لاہور سے پنڈی جانے والی ریل کار میں وہی میلی سفید وردی میں ملبوس کھچڑی بالوں والا زرد روبیرا تھا اور وہی کلف لگے ہوئے مسافر تھے۔ گاڑی ا سٹیشن سے باہر نکلی تو کچھ ہی دیر بعد کھچڑی بالوں والے بیرے نے آرڈر لینے شروع کر دئیے اور پھر اس نے نشستوں کے بازوؤ ں میں ٹرے کے لئے بنے ہوئے سوراخوں میں ماچس کی تیلی پھنسا کر ٹرے سجانے شروع کر دئیے۔ میری پچھلی نشست پر ایک نوجوان جوڑا بیٹھا تھا جو اپنی چار سالہ گڑیا سی بیٹی کے ساتھ مسلسل انگریزی بولنے میں مشغول تھا۔ یہ گڑیا بھی انگریزی بولتی تھی ۔میرے دائیں ہاتھ والی سیٹ پر دو جوان جہان لڑکیاں بیٹھی تھی ان میں سے ایک کے بال کٹے ہوئے تھے اور دوسری نے اپنے گھنے ریشمی بال شانوں پر پھیلائے ہوئے تھے ۔ اس کی لمبی لمبی انگلیوں میں جلتا ہوا سگریٹ تھا جسے تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ ہونٹوں سے لگا لیتی تھی۔یہ دونوں پاکستانی لڑکیاں بھی انگریزی میں ہی ایک دوسرےسے محو گفتگو تھیں۔ ان سے اگلی نشست پر ایک لڑکا اور ایک لڑکی بیٹھے تھے وہ سب سے بے نیاز پوری محویت کے ساتھ آہستہ آہستہ باتیں کرنے میں مشغول تھے ۔ لگتا تھا نئی نئی شادی ہوئی ہے یا پھر یہ کہ نہیں ہوئی ہے۔ مجھ سے اگلی نشست پر ایک گھریلو قسم کی عورت نے ساتھ والی نشست پر اپنے چھ سات ماہ کے بچے کو کمبل میں لپیٹ کر لٹایا ہوا تھا خود بیٹھی سوئیٹر بن رہی تھی۔ اس کے آگے اس خاتون کا شوہر دوشریر قسم کے بچوں کو قابو کیے ہوئے تھا یہ گھٹے ہوئے جسم والا شخص تھا۔ اس نےقیمتی سوٹ پہنا ہوا تھا مگر چہرہ کھردرا تھا اس کے آگے دروازے تک پھیلی ہوئی نشستوں پر متعدد مسافر بیٹھے تھے جن میں سے بیشتر اپنی فیملی کے ساتھ سفر کر رہے تھے شیشے والے دروازے کے آگے دائیں بائیں واقع غسل خانوں کے بعد ایک کیبن تھا جس پر ڈیوٹی پر مامور ریلوے کا ایک ملازم ٹیوب لائٹوں سے متنولاس کی کمپارٹمنٹ کی طرف منہ کئے بیٹھا تھا اس کی نگاہیں مضبوطی سے بند دروازے کا شیشہ چیرتی ہوئی اندر داخل ہوتی تھیں اور پھر اپنی مرضی کے کسی چہرے کے ساتھ چپک جاتی تھیں کمپارٹمنٹ میں خاصی خاموشی طاری تھی یہاں گاڑی کا شور بھی سنسر ہو کر پہنچتا تھا ۔ لوگ ہونٹوں کو میچ کر چائے پینے میں مشغول تھے ’’اسموکر‘‘ لڑکی اور اس کی ساتھی نے اپنے لئے کوک منگوائی تھی۔ اور وہ ہولے ہولے سیپ کر رہی تھی ، گھٹے ہوئے جسم اور کھردرے چہرے والے شخص نے اپنے دونوں بیٹوں کو زبردستی اپنے دونوں طرف بٹھایا ہوا تھا ۔ وہ خود چائے پی رہا تھا اور انہیں اپنے بیگ میں سے کیلے نکال نکال کر کھلا رہا تھا ان میں سے بڑے بچے کی عمر کوئی چار پانچ سال تھی اور وہ ’’دندبوڑا ‘‘تھا اس کے چہرے پر وہ حسن تھا جو قدرت نے تمام بچوں کو یکساں طور پر عطا کیا ہے۔ چھوٹا بچہ کوئی تین سال کا تھا اور وہ بھی بہت پیارا تھا دروازے کے پاس والی نشست سے پھندنے والی ٹوپی پہنے ایک بچہ غالباً اپنے چاروں طرف کمپوز ہو کر بیٹھے ہوئے لوگوں سے اکتا کر اٹھا اور ان دونوں بچوں کے برابر میں آ کھڑا ہوا وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ خیر سگالی کے جذبات کے اظہار کے ساتھ انہیں کھیلنے کی دعوت بھی دے رہا تھا۔ یہ دیکھ کر دونوں بچے اپنی جگہ سے اٹھے مگر ان کے باپ نے انہیں مضبوطی سے بازو سے پکڑ کر دوبارہ بٹھا دیا ۔ یاسر نے اپنے ننھے منے بازو میرے گلے میں ڈال دئیے۔ اور کہا’’ابو میں کھیلوں‘‘ میں نے اس کے گالوں پر بوسہ دیا اور اسے بچے کے ساتھ کھیلنے کے لئے چھوڑ دیا۔ عمر بیٹے نے خود ہی گلے میں پڑی چوسنی پکڑ کر منہ میں ڈال لی تھی۔ اور اب شہناز کی گود میں سر رکھ کر سو گیا تھا کھچڑی بالوں والے بیرے نے ٹرے اور برتن واپس اپنی جگہ رکھ دئیے تھے اور وہ کمپارٹمنٹ سے باہر چلا گیا تھا۔ لوگ اس طرح کمپوز ہو کر بیٹھے تھے ۔ یاسر اور پھندنے والی ٹوپی والے بچے معصوم معصوم سے کھیلوں میں مشغول تھے مگر ارد گرد کے ماحول کے تناؤ کے باعث ان کی شوخیاں کچھ دبی دبی تھیں ،گٹھے ہوئے جسم والے شخص پر کچھ غنودگی سی طاری تھی چنانچہ اس نے آرام دہ نشست کو پیچھے کی طرف سرکا لیا تھا اور اب وہ آنکھیں بند کر کے لیٹا ہوا تھا۔چھوٹا بچہ چپکے سے اپنی جگہ سے اٹھا اور دوڑ کر ان بچوں کے پاس پہنچ گیا ، گٹھے ہوئے جسم والا شخص ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور اس نے تصنع سے بوجھل فضا کا سکوت توڑتے ہوئے بھاری بھر کم آواز میں خالص لاہوری انداز میں اپنے بچے کو آواز دی۔’’شہزادے اوئے‘‘ بچے نے باپ کی طرف دیکھے بغیر اپنی پیشقدمی جاری رکھی۔ بیشتر اس کے کہ وہ پھندنے والی ٹوپی والے بچے کے پاس پہنچتا ۔ گٹھے ہوئے جسم والے شخص نے اسی انداز میں اس بچے کی ماں کو آواز دی(اپنے بچے کو بلا لے کیونکہ وہ شہزادہ چک کاٹتا ہے) اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک بار پھر پورے زور سے آواز لگائی ’’شہزادے اوئے‘‘ مگر شہزادے نے پھندنے والی ٹوپی والے بچے پر اپنے دانت گاڑ دئیے تھے ۔ بچے نے جواب میں چیخنے کی بجائے اسے پکڑ کر زور سے پرے دھکیل دیا اور پھر وہ دونوں ہنسنے لگے۔ انہیں ایک دوسرے سے گتھم گتھا اور ہنستے دیکھ کر بہت سے بچوں نے اپنی نشستوں سے ان کی طرف جھانکا اور پھر اپنی ماؤ ں سے بازو چھڑا کر وہ ان میں شامل ہو گئے ۔ڈپارٹمنٹ کی غیر فطری فضا کو فطرت کے ان معصوم نمائندوں نے زندگی کی رونق سے مالا مال کر دیا۔شہزادہ بچوں کو باری باری ’’چک ‘‘ کاٹنے کی کوشش کرتا تھا۔ جواب میں وہ ہنستے ہنستے ایک دوسرےسے گتھم گتھا ہو جاتے تھے۔گھٹے ہوئے جسم والے شخص نے یہ دیکھ کر آخری دفعہ زور سے آواز لگائی ’’شہزادے اوئے‘‘ اور پھر اس نے آنکھیں بند کر کےنشست کے ساتھ ٹیک لگالی۔
(قند مکرر)
فیس بک کمینٹ