنے کو۔۔۔میں نے زخموں کی پرورش کی ہے۔
اپنی ذات کے اس سفرمیں شاعر کوگوناگوں تجربات سے گزرنا پڑتاہے۔ایک جہانِ دیگرہے جس سے اس کوواسطہ پڑتاہے۔اس مرحلے پرشاعرکواحساس ہوتاہے کہ دکھوں نے اسے پاش پاش توکیاہے مگرانہی کرچیوں سے ایک نئی ذات نے بھی جنم لیاہے۔غموں کے ہاتھوں صیقل ہونے کااحساس اس کی شاعری میںیوں نمودپاتاہے۔تم پڑھومعنی ومفہوم لکھے لفظوں کے۔۔۔میں توچہروں پہ لکھی دل کی زباں جانتاہوں۔اب شاعر انسانی نفسیات کی گہرائیاں بھی ناپتادکھائی دیتاہے ۔اس بے حس دنیامیں انسان کواپنی بقاکی جدوجہدجاری رکھنے کے لیے کئی بہروپ بھرنے پڑتے ہیں۔نفسیات ان بہروپوں کو’’پرسونا‘‘کانام دیتی ہے۔صرف تنہائی ہی اس ’’پرسونا‘‘کو بے نقاب کرتی ہے۔جہاں انسان اوراس کی تنہائی آپس میں لپٹ کرروتے ہیں۔
خوشی کی رنگت کارنگ چہرے پہ مل رہاہوں۔۔۔کسے خبرہے میں کتنااندرسے جل رہاہوں
شاعر کا وہ سفر جوبیرونِ ذات سے شروع ہواتھا،شعورِذات کا مرحلہ طے کرنے کے بعد پھرباہر کارُخ کرتاہے۔اب اس کی شخصیت کی زنبیل میں تجربوں کے موتی بھی ہیں اوراحساسِ ذات کے جواہربھی ۔اس کاشعوراگلی منزل کی طرف گامزن ہے۔یہاں ایازمحمودایازکی شاعر ی کاکینوس مزیدوسیع ہوتاہے جہاں ایک طرف ذاتی تجربات اورشعورِذات کے رنگ بکھرے دکھائی دیتے ہیں وہیں عصری شعورکے رنگ زیادہ نمایاں ہورہے ہیں۔زمانہ یاعصرجوسنگ دَل بھی اوررحم ناآشنابھی۔جہاں جھوٹ کابول بالاہے اورسچائی کامنہ کالاہے۔جہاں بقول احمدندیم قاسمی کسی کااچھاہونااس کی معتوبی کاسبب بن جاتاہے۔جہاں اونچی اُڑان کاخوف پرندوں کے پرکاٹ دینے پرمجبورکردیتاہے اورتتلیوں کی خوبصورتی ہی ان کی موت کاسبب بن جاتی ہے۔جہاں جنگل کاقانون رائج ہے مگرجنگلوں میں بھی توکوئی قانون ہوتاہے۔جہاں دوست آستینوں میں خنجرچھپائے بیٹھے ہیں اوربشر،بشرکوکاٹ رہاہے۔ زہرچھڑکاہواتھاپھولوں پر ۔۔۔ تتلیاں مرگئی ہیں چپکے سے ۔شاعر کی جان کوکہیں سُکون نہیں کہ پہلے غمِ جاناں نے رُوح کومضمحل کررکھاتھالیکن غمِ دوراں نے خون کاآخری قطرہ تک نچوڑلینے کی ٹھان رکھی ہے۔ یہ غم اسے زندہ ہی مارڈالتاہے۔یہاں وہ اپنے آپ سے بھی خوفزدہ دکھائی دیتاہے۔زمانے بھرسے ٹکراناپڑاہے۔۔۔مجھے زندہ ہی مرجاناپڑاہے۔محبت نے ہراساں کردیاہے۔۔۔میں اپنے آپ سے ڈرنے لگاہوں۔
۔ ایازمحمودایازکاپہلاشعری مجموعہ محض سولہ برس کی عمرمیں منظرِ عام پرآیااوراب تک ان کے چھ شعری مجموعے ’’خزاں کی آخری شب‘‘،’’ترکِ مراسم‘‘،تنہائی سے ڈرلگتاہے‘‘،آرزوئے جاں‘‘،’’تم شرطِ زندگی ہو‘‘ اور’’سنوتم لوٹ آؤنا‘‘کے نام سے زیورِطبع سے آراستہ ہوچکے ہیں جوسبدِ گل فروش کی مانندگلہائے رنگارنگ سے مزیّن ہیں۔ان کاشعری اورشعوری سفرابھی جاری ہے لیکن ایک طویل سفر طے کرنے کے باوجودابھی بہت سے مراحلِ عشق باقی ہیں جویقیناًان کواردوشاعری کے آسمان کادمکتاستارہ بنادیں گے۔
فیس بک کمینٹ