ابوالاثر حفیظ جالندھری کو میں نے پہلی مرتبہ آج سے قریباً 59برس قبل ماڈل ٹاﺅن میں واقع ان کی کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں دیکھا تھا۔ میری عمر اس وقت سترہ برس تھی اور حفیظ صاحب کی عمر اس وقت بھی شاید اتنی ہی تھی کیونکہ اس وقت بھی ان کی صحت اور باتیں ہو بہو آخری دم تک تھیں۔ وہ اپنی چھ کنال کی کوٹھی کی بالائی منزل پر ڈرائنگ روم کے قالین پر صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور انہوں نے جسم پر ایک سفید چادر اس طرح اوڑھی ہوئی تھی جس طرح احرام باندھا ہو اور ظاہر ہے احرام صرف ایک چادر ہی پر مشتمل ہوتا ہے۔ برابر والے صوفے پر ایک صاحب بیٹھے ان سے باتیں کررہے تھے اور باتیں کرتے کرتے وہ بار بار زمین پر ان کے برابر بیٹھنے کے لئے اپنی جگہ سے سرکتے ، مگر حفیظ صاحب ان کی کلائی پکڑ لیتےاور نیچے نہ اترنے دیتے۔ میں اور وزیر قیصر حفیظ صاحب کو اس مشاعرے میں مدعو کرنا چاہتے تھے جو ماڈل ٹاﺅن ہی میں میری اور ناصر زیدی کی قائم کردہ ادبی انجمن کے زیر اہتمام منعقد ہورہا تھا اور جس میں شعراء کے لئے ڈنر کا انتظام ہماری ادبی انجمن کے سرپرست ”پیر موتیاں والا“ نے اپنے ذمے لے لیا تھا جو پاک پتن کے سجادہ نشینوں میں سے تھے اور اس کے علاوہ دیگر اخراجات کے لئے مبلغ چھتیس روپے آٹھ آنے کی خطیر رقم میں نے اور میرے دوستوں نے اپنے جیب خرچ سے بچا کر جمع کر رکھی تھی جو ماڈل ٹاﺅن کے ایک بینک میں جمع تھی اور جو انجمن کے صدر اور سیکریٹری کے مشترکہ دستخطوں ہی سے ڈرا کی جاسکتی تھی۔ میں اوروزیر ابوالاثر کے پاس مودب ہو کر قالین پر بیٹھ گئے۔ حفیظ صاحب نے صوفے پر بیٹھنے کے لئے بہت اصرار کیا لیکن ہمارے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ شاہنامہ اسلام کا مصنف، ترانہ پاکستان ،غزلوں اور گیتوں کا خالق زمین پر بیٹھا ہواور ہم صوفے پر براجمان ہوجائیں چنانچہ ہم قالین پر بیٹھےبہت عقیدت اور انہماک سے حفیظ صاحب کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے اور ان کی گفتگو سنتےرہے۔ہمارے لئے یہ ملاقات ایک خواب کی سی کیفیت رکھتی تھی کہ ہماری نظروں کے سامنے اس وقت وہ شخصیت تھی جس نے بجا طور پر کہا تھا
تشکیل و تکمیل فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
نصف صدی کاقصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں
بہرحال جب وہ گفتگوسے فارغ ہوئے تو انہوں نے میری طرف توجہ کی اور شفقت سے پوچھا ،کیسے آئے ہو، میں نے حرف مدعا اور انجمن کی مالی حالت بھی گوش گزار کی اور اپنے ذوق و شوق کا حوالہ بھی دیا تاکہ کسی طور ان کا دل پسیجے اور مشاعرے میں چلے آئیں۔ حفیظ صاحب نے یہ سب کچھ سنا اور پھر کہا !مجھے تم نوجوانوں سے بڑی محبت ہے۔ تم قوم کا سرمایہ ہو، مجھے تم سے بڑی توقعات ہیں لیکن بیٹے میں اس روز راولپنڈی میں ہوں گا، میں نے ہمت کرکے تھوڑا سا اصرار کیا لیکن جب بالکل مایوس ہوگیا تو ان سے اجازت چاہی۔اس پر حفیظ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے ، انہوں نے احتیاطاً ”احرام“ کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے تھام لیا تھا اور کہا ،نہیں میں تمہیں خود سیڑھیوں تک چھوڑ کر ا?ﺅں گا کہ مجھے تم نوجوانوں سے بڑی محبت ہے۔تم قوم کا سرمایہ ہو اور پھر وہ ہمیں سیڑھیوں تک چھوڑنے آئے اور سیڑھیاں اترتے ہوئے بھی ان کے یہ کلمات ہمارے کانوں میں گھومتے رہے کہ تم قوم کا سرمایہ ہو، مجھے تم سے بڑی توقعات ہیں۔
بعد میں کرنا خدا یہ ہوا کہ میں بھی بڑا ہوگیا یعنی اسکول سے کالج اور یونیورسٹی تک جاپہنچا اور روزنامہ نوائے وقت سے وابستہ ہوگیا۔ اس دوران میں نے حفیظ صاحب کو متعدد مشاعروں میں سنا بلکہ بہت سے مشاعروں میں ان کے ساتھ پڑھنے کی سعادت بھی حاصل کی، نجی محفلوں میں بھی ملاقات ہوئی اور کئی بار میں حفیظ صاحب کو ان کی ماڈل ٹاﺅن والی کوٹھی میں بھی ملا اور بقول ندیم ہر بار
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا!
کی کیفیت سے دو چار ہوا۔ مثلاً مشاعروں میں، میں نے دیکھا کہ حفیظ صاحب ہوٹ ہونا نہیں جانتے، چنانچہ ایسے کسی موقع پر سامعین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شعر پڑھنے میں اور فقرے کا جواب اتنے کٹیلے فقرے سے دیتے ہیں کہ ہوٹنگ کرنے والا صابن( صابن کی جگہ ایک نامناسب لفظ بھی لگایا جاسکتا ہے)کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا۔ شاید یہ اس خود اعتمادی کا اثر تھا کہ ابوالاثر کو پرامن مشاعرے اچھے نہیں لگتے تھے، چنانچہ جس مشاعرے میں ہوٹنگ کا معقول انتظام نہ ہو حفیظ صاحب اس کا اہتمام خود فرماتے۔ ایک مشاعرے میں تو ایک نوجوان ہر شاعر کی آمد پر سر پر دوپٹہ رکھ کر ناچتے لگتا۔ حفیظ صاحب کی باری آنے پر بھی اس نے یہی حرکت کی تو حفیظ صاحب نے کہا برخوردار کیوں اپنا ٹیلنٹ ضائع کرتے ہو ان دنوں شہر میں شادیاں بہت ہورہی ہیں ، مشاعروں میں تمہیں کیا ملنا ہے وہاں جاﺅ اور چار پیسے کماﺅ، اور ہاں جب واپس اپنے گھر جاﺅ تو میری بیٹی کو اس کا دوپٹہ واپس کردینا۔ اب ا?پ خود سوچ لیں اس ”شوخے“ نوجوان پر کیا بیتی ہوگی۔
عام ملاقاتوں میں حفیظ صاحب کو اتنا مہربان پایا کہ ایک طرح سے شرمندگی سی محسوس ہونے لگتی، وہ اپنے مخاطب کی کلائی مضبوطی سے پکڑ لیتے اور دوبارہ پکڑنے کے لئے درمیان میں کچھ دیر کے لئے چھوڑ بھی دیتے۔ کلائی پر ان کی گرفت اتنی ہی مضبوط ہوتی جتنی ان کی شعر پر ہے، اگر حفیظ صاحب خود پردے کے پیچھے چھپ جائیں اور کسی نازنین کی کلائی پکڑ لیں تو مجھے یقین ہے کہ اس نازنین کو کلائی چھڑانے کی خواہش نہیں ہوگی اور جب کبھی مجھے حفیظ صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا مجھے ان کے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی چائے پینے کو بھی ملی۔ حفیظ صاحب نے اتنی بڑی کوٹھی میں سے خود کو صرف ایک کمرے تک محدود رکھا ہوا تھا۔ اس کمرے میں ایک سگھڑ خانہ دار کی طرح فوری ضرورت کی سبھی چیزیں موجود تھیں۔ ایک طرف کتابوں اور حفیظ صاحب کے غیر مطبوعہ مسودوں کا ڈھیر بھی لگا ہوا تھا اور اسی کمرے میں تیل سے چلنے والا اسٹوو، دیگچی، کپ، دودھ اور چینی بھی موجود ہوتی۔ حفیظ صاحب خود چائے بناتے ، مگر خود نہ پیتے البتہ مہمان کو ضرور پلاتے، بالکل اسی طرح جس طرح ٹرین میں بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے بڑی نفاست سے کھیرا کاٹا اور اس کی قاشیں بنا بنا کر اپنے سامنے والی سیٹ کے مسافر کو پیش کرتے رہے، جب انہوں نے تیسری یا چوتھی قاش اس مسافر کو پیش کی تو اس نے کہا صاحب آپ خود بھی تو کھائیے اس پر میزبان نے کہا چھڈو جی اے وی کوئی بندیاں دے کھان والی چیز اے(چھوڑیں جناب، یہ بھی کوئی انسانوں کے کھانے کی چیز ہے)۔ خیر حفیظ صاحب اپنے مہمان کو اس قسم کی بات تو نہ کرتے چنانچہ اپنی بنائی ہوئی چائے کبھی کبھی خود بھی پی لیتے تھے۔
لیکن حفیظ صاحب کی شخصیت کے یہ اور اس کے علاوہ بہت سے رخ دیکھنے کے باوجود میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو ماضی میں چلا جاتا ہوں اور خود کو ان کے سامنے مودب بیٹھا پاتا ہوں۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا دبدبہ دل پر آج بھی قائم و دائم ہے۔ انہوں نے بیسیوں بار ازارہِ شفقت میرے لئے توصیفی کلمات کہے ہیں لیکن میری اگر کوئی خواہش ہے تو وہ صرف اس قدر کہ میں انہیں ایک بار پھر کسی مشاعرے میں مدعو کرنے جاﺅں، جواب میں حفیظ صاحب بےشک معذرت کردیں مگر یہ ضرور کہیں کہ”تم نوجوان ہو، قوم کا قیمتی سرمایہ ہو“ بلکہ یہ قوم کا قیمتی سرمایہ والی بات بھی رہنے دیں، بس یہی کہہ دیں کہ”تم نوجوان ہو“ تو میں ان کے پاﺅں چھولوں کہ بہت سارے لوگ تو ستر، اسی برس میں بھی دوسری شادی د±ولہا کے زنان خانے کی طرف جانے کے دوران بولے جانے والا محض یہ جملہ سننے کے لئے کرتے ہیں کہ”کڑیو! رستہ دیو منڈا آر یا جے!“ (لڑکیو! راستہ دو”لڑکا “ آرہا ہے)۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ