کار یا موٹر سائیکل چلانا ہی ایک فن نہیں ان میں یا ان پر بیٹھنا بھی ایک فن ہے۔ کار اور دیگر سواریوں کا ذکر تو میں کسی اور موقع پر کروں گا آج تو مجھے موٹر سائیکل کی عقبی نشست پر بیٹھنے والے ”فنکار“ یاد آ رہے ہیں، تاہم واضح رہے میں یہاں اپنی عقبی نشست کی اس قسم کی سواریوں کا ذکر نہیں کروں گا جو کچھ اس طرح چمٹ کر بیٹھتے ہیں کہ عامل اور معمول کو چمٹا گرم کرکے ہی الگ کیا جا سکتا ہے۔ اور اسی طرح میں اپنی عقبی نشست کی ان سواریوں کا بھی ذکر نہیں کروں گا جو درمیان والی خالی جگہ بھی پ±ر نہیں کرتیں اور یوں لگتا ہے کہ بہشتی زیور پڑھ کر موٹر سائیکل پر بیٹھتی ہیں بلکہ آج میرا ہدف تو میرے وہ دوست ہیں جنہیں اپنے موٹر سائیکل کے زمانے میں مَیں گاہے گاہے لفٹ دیا کرتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں مَیں یہاں انہی کا ذکر کروں گا جنہیں میں لفٹ دیتا تھا، ان کا نہیں جو مجھے ”لفٹ“ نہیں دیتے تھے۔
میرے ان دوستوں میں ایک دوست ایسا بھی تھا جو بیٹھتا اگرچہ عقبی نشست پر تھا مگر عملاً وہ ڈرائیور کے فرائض انجام دیتا تھا، یعنی سامنے سے اگر کوئی سواری آ رہی ہو تو اس کے ہاتھ پاﺅں پھول جاتے تھے اور یہ بریک مار، بریک مار کی صدائے دردناک کچھ یوں بلند کرتا کہ خود میرے بھی ہاتھ پاﺅں پھول جاتے اور یوں سچ مچ حادثہ ہوتے ہوتے رہ جاتا۔ بسا اوقات میرا یہ دوست پیچھے بیٹھے ہوئے اپنا ”دستِ تعاون“ دراز کرتا اور ہینڈل کو خود ہی دائیں یا بائیں جانب موڑ دیتا اور حادثے کیلئے اس کا یہ اقدام مثالی ثابت ہوتا لیکن اگر کبھی اس کے باوجود حادثہ نہ ہو پاتا تو اس کیلئے اسے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ اچھی قسمت بھی تو آخر کوئی چیز ہے۔ ایک اور دوست تھا جو اپنا منہ ڈرائیور کے کان کے ساتھ چپکا کر باآوازِ بلند اور مسلسل گفتگو میں مصروف رہا کرتا تھا۔ اس کے گلے میں خدا نے اتنی طاقت دی تھی کہ اگر قریب سے بغیر سائلنسر والا کوئی رکشہ بھی گزرتا تو اس کی آواز کے شور میں رکشے کا شور دب کر رہ جاتا۔ ایک دوست ایسا بھی تھا جو اپنے آرام کی خاطر اپنا سارا بوجھ میرے کاندھوں پر اس طرح ڈال دیتا جیسے یہ اس کی آخری آرام گاہ ہے۔
یہ آخری آرامگاہ سے یاد آیا کہ ایک اور دوست باتیں کرتے کرتے اگر رستے میں کوئی قبرستان آ جاتا تو وہ اچانک خاموش ہو جاتا اور اپنا فقرہ تک مکمل نہ کرتا، مثلاً وہ کہہ رہا ہوتا کہ ”فلاں آدمی“ مگر اچانک اس کی نظر قبرستان پر پڑتی تو وہ یہ فقرہ یہیں چھوڑ کر زیر لب آیات کی تلاوت کرنے لگ جاتا اور جب قبرستان کی حدود ختم ہو جاتیں تو میرے کانوں میں اچانک آواز آتی ”بڑا خبیث ہے“ جس پر میں گردن موڑ کر اس کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھنے کی کوشش کرتا مگر اس دوران مجھے اندازہ ہو جاتا کہ موصوف نے تو صرف اپنا فقرہ مکمل کیا ہے کہ فلاں آدمی بڑا خبیث ہے ورنہ اس کا روئے سخن حاشا وکلا میری طرف ہرگز نہیں تھا۔
میرا ایک دوست اور بھی تھا جو خاصا بھاری بھرکم تھا۔ اس کا معاملہ بھی ڈرائیور کے پیچھے بیٹھے ہوئے ایک دوسرے ڈرائیور جیسا ہی تھا بلکہ بعض اوقات تو یوں لگتا کہ ڈرائیور بیچارہ تو مجبورِ محض ہے اور اس پر خود مختاری کی تہمت ہے، اصل ڈرائیور تو بھاری بھرکم جثے والا یہ ہاتھی نما مخلوق، جو بظاہر تو عقبی نشست پر بیٹھا ہے، مگر اصل ڈرائیور یہی ہے، تاہم میرے اس دوست کا طریقِ واردات خاصا مختلف تھا، یعنی یہ اپنی مرضی کی ڈرائیونگ کیلئے نہ تو شور مچا کر مجھ پر دباﺅ ڈالتا اور نہ ہی یہ موٹر سائیکل کا ہینڈل اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتا بلکہ اس کے بجائے وہ یہ کرتا کہ بالکل خاموش رہتا، بس اتنا ہے کہ اگر وہ گاڑی کا رخ دائیں جانب کو موڑنا چاہتا ہے تو وہ اپنے تین من وزن سمیت ایک دم دائیں جانب کو ہو جاتا اور اسی طرح اگر وہ چاہتا کہ میں بائیں ہاتھ پر چلوں تو وہ بائیں ”پلڑے“ میں اپنا سارا وزن ڈالنے کیلئے بائیں جانب کو جھک جاتا۔ کئی دفعہ تو ایسا ہوا کہ میں نے اس کی اِس عادت سے زچ ہو کر گاڑی اپنی مرضی کی سمت میں چلانے کی کوشش کی تو اس زور آزمائی اور کھینچا تانی کے نتیجے میں گاڑی الٹ گئی اور یوں صرف مجھے ہی نہیں پچھلی نشست پر بیٹھی ہوئی اس موذی مخلوق کو بھی خاصی معقول چوٹیں آئیں اور گاڑی کو الگ نقصان پہنچا۔
اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ موٹر سائیکل سوار کو پچھلی نشست کی سواری کے ساتھ بنا کر رکھنی چاہئے۔ گزشتہ برسہا برس سے ہمارے ہاں کشمکش، کھینچا تانی اور بے اطمینانی کی جو فضا نظر آتی ہے، وہ دراصل ”ڈرائیوروں“ اور ”عقبی نشست کی سواری“ کی کھینچا تانی ہی کا نتیجہ ہے، دونوں اگرچہ ایک ہی گاڑی کے سوار ہیں لیکن دونوں کی منزلیں ہمیشہ الگ الگ ہی رہی ہیں، چنانچہ اس عرصے میں گاڑی کئی بار الٹی ہے جس کے نتیجے میں ڈرائیور بھی زخمی یا ہلاک ہوئے، سواریوں کو بھی شدید چوٹیں آئیں اور گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔ اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے کہ ڈرائیوروں، سواریوں اور خود گاڑی کی سلامتی کیلئے یہ ضروری ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ