آوازیں خاموش کرائی جا رہی ہیں ۔ گُھٹن اور حبس زدہ ماحول ہے ۔ اطراف میں بندوقیں تانے خطر ناک چہرے ہیں ۔ زباں بندی کے احکامات ایک مدت سے صادر ہو چکے ہیں ۔ فکر مقید ہے۔ سوچ مصلوب ہو رہی ہے۔ شعور کا قتلِ عام برسرِ عام ہو رہاہے۔ ریاست خان ببانگِ دہل جبر اور تشدد کا مرتکب ہورہا ہے۔منصفوں کے چہرے مہلک مناظر پیش کر ہے ہیں ۔ انصاف معدوم ہو چکا ہے ۔ تاریکی ترکِ وطن پر مجبور کر ہی ہے لیکن کیا کریں؟ ہجرت نہایت ہی تلخ ہے۔ دھرتی ماں کی جدائی نا ممکن ہے۔ ریاست خان کا جبر اور اس کے مسلح جتھوں اور تزویراتی اثاثہ جات کی دھمکیاں اور اذیتیں سب مل کر بھی ہمیں اور ہمارے شعور کو قتل نہیں کر سکتیں ۔ ایسی حرکتوں سے ان کا امیج تو بہتر نہیں ہو گا۔ شہادت پاکر سلجھی سوچ عالم گیر شہرت حاصل کر لیں گی۔ خواہ ہم پر کوڑے برسیں یا ہمیں پار کر دیا جائے۔ جبری اغواءکا عمل بھی افکار پر بندشیں عائد نہیں کر سکتا۔ ان کا اپنا کردار اور بد نما چہرہ کسی نے ملاحظہ کیا ۔۔؟ یہاں بھائی زاہد گشکوری کا یہ سٹیٹس نظام کہن کا منہ چڑارہا ہے کہ بے چارے تلور کی قربانی پانامہ سکینڈل کے لیے ، کالے بکرے کی پی آئی اے کے لیے ، پرویز رشید کی ڈان لیکس کے لیے ۔۔لیکن کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ کے تناظر میں کس کی قربانی ہو ؟ سر راہے زاہد بھائی کا سٹیٹس بطور حوالہ دینا دل کو اضطراب سے نکالنے میں کچھ مدد گار ثابت ہوا۔ یہ نظام جو محض سرمایہ دارانہ ، جاگیر دارانہ اور اجارہ دارانہ ہے، تنقید برائے اصلاح کا ارتکاب کرنے والوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کر دیتا ہے۔اس ظلم پر اس سسٹم کے حواری اپنی عیاشی کو ترجیح دیتے ہوئے خاموش رہتے ہیں ۔ ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا ۔
فیس بک کمینٹ