اگرچہ ہمارے ملک میں سارا سال شادیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن کچھ خاص مہینے ایسے ہیں جن میں ہر سال لاتعداد شادیاں ہوتی ہیں۔ جیسا کہ آج کل شادیوں کا سیزن ہے، ہمارے کتنے ہی بچپن کے دوست جن پر ہمیں بھر پور اعتماد تھا ، وہ باقی تمام دوستوں کے ساتھ کیے گئے سب عہد توڑ کر آخر کار شادی شدہ قرار پائے۔ اور ان سب کے شادی کرنے کی وجہ سے اب تک تعداد کے حساب کے مطابق ہماری لاتعداد بھابھیاں بن چکی ہیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے کلاس فیلوز میں وہ دوست جو بڑی مشکل سے کلاس میں پاس ہوتے تھے ان کی بھی شادی ہو چکی ہے۔ جب بھی ہمارے کسی دوست کی شادی ہوتی ہے تو باقی تمام دوست اتنے”پر جوش” نظر آتے ہیں کہ جیسے شہ بالا انہی کو بننا ہے اور پھر دلہن کے ساتھ دودھ پلائی اور جوتا چھپائی کی رسم میں بھی شریک ہونا ہے ۔ مہندی سے لے کر ولیمے تک سب دوست "حسب استطاعت” دولہا میاں کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے ہیں ۔مثال کے طور پر مہندی والے دن کے لیے دوستوں کے مشورے کچھ ایسے ہوتے ہیں "یار تم ہاتھوں کے اوپر شاپر چڑھا لینا تاکہ مہندی سے ہاتھ خراب نہ ہوں۔ہاں تم شرمیلی شرمیلی مسکراہٹ بھی ضرور دینا اور اس کے علاوہ اس دن نظریں بھی نیچی رکھنا تا کہ لوگوں کو یقین ہو جائے کہ بندہ ’’انتہائی شریف” ہے۔ عین شادی والے دن دولہا میاں سب سے زیادہ "کنفیوز” ہوتے ہیں۔ یہ اس کی زندگی کا واحد دن ہوتا ہے جب اسے تین سے چار گھنٹے کے لیے مکمل "خاموشی” اختیار کرنا پڑتی ہے یا پھر ہلکی پھلکی مسکراہٹ اور انتہائی شرافت کے ساتھ ٹائم گزارنا ہوتا ہے۔ تمام احباب کی نظریں بھی دولہا میاں پر ہوتی ہیں۔ اور سب سے زیادہ عزت بھی پہلی بار دولہا کو ہی مل رہی ہوتی ہے۔ ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے تبصرے بھی دولہا میاں سے ہی متعلق ہوتے ہیں۔ جب تک کہ کھانا نہ لگ جائے اور پھر جیسے ہی کھانا لگتا ہے تو ڈونگوں، چمچوں، برتنوں کا وہ کھڑاک ہوتا ہے کہ جیسے وہاں پر موجود سب احباب نے کوئی گزشتہ ایک ہفتے سے کھانا نہیں کھایا۔ جیسے ہی رخصتی کا وقت آتا ہے تو سب سے زیادہ پراعتماد بھی دولہا صاحب ہوتے ہیں کیونکہ اب ا ن کو یقین ہوتا ہے کہ وہ خالی ہاتھ واپس نہیں جا رہے۔ ہمارے ایک دوست نے تو اپنی شادی والے دن رخصتی سے پہلے ہی بھابھی صاحبہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اپنا یقین ایسا پکا کیا کہ جب تک وہ بھابھی کو ساتھ لے کر گاڑی میں نہ بیٹھے انہوں نے ہاتھ نہیں چھوڑا۔ شادی کے بعد دولہا کے لیے سب سے صبر آزما دن ولیمے کا دن ہوتا ہے۔ جب اسے تما م دوستوں کی اشاروں، کنایوں میں کی گئی دھواں دھار باتوں کا جواب انتہائی خوش اخلاقی، مسکراہٹ اور دور اندیشی کے ساتھ دینا پڑتا ہے۔
ہمارے ایک دوست تو ایسے خوش نصیب ہیں کہ وہ جب بھی کسی لڑکی سے شادی کا منصوبہ بناتے ہیں تو کچھ ہی دنوں میں اس لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے۔ بس اسی آس میں اب وہ زندگی گزار رہے ہیں کہ دوسروں کے گھر آباد کرنے سے ان کو اب تک کتنی نیکیاں مل چکی ہوں گی۔
دانا لوگ کہتے ہیں کہ جو شادی کرے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کرے وہ بھی پچھتائے۔ پہلی بات پر تو ہم پورا نہیں اترتے اور دوسری بات ہم پر پوری نہیں اترتی۔ لیکن ہم یہ سوال شادی کی ہر محفل میں شادی شدہ دوستوں اور کنوارے دوستوں سے ضرور کرتے ہیں، اور جوابات سن کر ششدر رہ جاتے ہیں کیونکہ ہمارے وہ تمام دوست جن کو شادی سے پہلے ہم "اینویں” ہی ٹریٹ کرتے تھے، شادی کے بعد وہ بالکل ” ڈپلومیٹک” سٹائل سے ہر بات کا جواب دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ابھی تک ہم اس بات کے کھوج میں ہیں کہ یہ شادی کا اثر ہے یا پھر بھابھی کا۔
عموماً شادی کی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ اپنی مرضی سے شادی یا پھر دوسروں کی مرضی سے شادی۔ یہ آپ ہر منحصر ہے کہ آپ شادی کے لیے کون سا راستہ چنتے ہیں کیونکہ دونوں صورتوں میں بالآخر قربانی کا بکرا آپ ہی بنتے ہیں۔ ویسے جو لوگ شادی نہ کر کے پچھتا رہے ہیں ان کے لئے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ شادی کر کے پچھتائیں ۔ اس طرح بعد میں ان کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی کہ کون سا پچھتاوا زیادہ بہتر ہے۔
فیس بک کمینٹ