چند روز قبل جب میں اپنے مکان کو مڑنے والی سڑک پر پہنچا تو نکڑ پر میں نے ایک دبلے پتلے سے شخص کو ایک مکان کی دیوار کے نیچے اینٹوں پر اینٹیں رکھ کر ایک چبوترا سا بناتے دیکھا تھوڑی دیر بعد جب میں دوبارہ ادھر سے گزرا تو ان اینٹوں کو اس نے ایک دری سے چھپا دیا تھا اور مکان کی دیوار کے ساتھ تین قد آدم بورڈ کھڑے کر دیئے تھے جس سے دیوار چھپ گئی تھی ان بورڈوں میں سے ایک بورڈ پر کسی بارعب پہلوان کی تصویر تھی جس نے سر پر پگڑی باندھی ہوئی تھی اور ہاتھوں میں مگدرپکڑا ہوا تھا۔ دوسرے بورڈ پر موٹے موٹے لفظوں میں لکھا ہوا تھا ”جلنے والے کا منہ کالا“ اور تیسرے بورڈ پر اتنے ہی جلی حروف میں عرفی کا یہ شعر لکھا ہوا تھا۔
عرفی تو میندیش زغوغائے رقیباں
آواز سگاں کم نہ کند رزقِ گدارا
یہ سب کچھ دیکھ کر مجھ پر دہشت سی طاری ہو گئی چنانچہ میں نے وہاں کھڑے ایک شخص سے تصویر والے بورڈ کے بارے میں پوچھا کہ اس پر جو تصویر ہے یہ کن پہلوان صاحب کی ہے تو اس نے ایک دبلے پتلے اور نحیف و نزار شخص کی طرف اشارہ کرکے کہا ”یہ ان پہلوان صاحب کی تصویر ہے “ اور یہ وہی پہلوان صاحب تھے “ جنہیں میں نے صبح اینٹیں جوڑ جوڑ کر یہ چبوترا بناتے دیکھا تھا۔پھر میں نے باقی دو بورڈوں یعنی جلنے والے کا منہ کالا اور آواز سگاں کم نہ کند…کے بارے میں دریافت کیا، کہ یہ ساری دھمکیاں کس کے لئے ہیں تو اس نے بتایا کہ یہ ”پہلوان صاحب “ یہاں کوئی کاروبار شروع کرنے والے ہیں اور یہ ساری دھمکیاں مستقبل کے اس حریف دکاندار کے لئے ہیں، جو کبھی ان کے سامنے دکان کرے گا۔ تب میں نے پوچھا کہ ان پہلوان صاحب کا ارادہ یہاں کس قسم کا کاروبار کرنے کا ہے ! اس پر اس شخص نے بے خبری کا اظہار کیاتاہم جب میں اگلے روز ادھر سے گزرا تو مجھے معلوم ہوا کہ پہلوان صاحب کا ارادہ یہاں پکوڑے لگانے کا ہے۔کیونکہ چولہے پر انہوں نے کڑاہی چڑھائی ہوئی تھی برابر میں ایک تھال پڑا ہوا تھا اور خود پہلوان صاحب مٹی کی ایک کنالی میں دونوں ہاتھوں سے بیسن مل رہے تھے۔
اور اب اگر سچ پوچھیں تو ایک قدآدم بورڈ پر پہلوان صاحب کی بارعب تصویر اور دوسرے دو بورڈوں پر ان کی خود اعتمادی کی مظہر عبارتیں پڑھ کر میں تو سمجھ بیٹھا تھا کہ کوئی بڑابزنس مین یہاں اپنے کاروبار کا آغاز کرنے والا ہے جس کے بعد علاقے کی اکثر دکانیں بند ہو جائیں گی، مگر جب میں نے اصلی پہلوان صاحب کو دیکھا اور انہیں پکوڑے لگاتے پایا تو مجھے خاصا دھچکا سا محسوس ہوا اور ظاہر ہے اس میں میرا اپنا قصور تھا کیونکہ بزرگوں نے تو پہلے ہی کہا ہے کہ
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
اس ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کا خمیازہ میں اس سے پہلے بھی کئی بار بھگت چکا ہوں۔چنانچہ میں نے بڑے بڑے ادبی پہلوان دیکھے کہ سر پر دستار اور ہاتھ میں مگدرہے۔ ان کی طرف سے بلند بانگ دعوے بھی میری نظر سے گزرے مگر جب ظاہر کی آنکھ سے تماشا کیا تو انہیں پکوڑے بیچتے پایا۔کئی دانشوروں نے بھی پبلک کے سامنے اپنی یہی تصویر پیش کی لیکن جب انہیں قریب سے دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ جو سودا وہ بیچتے ہیں اس کے لئے صرف ایک کڑاہی ،ایک تھال اور ایک کنالی درکار ہے بعض علمائے کرام کے بڑے بڑے بورڈ دیکھے اور دل پر ہیبت طاری ہوئی مگر جب ذرا قریب ہوئے تو دیکھا نہ سر پہ دستار ہے نہ ہاتھ میں علم کا عصا ہے بس ایک کڑاہی ہے اور ایک تھال ہے۔حکومتوں کی پبلسٹی فلموں میں حکومتوں کی سر پر پگڑی باندھے اور ہاتھ میں مگدر پکڑے دیکھا مگر جب ”ظاہر کی آنکھ“ سے ان پہلوانوں کو دیکھا تو ان کی جان ”گوڈوں“ میں اڑی ہوئی تھی۔بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے پبلسٹی بورڈ دیکھے تو یہ تاثر ملا کہ ان کی ”دستار بندی“ کی تقریب میں پورے ملک کے عوام شریک ہوئے تھے اور یہ مگدر بھی انہوں نے ہی ان کے ہاتھ میں دیا ہے۔مگر قریب سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ ان کے لیڈر اپنے گھر کی سیڑھیاں اتریں تو ان کے لئے ”علاقہ غیر“ شروع ہو جاتا ہے، سو اب تو میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قصور دراصل میری بصارت کا نہیں بصیرت کا ہے یعنی بصیرت کی وولٹیج میں کمی بیشی کی وجہ سے مجھے بڑے بڑے ادبی علمی، مذہبی اور سیاسی پہلوان بغیر دستار اور بغیر مگدر کے نظر آنے لگتے ہیں ورنہ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور یہ جو میں انہیں پکوڑے بیچتے دیکھتا ہوں تو یہ ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کا نتیجہ ہے، جس کی ذمہ داری ظاہر ہے ،ان پر عائد نہیں ہوتی۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ