بیگم کلثوم نواز کے بارے میں کچھ لکھنا آسان کام نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا انتقال عام حالات میں نہیں ہوا، ان کےشوہر پاکستان کی جیل میں تھے، ان کی صاحبزادی اور داماد بھی جیل کی کوٹھڑیوں میں بند تھے۔ ان کے شوہر میاں نواز شریف اور فیملی کے دیگر افراد جب لندن میں تھے وہ روزانہ صبح اسپتال پہنچتے تھے اور شام کو بیگم صاحبہ سے بات کئے بغیر واپس آ جاتے تھے کہ وہ کوما کی حالت میں تھیں۔وہ منظر کسی بھی اہل دل کے لئے رلا دینے والا ہے جب آخری دن پاکستان جیل آنے کے لئے میاں نواز شریف اپنی بیگم سے بات کرنے کے لئے کہتے ہیں۔’’ کلثوم، میں بابو جی، کلثوم، میں بابو جی‘‘ مگر وہ اس پر کوئی ریسپانس نہیں دیتیں۔ انڈیا خصوصاً لاہور اور امرتسر کے شہروں میں بیویاں اپنے شوہر کو اور بچے بھی اپنے والد کو ’’بابو جی‘‘ کہا کرتے تھے۔ نواز شریف چاہتے تھے کہ وہ آخری بار اپنی بیگم کی آواز سن کر اپنی بقیہ زندگی جیل میں گزارنے کے لئے پاکستان چلے آئیں، مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ اس موقع پر پاکستان میں پیدا ہونے والی ایک گندی مخلوق کی دل آزاریوں کی داستان بیان کرکے میں اپنا اور آپ کے منہ کا ذائقہ خراب کروں گا۔ اس گندی مخلوق نے بیگم صاحبہ کی وفات اور نواز خاندان کے اتنے بڑے صدمے کے بحران میں بھی اپنی ذلالتیں جاری رکھی ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو ہدایت دے۔
بیگم کلثوم نواز نے جمہوریت کے لئے جو قربانیاں دیں میں ان کا ذکر نہیں کروں گا، صرف وہ باتیں کروں گا جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں، اخبارات میں آیا ہے کہ انہوں نے ایم اے کیا ہوا تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھیں اور ان کےتھیسسز کے نگران میرے عزیز دوست سہیل احمد تھے جو صف اول کے نقاد تھے، وہ بھی پی ایچ ڈی تھے مگر کبھی اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھتے تھے، بیگم صاحبہ مجھے اپنی ایک بڑی بہن زاہدہ آپی کی طرح لگتی تھیں کہ ان کے بولنے کا انداز انہی جیسا تھا۔ شریف خاندان سے میری محبت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں اور یہ محبت بلاوجہ نہیں بلکہ اس کی ایک وجہ اس خاندان کا کٹر پاکستانی ہونا ہے اور دوسرے بہت امارات کے باوجود ان کا کلچر پاکستان کے عام گھرانوں کا سا تھا۔چنانچہ جب وہ میاں نواز شریف کے ساتھ میری بہن سعادت آپی کی تعزیت کے لئے ہمارے گھر آئیں تو یہ لوگ میرے یہ خاندان کے ایک فرد لگتے تھے۔ اسی طرح جب یہ خاندان جدہ میں جلا وطن تھا تو میں انہیں دیکھنے جدہ گیا اور ایک ہفتہ ان کے ساتھ گزارا۔ اس وقت میاں شریف مرحوم و مغفور بھی حیات تھے۔ سارا خاندان کھانے کے وقت فرش پربچھے قالین پر بیٹھ جاتا تھا، میاں شریف مرحوم اور ان کی اہلیہ ویل چیئر پر ہوتیں، نواز شریف کے چھوٹے بھائی عباس شریف مرحوم و مغفور ایک ملازم کی طرح ان کے قریب کھڑے رہتے اور ان کے اشارے کے منتظر رہتے۔ باقی اہل خانہ کھانے پر ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح کی باتیں اور چھیڑ چھاڑ کرتےجیسے ہم مڈل کلاس اور لوئر کلاس کے لوگ کرتے ہیں۔ مجھے وہاں سات دنوں میں بیگم کلثوم نواز کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ،سادہ لباس، سادہ گفتگو، محبت بھرالہجہ، وہ مجھ سے میری بہنوں اور میری اہلیہ کے بارے میں پوچھتیں جن سے میرے گھر میں ان کی ملاقات ہوئی تھی، جاتی دفعہ انہوں نے میری وائف کے لئے ایک سوٹ کا تحفہ بھی دیا۔
بیگم کلثوم نواز کو ایک دفعہ میں نے انہیں والد کے گھر دیکھا جب ان کے والد کی وفات ہوئی تھی۔ یہ مشرف کا دور تھا اور میاں نواز شریف اس وقت جیل میں تھے۔ یہ سارا خاندان چارپائیوں پر اس طرح بیٹھا تھا جیسا ہمارے ہاں سوگ کی حالت میں بغیر کسی خصوصی اہتمام کے بیٹھا جاتا ہے۔ آج مجھے لگتا ہے میری ایک اور سگی بہن دنیا سے رخصت ہوگئی ہے۔ میں لندن میں ان کی خیریت دریافت کرنے گیا تھا مگر میں میاں نواز شریف صاحب، مریم نواز شریف اور پرویز رشید اسپتال کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے رہے کیونکہ اہل خانہ کے سوا کسی کو ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ اور یوں میں بھی اپنی بہن کو آخری دنوں میں نہ دیکھ سکا۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کے اہل خاندان خصوصاً فولادی اعصاب والے میاں نواز شریف اور مریم بیٹی کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
میں یہ کالم یہاں تک لکھ چکا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ میں شایدلکھنے کا حق ادا نہیں کرسکا۔ اس دوران میری نظر اپنے محبوب ادیب وسعت اللہ خاں کی ایک تحریر پر پڑی اور میں نے محسوس کیا جو کہنے والی باتیں رہ گئی تھیں وہ انہوںنے کہہ دی ہیں، چنانچہ اب آپ ان کی تحریر سے بھی وہ جان لیں جو میں بیان نہیں کرسکا تھا۔
کلثوم نواز کی وفات اور چند سوالات
یہ تھے ملاقات کےوہ آخری لمحے جب مریم نواز اور نوازشریف دونوں لندن میں کلثوم نواز کو موت کے بستر پر ہمیشہ کے لئے اکیلا چھوڑ کر وطن لوٹ آئے تاریخ کی اس سے بڑی ستم ظریفی اور ظلم کیا ہوگا کہ کلثوم نواز کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھیں ، کیموتھراپی کے سیشن چل رہے تھے وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں تھیں اور یہاں پاکستان میں عدالتیں نواز شریف اور مریم نواز کو میڈیکل گراؤنڈ پر بھی حاضری سے استثنیٰ نہیں دے رہی تھیں۔ یہ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ انصاف کا بول بالاکیا گیا اور ایک کینسر کے مریض کو اس کے شوہر اور بیٹی سے نہ ملنے دیا گیا۔
بیگم کلثوم نواز کو جسم کے اندر غدودوں کا کینسر مطلب لمفوما تھا جس کے لئے ان کی کیموتھراپی ہوتی تھی اور وہ ہسپتال میں داخل ہوتی تھیں اور جب سیشن پور ا ہوتا تھا تو وہ گھر چلی جاتی تھیں۔ اس کے دوران ان کا خاندان ساتھ ہوتا تھا۔ افسوس آخری دنوں میں سیاسی انتقام اپنے عروج پر تھا اور جس ہفتے بیگم کلثوم نواز کا کیمو تھراپی کا سیشن ہوتا تھا تو نواز شریف اور مریم نواز نیب کورٹ کی حاضری سے استثنیٰ کے لئے اپلائی کرتے تھے اور کورٹ استثنیٰ رد کر دیتی اور نوازشریف اور مریم نواز کو لازمی کورٹ میں پیش ہونا پڑتا اور اس طرح ایک کینسر کی مریضہ اپنے شوہر اور بیٹی کی مدد اور سہارے کےبغیر اداس اپنا علاج کراتی۔
اس پوری کہانی میں انصاف اور انتقام کا مقابلہ چلتا رہا اور نواز شریف نہیں مانا، نہ رحم کی اپیل کی اور نہ ڈیل کی لہٰذا انصاف ہار گیا اور انتقام جیت گیا۔
اس کہانی کا دوسرا پہلو تھا کہ کمر درد والا آمر، جس کو صرف کمر درد کے بہانے پر میڈیکل لیو (چھٹی) مل گئی اور وہ ملک سے باہر بھاگ گیا۔ وجہ ہم سب کو معلوم ہے۔ آج یہ سب دیکھ کر دل دکھی سا ہوگیا ہے۔ دل اداس ہوگیا ہے۔ سمجھ نہیں آتا آگے کیا ہوگا۔
اور کیا ہونے والا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)