کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے ہونے سے ہم خود کومعتبر سمجھتے ہیں ۔وہ مسلسل کام کرتے ہیں ،انتھک محنت کرتے ہیں ۔ وہ کوئی شارٹ کٹ اختیار کرنے کی بجائے اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے بڑھتے ہیں ۔ وہ اپنی شہرت کے لیے کسی ادبی مرکز کے محتاج نہیں ہوتے ہوتے ۔کسی بڑے شہر میں ہجرت کرنے کی بجائے اپنی دھرتی اور اپنی جنم بھومی کو اپنا مسکن اور اپنی پہچان بناتے ہیں ۔ بڑے شہروں میں جا کر میڈیا کے زور پر اپنا نام بنانے والے کتنے ہی بڑے اور معتبر کیوں نہ ہو جائیں ایسی ہستیوں کے سامنے بونے نظر آتے ہیں ۔ ایسی ہی ایک ہستی ہمارے ملتان میں تھی جس نے ہمارے ملتان کو ملتانِ معلی بنا دیا ۔ 30 ا پریل 1939 میں پاک گیٹ کے محلہ بھیتی سرائے میں پیدا ہونے والے اسلم انصاری نے اورینٹل کالج لاہور سے اردو اور بعد ازاں زکریا یونیورسٹی ملتان سے فارسی میں ایم اے کیا ۔لاہور میں قیام کے دوران انہیں ناصر کاظمی ، احمد ندیم قاسمی ، خواجہ محمد زکریا ڈاکٹر سید عبداللہ سمیت اس زمانے کی نام ورشخصیات کی رفاقت میسر آئی ۔ یہ 1960 سے 1962 کا زمانہ تھا اور اسلم انصاری صاحب اس زمانے میں کالج کے مشاعروں میں ٹرافیاں جیت کر اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرا چکے تھے ۔
ڈاکٹر اسلم انصاری کو بعد ازاں بارہا یہ احساس ہوا اور انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا کہ اگر وہ ملتان واپس نہ آتے تو ان کا شمار بھی شاید ان شخصیات میں ہوتا جو ادبی مراکز کی وجہ سے معتبر ٹھہریں لیکن پھر وہ اس بات پر بھی اطمینان کا اظہار کرتے تھے کہ انہوں نے ملتان میں رہ کر دنیا بھر میں خود کو تسلیم کرایا ۔ انصاری صاحب ملتان میں رہے اور ملتان کی پہچان بنے ۔ بلا شبہ ہم آج ایک تہذیبی شخصیت سے محروم ہو گئے ایک ایسی شخصیت جسے انتہاپسندوں نے صرف اس لیے قبول نہ کیا کہ اس نے سرائیکی ناول تو لکھا لیکن غزل میں اردو کو ہی ذریعہ اظہار بنایا ۔
اسلم انصاری صاحب سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی یہ تومجھے یاد نہیں لیکن ان کے ساتھ پہلا تعارف 1980 میں ہوا تھا جب میں نے پہلی بار غلام عباس کی آواز میں ان کی وہ غزل سنی جس نےمقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے ۔ پھر یہی غزل استاد غلام عباس کی پہچان بنی اور غلام عباس صاحب نے ایک بار ہمیں خود بتایا تھا کہ یہ غزل ریڈیو پاکستان کی سب سے زیادہ سنی جانے والی غزلوں میں سے ایک ہے ۔ جب میں نے پہلی بار یہ غزل سنی تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ غزل کے گائیک اور شاعر دونوں کا تعلق میرے شہر ملتان سے ہے ۔پھر کالج کازمانہ آیا اور ہماری ڈاکٹر صاحب سے مختلف تقریبات میں ملاقاتیں ہوئیں ۔ مختلف اخبارات میں کام کے دوران ڈاکٹر صاحب کا ایک سے زیادہ مرتبہ انٹرویو کیا ۔ یادوں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جو اس وقت مجھے اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے ۔ پہلے یوم تکبیر پر لیاقت پور پریس کلب کے مشاعرے میں ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ شرکت ہو یا اہل قلم کانفرنس میں شرکت کے لیے ایک ہی پرواز میں اسلام آباد تک کا سفر ، یہ سب کچھ زندگی کا ایسا خوبصورت اثاثہ ہے کہ جس پر میں جتنا بھی فخر کروں کم ہے ۔
انصاری صاحب کے ساتھ ہماری بے تکلفی بھی رہی اور انہوں نے قدم قدم پر ہماری حوصلہ افزائی بھی کی ۔ سال 2000 میں میرا شعری مجموعہ ستارے مل نہیں سکتے شائع ہوا تو پذیرائی کے لیے تعارفی تقریب میں اقبال ساغر صدیقی اور عاصی کرنالی کے ہمراہ ڈاکٹر اسلم انصاری بھی موجود تھے ۔ عرش صدیقی صاحب کے انتقال کے بعد ہم نے عرش صدیقی اکیڈمی کی بنیاد رکھی تو افتتاحی تقریب میں اسلم انصاری موجود تھے ۔ پھر جب آرٹس کونسل میں ادبی بیٹھک کا اجرا ہوا تو ہم اس کے مختلف اجلاسوں میں انصاری صاحب کو زحمت دیتے تھے ۔ کوئی نہ کوئی دوست انہیں گھر سے لےکر آتا ۔ ہم ان کا طویل انتظار بھی کرتے لیکن انصاری صاحب کبھی ہمیں مایوس نہیں کرتے تھے ۔
انصاری صاحب کو بے پناہ محبتیں ملیں اور اس کے نتیجے میں وہ نرگسیت کا بھی شکار ہوئے ۔ اور اس نرگسیت نے بھی انہیں تقریبات اور ہجوم سے دور رکھا ۔ ناصر کاظمی کےساتھ ان کی دوستی اور ان کی ملتان واپسی پر ناصر کاظمی کی غزل
’’وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں بال بناؤں کس کے لیے ‘‘تاریخ کا حصہ ہے ۔
انصاری صاحب کے فن کی کئی جہتیں تھیں ۔اقبالیات پران کی ایک سے زیادہ کتب ہیں ، خواجہ غلام فرید کی کافیوں کا انہوں نے انگریزی میں ترجمہ کیا ۔اپنی کتاب ملتان شہر طلسمات میں انہوں نے ملتان کو بہت خوبصورت انداز میں محفوظ کیا ۔ وہ اس شہر کی تاریخ کے ایسے گوشے سامنے لائے جو اس سے پہلے کسی اوجھل تھے ۔ملتان آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے انہوں نے اس زمانے میں خدمات انجام دیں جب یہ ثقافتی مرکز ابتدائی مراحل میں تھا ۔ انصاری صاحب نے اس کے خدوخال کو ترتیب دیا اور ایسی مضبوط بنیاد رکھی کہ یہ ادار ہ اب ایک بڑے ثقافتی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔
انصاری صاحب نےبہت سے مشکل موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ۔ ادب میں سیر افلاک کی روایت ایسا ہی ایک موضوع تھا ۔ کئی سال پہلے میں نے ان کا یہ مضمون پڑھا اور حیران رہ گیا کہ انہوں کس خوبصورتی سے اس موضوع کا احاطہ کیا ۔
22 اکتوبر کو ہم نے ملتان کے اس سپوت کو بہت شان کے ساتھ رخصت کیا ۔ اور رات کے اس پہر جب میں یہ مضمون تحریر کر رہا ہوں تو سوچ رہا ہوں کہ یہ پہلی رات جب ملتان کو ملتانِ معلیٰ بنانے والا اس شہر سے ہمیشہ کےلیے جا چکا ہے ۔وہ جس کی وجہ سے یہ شہر معتبر تھا اب اس شہر میں نہیں رہا ۔ وہ اسی شہر کی مٹی کو اوڑھ چکا ہے جس شہر کی گلیوں میں وہ چنیدہ مکاں دیکھتا تھا ۔ اور پھر میرے ذہن میں بار بار ناصر کاظمی کا وہ مصرعہ گونجتا رہا جو انہوں نے انصاری صاحب کے لیے کہا تھا ۔ اور میں اسی مصرعے کے ایک حصے کو اس مضمون کا عنوان بنا رہا ہوں ۔
فیس بک کمینٹ