میں اپنی زندگی میں پانچ دفعہ موت کے منہ سے نکلا ہوں۔ ایک تو بچپن میں جب میں ماں کی گود میں تھا میری حالت اتنی غیر ہوگئی تھی کہ ڈاکٹر نے جواب دے دیا تھا۔ اور کہا گھنٹوں کی نہیں منٹوں کی بات ہے ۔ امی جی بتاتی تہیں کہ تمہارے ابا جی کی طبیعت میں اتنی جلد بازی تھی کہ وہ گورکن کو کہہ آئے تھے تاکہ ہر کام وقت پر ہو۔
میں ان کی سب سے آخری اولاد تھا کہ پانچ بیٹیوں کے بعد بھائی جان ضیا الحق قاسمی پیدا ہوئے تھے اور اب دوسرا بیٹا میں تھا۔ اپنی باقی’اموات‘ کا ذکر بھی میں کروں گا۔ پہلے امریکہ میں دو ’متوقع‘ اموات کا ذکر کر لوں۔ پہلی والی تو بس ایسی ہی تھی کہ مجھ سے ون وے کی غلطی سرزد ہو گئی۔ احساس تب ہوا جب سامنے سے ٹرکوں اور کاروں کے غصے بھرے ہارن سنائی دینے لگے۔ خدا کا شکر کہ سماعت اور بینائی صحیح حالت میں تھی چنانچہ میں نے سائیڈ میں پناہ لی۔
لیکن جب میں نے موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ، وہ یاد آتا ہے تو آج بھی خوفزدہ ہو جاتا ہوں ۔ میں نے امریکہ میں جو نوکریاں کیں ان میں ایک ریستوران میں نائٹ منیجر کی تھی۔ ریستوران میرے گھر سے کم وبیش پچاس کلومیٹر پر واقع تھا۔ وہ خوفناک واقعہ سنانے سے پہلے ایک ذیلی واقعہ بھی سن لیں۔ ایک دفعہ میں ڈیوٹی پر جاتے ہوئے وہ ایگزٹ بھول گیا جو مجھے لینا تھا۔ بالکل اجنبی جگہ سے کچھ دیر بعد مجھے تین چار بلیک امریکن نظر آئے۔ انہوں نے ٹراؤزر پر ایک جیکٹ پہنی ہوئی تھی جس کے بٹن کھلے تھے۔ ہٹے کٹے اور شکل سے مسٹنڈے بھی لگتے تھے۔ مگر مجھے ان کے پاس جاکر بریک لگانا پڑی۔ اندر سے میں بے حد خو فزدہ تھا کہ امریکہ میں بیشتر وارداتوں کا بوجھ ان کے ہی کندھوںپر لاد دیا جاتا ہے۔
میں نے ان سے یہاں سے نکلنے کا راستہ پوچھا ان میں سے ایک نے بتایا اور پھر پوچھا کہاں سے ہو میں نے بتایا پاکستان سے۔ یہ سن کر اُن کی خوشی دیدنی تھی۔ مجھ سے کہا تمہارے پاس حشیش تو ہوگی میں نے کہا ہاں ہے مگر پاس نہیں گھر پر ہے۔ انہیں یقین نہ آیا۔ میری اور کار کی تلاشی لینے کے بعد جانے کی اجازت دے دی۔
اب اصل واقعہ… میں رات کو تین بجے موٹر وے سے گھر کو جا رہا تھا۔ یہ جنوری کا مہینہ تھا شدید سردی سے رستے میں گاڑی اچانک رک گئی۔ میں نے بہت دفعہ سیلف مارا مگر بے سود، اگرچہ میں نے لوگوں کو اس موقع پر بونٹ کھول کر تاروں کو ہلاتے جلاتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں نے بھی ٹرائی کرنے کی سوچنے کے بعد دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر وہ کھل نہ سکا۔ پتہ چلا کہ باہر شدید ہوا چل رہی ہے۔ تاہم میں دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو گیا۔ مجھے لگا جیسے مجھے کسی نے برف سے بھرے ہوئے ٹب میں بٹھا دیا ہے۔ تاہم میں ہمت کر کے بونٹ تک پہنچا اسے کھولا مگر کھڑا نہیں ہوا گیا۔ میں واپس کار میں آکر بیٹھ گیا۔ ظاہر ہے انجن بند ہونے کے بعد ہیٹنگ بھی بند ہو گئی تھی۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن اب چوائس میری تھی کہ میں نے باہر سڑک پر بونٹ کے قریب مرنا ہے یا کار کے اندر۔ زیادہ سوٹ تو یہی کرتا تھا کہ کار کے اندر وفات پائی جائے۔ مگر میں ایک دفعہ پھرہمت کرکے باہر آ گیا۔ ایک نیک دل امریکی میری مدد کے لئے کار میں سے باہر آیا۔ اس نے اتنے سارے گرم لباس پہنے ہوئے تھے کہ اسکیمو لگتا تھا اس کے باوجود وہ چند سیکنڈ سے زیادہ باہر نہ کھڑا ہو سکا اور سوری کہہ کر دوڑتا ہوا اپنی کار کی طرف چلاگیا۔
اب واپس کار میں جانے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا میرے جسم سے جان آہستہ آہستہ نکل رہی تھی۔ میں نے کلمہ پڑھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے بعد مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میں ایک پٹرول پمپ کے بینچ پر لیٹا ہوا تھا یہاں کی ہیٹنگ آہستہ آہستہ زندگی کی رمق اندر اتار رہی تھی۔ میرے پاس موٹر وے پولیس کا ایک افسر کھڑا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ پٹرولنگ پر تھا کہ اسے ایک شخص کار کی ٹیک کا سہارا لئے دکھائی دیا۔ اس نے ٹارچ جلا کر کار کا جائزہ لیا کہ کوئی نشہ آور چیز تو نہیں ایسی کوئی چیز نہ ملی پھر اسے اپنی کار میں بٹھا دیا۔ اور پٹرول پمپ پر لے آیا۔ تاکہ زندگی پوری طرح بحال ہو۔ تو آپ اپنے کسی دوست کو فون کریں جو آپ کو یہاں سے لے جائے۔ میں نے طارق کو فون کیا اور صورتحال بتا کر کہ جلدی آنے کی ہدایت کی۔ وہ پہنچا اور اپنے گھر سے میرے لئے دو گرم سویٹراور ایک کمبل بھی مجھ پر ڈال دیا۔ حالانکہ سویٹر پوری طرح گرم تھے اور اس کی ضرورت نہیں تھی۔
میری حالت بہتر دیکھ کر طارق جسے ہم تارا کہتے تھے اور دوست تارا کی بجائے طافہ کہا کرتے تھے اور کہتے ہیں، سو تارے نے میری طرف دیکھتے ہوئے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ ’آج اللہ نے تم سے میری اس حق تلفی کا بدلہ لے لیا ہے‘۔ میں نے یہی ظاہر کیا کہ مجھے اس کی بات کی سمجھ نہیں آئی۔ میں نے یہ کہہ کر کمبل چہر ےتک اوڑھ لیا ’بکواس نہ کرو!‘
میں نے آپ کو اپنے بارے میں یہ تو بتایا نہیں کہ میں ایک عجیب وغریب مخلوق ہوں۔ مثلاً میں نے زندگی میں کوئی خواہش نہیں کی۔ میں نے آج تک جتنی ذمہ داریوں پر کام کیا ہے، وہ میرے خواب وخیال میں بھی نہیں تھیں۔ میرے دوست اور مختلف شعبوں میں تابناک حیثیت کے حامل مسعود علی خاں نے شاید میری گپ شپ کے انداز کو دیکھ کر مجھے مشورہ دیا کہ تمہیں کسی اخبار میں کام کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے صرف خواہش کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنے بہنوئی حبیب اللہ ککرو (یہ کشمیریوں کی ایک ذات ہے) سے جو مجید نظامی صاحب کے دوست تھے، نوائے وقت میں سفارش کیلئے کہا اور میں کالم نگار بن گیا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں لیکچرر بھی بنوں گا۔ مگر ہوا یہ کہ میں ایم اے او کالج کے پرنسپل اور نامور ماہر تعلیم کرامت حسین جعفری کا انٹرویو لینےگیا تو انہوں نے میرے نام کی مماثلت کے سبب پوچھا مولانا بہاؤ الحق قاسمی تمہارے کیا لگتے ہیں۔ میں نے کہا میرے والد ہیں۔ پھر پوچھا کیا کر رہے ہو۔ میں نے عرض کی وہی جس حوالے سے آپ کے پاس آیا ہوں یعنی اخبار نویسی۔ بولے چھوڑو ادھر بطور لیکچرر آجاؤ۔
ان دنوں میرے دوست ایک ایک کرکے امریکہ جا رہے تھے اور مجھے بھی چلنے کیلئے کہتے تھے مگر چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟ سو میں نے جعفری صاحب کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ شاید میں امریکہ جا رہا ہوں۔ یہ سن کر انہوں نے کہا کوئی بات نہیں امریکہ سے جب بھی واپس آؤ، تمہاری لیکچرر شپ موجود رہے گی۔ اب یہ بتائیں کہ جس نے کبھی امریکہ جانے کا سوچا بھی نہیں تھا، دوستوں کے دباؤ میں آکر اپنی موٹر سائیکل تین ہزار روپے میں فروخت کی، تین ہزار ابا جی اور بھائی جان سے لئے، یہ ان کی میرے لئے بڑی قربانی تھی۔ اللہ جانے انہوں نے اتنی بڑی رقم کے حصول کیلئے کیا کیا جتن کئے ہوں گے ۔ بہرحال میں پانچ ہزار روپے میں امریکہ پہنچ گیا۔ باقی ہزار روپے یعنی سو ڈالر بچائے۔
یہ 1970 کی بات ہے اور امریکہ کا پاسپورٹ اتنی آسانی سے مل جاتا تھا کہ اب سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ مگر دوستوں کے سمجھانے کے باوجود میں واپس پاکستان آ گیا اور جعفری صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ انہوں نے میری اپائمنٹ کے آرڈر جاری کئے اور اگلے روز میں لیکچرر بن گیا۔ اور دوسرے ہی دن میرے کولیگز نے جو سب کے سب لیکچرر تھے مجھے پروفیسر صاحب کہنا شروع کر دیا اور مجھے بھی مجبوراً انہیں پروفیسر صاحب کہنا پڑتا۔ اب میری یہ الجھن دورکریں کہ میں نے کبھی اخبار نویسی، امریکہ جانے اور لیکچرر بننے کا سوچا تک نہیں تھا، پھر یہ سب کچھ کیسے ہوا کیا یہ تقدیر کا چکر تھا ؟
1996 کے عام انتخابات میں میں نے مسلم لیگ (ن) کی حمایت میں پے درپے کالم لکھے۔ اس وقت پی ایم ایل این اپنی مقبولیت کے عروج پر تھی چنانچہ بھاری اکثریت سے جیت گئی۔ جس روزرزلٹ کا اعلان ہوا اس روز لاہور کی ساری سڑکوں کا رخ ماڈل ٹاؤن کی طرف تھا کہ لوگ قطار اندر قطار میاں نواز شریف کو مبارک باد کہنے ماڈل ٹاؤن کا رخ کر رہے تھے۔ میں بے حد خوش تھا مگر مبارک باد کہنے نہیں گیا کہ مجھے اس کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ تین چار روز کے بعد فون کی گھنٹی بجی، میں نے ریسور اٹھایا تو دوسری طرف میاں نواز شریف تھے۔ بہت محبت بھرے انداز میں کہنے لگے ’قاسمی صاحب آپ نے تو مجھے مبارک نہیں دی۔ سوچا میں ہی یہ کام کیوں نہ انجام دوں‘۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا میاں صاحب مجھ سے زیادہ خوشی اور کس کو ہو سکتی ہے مگر اسے سینے میں دبائے رکھا۔ اب ذرا میاں صاحب کی انکساری ملاحظہ فرمائیں بولے ’آپ کل مجھے پندرہ منٹ عطا کر سکتے ہیں‘۔ میں نے عرض کی میاں صاحب یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ آپ وزیراعظم پاکستان ہیں۔ آپ بتائیں کتنے بجے حاضر ہو جاؤں۔
میں بات مختصر کرتے ہوئے بتاتا ہوں کہ گیارہ بجے کا ٹائم طے ہوا۔ اس وقت ہال مبارک باد کہنے والوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میاں صاحب ایک چھوٹی میز کے گرد بچھی دو کرسیوں کی طرف لے گئے۔ انہوں نے کہا آپ بتائیں آپ کس شعبے میں پاکستان کی خدمت کر سکتے ہیں۔ میں نے یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا ۔ چنانچہ میری اور ان کی تکرار میں پندرہ منٹ گزر گئے۔ بالآخر انہوں نے مجھے ناروے میں پاکستان کا سفیرمقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں اگر اس کے بعد کی اپنے انکار کی تفصیل بیان کرنے لگوں تو وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے میرے تین گواہ ہیں۔ مجید نظامی جو اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، مجیب الرحمان شامی اور تسنیم نورانی میرے گواہ ہیں۔ ان سے پوچھ لیں کہ میں انکار کے رستوں پر کتنی دیر تک چلتا رہا۔
ایسی ہی صورتحال میں ان دوسرے شعبوں کی سربراہی کا اعزازبھی حاصل ہوا جو میں نے نہ کبھی بننے کا سوچا تھا اور یوں ان کے لئے کبھی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ پی ٹی وی کی چیئرمین شپ کے حوالے سے اس وقت کے وفاقی وزیر اور سیاست دانوں میں سے میری محبوب ترین شخصیت پرویز رشید کا ایک خط میرے سامنے دھرا ہے جس میں انہوں نے مجھ سے چیئرمین پی ٹی وی بننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے مگر میں اس خط کی صرف تین چار لائنیں قارئین کی نذر کرتا ہوں: ’مجھے آپ کی مصروفیات اور سیرو سیاحت کے شوق کا بھی احساس ہے جسے ترک کرکے ایک مشکل کام کرنے کی درخواست کر رہا ہوں کہ آپ خود ہی تو کہا کرتے ہیں کہ ان اداروں کو فالج سے نکالنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس یقین کےساتھ کہ آپ اپنے ذاتی وقت کو ایک قومی مقصد کیلئے چیئرمین پی ٹی وی کا عہدہ قبول کرنے میں پس وپیش نہیں کریں گے‘۔
یہ توحلال کے ذرائع تھے جن کی خواہش تک مجھے کبھی نہیں رہی تھی بلکہ سوچا تک بھی نہ تھا۔ الحمدللہ ان عہدوں پر کام کرنے کے باوجود میں نے دنیا بھر میں ڈرامہ نگاری (خواجہ اینڈ سن وغیرہ) مزاح نگاری، سفرنامہ نگاری اور شاعری میں بھی نام کمایا۔ میں اگلی روداد میں اس حرام مال کا ذکر کروں گا جو اگر قبول کر لیتا تو آج ارب پتی ہوتا۔
(جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)