(گزشتہ سے پیوستہ)
ان بیہودہ الزامات لگانے والوں کو شاید علم نہیں، لیکن میرے خیال میں انہیں علم ہے کہ جب میں نے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تو اس سے اگلے روز پی ٹی وی کے ڈائریکٹر فنانس میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے دو لاکھ روپے کا چیک پیش کیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کس سلسلے میں ہے؟ انہوں نے کہا کہ جب نیا چیئرمین آتا ہے تو اسے اپنی ضروریات کے لئے یہ چیک دیا جاتا ہے اور یہ آپ کی entitlement ہے۔ میں نے کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے اپنی ضروریات اس سے پہلے بھی پوری کرتا چلا آیا ہوں لہٰذا آپ یہ چیک واپس رکھ لیں۔ انہوں نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ سر یہ آپ کی entitlement ہے، یہ آپ کو ضرور رکھ لینا چاہئے۔ میں نے جواب دیا کہ اگر یہ entitlementبھی ہے تو میرے نزدیک یہ لیگل کرپشن ہے چنانچہ میں نے اس چیک کو کینسل کر کے انہیں واپس کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس کی رسید دے دیں۔ اس کے علاوہ جب میں نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی پہلی میٹنگ ’چیئر‘ کی تو باقی ڈائریکٹرز کے علاوہ اٹھارہ ہزار روپے کا چیک مجھے بھی دیا گیا۔ میں نے پوچھا یہ کس سلسلے میں ہے؟ بتایا گیا کہ چیئرمین بورڈ کا ڈائریکٹر بھی ہوتا ہے اور یہ چیک سب ڈائریکٹرز کو دیا جاتا ہے۔ مجھے یہ بات اپنے حوالے سے بہت عجیب لگی چنانچہ میں نے یہ چیک بھی انہیں واپس کرتے ہوئے کہا کہ اسے کینسل کریں اور آئندہ بھی میٹنگ کے حوالے سے میرا کوئی چیک نہ بنایا جائے۔ چند دن کے بعد میں پی ٹی وی کے تمام اسٹیشنز کو وزٹ کرنے کے بعد لاہور اسٹیشن آیا تو جنرل منیجر نے غالباً بیس بائیس ہزار روپے کے چیک پیش کئے اور کہا کہ چیئرمین بننے سے پہلے آپ پی ٹی وی کے مختلف پروگراموں میں شریک ہوتے رہے ہیں، یہ آپ کے وہ چیک ہیں جو ابھی تک نہیں دیئے جاسکے۔ میں نے کہا کہ اب یہ چیک ایک رائٹر کو نہیں بلکہ چیئرمین پی ٹی وی کو دیئے جارہے ہیں چنانچہ آپ ان کو اوپن کریں اور کسی مستحق شخص کو دے دیں۔
یہ سب کچھ بیان کرتے ہوئے مجھے خوشی نہیں ہورہی بلکہ سخت رنج ہورہا ہے کہ بددیانت لوگ معاشرے میں دندناتے پھرتے ہیں اور ان لوگوں پر الزام تراشی کرتے ہیں جنہوں نے ساری عمر حلال کا لقمہ بھی حلق میں اتارنے سے پہلے اچھی طرح تحقیق کرلی کہ اس میں کوئی جزوحرام کا تو شامل نہیں۔ جب جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تو میں اس وقت ناروے میں سفارت کے دو سال مکمل کرنے کے بعد تھائی لینڈ میں پاکستان کا سفیر تھا۔ میں واپس پاکستان آیااور آتے ہی آمریت کے خلاف مورچہ بند ہوگیا جو تاریخ کا حصہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ’گستاخی‘ قابل قبول نہیں تھی چنانچہ دو دفعہ آڈٹ ٹیمیں ناروے بھیجی گئیں جنہوں نے ایک ایک کاغذ کا جائزہ لیا کہ شاید کہیں سے کوئی چیز مل جائے لیکن الحمد للہ ناکامی ہوئی۔ ایک دن ایک دوست میرے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ میں آپ کو مبارکباد دینے آیا ہوں، میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگا کہ ان آڈٹ ٹیموں میں میرا ایک دوست بھی شامل تھا اس نے مجھے بتایا کہ قاسمی صاحب اپنے کالموں میں اپنی امانت اور دیانت کی بڑی باتیں کرتے ہیں، اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ کتنے امین اور دیانتدار ہیں چنانچہ میں نے روٹین سے دس گنا زیادہ کاغذات کی چھان بین کی کہ کوئی چیز میرے ہاتھ لگے مگر میرےہاتھ کچھ نہ آیا۔ میرے دوست نے مجھے کہا کہ مجھے اسی آڈٹ والے دوست نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ قاسمی صاحب کو میری طرف سے مبارکباد دیں۔ میں الحمرا آرٹس کونسل لاہور کا آٹھ سال چیئرمین بھی رہا ہوں اور اس عرصے میں، میں نے کوئی معاوضہ وصول کرنے سے انکار کردیا۔ میں جانتا ہوں یہ سارے الزامات مجھ پر لگتے رہیں گے جب تک میں ان لوگوں جیسا نہیں ہو جاتا جو مجھے دیکھتے ہیں تو اپنے ضمیر کی خلش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم کبڑوں کے اس دور میں زندہ ہیں جہاں کبڑے اپنا کُب صحیح ہونے کی دعا نہیں مانگتے بلکہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی کبڑے ہو جائیں۔ یہ صورتحال میرے لئے نئی نہیں ہے۔ الحمرا کی چیئرمین شپ کے دوران ہی ایک ویب سائٹ نے الزام لگایا کہ میں نے دس کروڑ روپے صحافیوں میں تقسیم کئے ہیں جن میں آج کے دور کےصف اول کے تمام صحافی شامل ہیں۔ اب چونکہ صرف میری عزت کا معاملہ نہیں تھا بلکہ تمام قابل احترام دوستوں کو ملوث کیا گیا تھا چنانچہ عدالت سے رجوع کیا گیا۔ سیشن کورٹ میں بھی مذکورہ صحافی کا الزام غلط ثابت ہوا اور ضمانت خارج ہوئی، ہائیکورٹ سے بھی اس کے خلاف فیصلہ آیا اور اب وہ مفرور شخص سپریم کورٹ سے ضمانت پر ہے، ایف آئی اے سے چھپتا پھرتا ہے اور مختلف ذرائع سے معافی کا طلبگار ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک معاشرے میں ہر شخص دوسروں پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہو تو کیا آدمی ساری زندگی اپنی صفائی دینے کے لئے عدالتوں کے چکر لگاتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں ایسی خرافات سنتا ہوں تو خاموش ہو جاتا ہوں اور معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتا ہوں۔ مگر اس معاملے میں مجھے اس لئے بھی زیادہ افسوس ہے کہ یہ سب کچھ موجودہ حکومت کی انفارمیشن منسٹری کے دوران ہوا اور اس میں پوری حکومت کو ملوث کر لیا گیا۔ میرا خیال تھا کہ اگلے دن انفارمیشن منسٹر اپنا وضاحتی بیان جاری کریں گی جس میں کہا جائے گا کہ یہ الزامات غلط ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ خود مسلم لیگ ن کی حکومت میں ایسے عناصر موجود ہیں جو درپردہ اسے بدنام کرنے والوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ لوگ جو خلوص دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لئے مسلم لیگ ن کی حکومت سب سے بہتر چوائس ہے ان کی کردار کشی کر کے انہیں بھی خاموش کردیا جائے۔
آخر میں مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کے سامنے جب یہ مضحکہ خیز اعداد و شمار پیش کئے گئے تو اگر میں حسن ظن سے کام لوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ چونکہ وہ ٹی وی پروگرامنگ کے طریقہ کار سے واقف نہیں تھے لہٰذا انہیں بادی النظر میں سیکرٹری انفارمیشن کی کہی ہوئی باتیں چونکا دینے والی لگیں۔ یاد رہے کہ بطور چیئرمین میں نے پی ٹی وی میں ’ان ہاؤس‘ پروڈکشن شروع کی۔ اس سے پہلے پی ٹی وی بے تحاشا پیسہ باہر سے ڈرامے خریدنے پر خرچ کرتا تھا اور اس کا زیادہ تر اسٹاف فارغ بیٹھا رہتا تھا۔ میں نے تمام پرائیویٹ پروڈکشن پر پابندی لگائی اور پی ٹی وی کے پروڈیوسرز کو ذمہ داری سونپی کہ ہر پروگرام پی ٹی وی خود تیار کرے۔ رمضان ٹرانسمیشن پر بھی خصوصی توجہ دی گئی جس کی وجہ سے پی ٹی وی کی گزشتہ رمضان ٹرانسمیشن نے تمام چینلز سے زیادہ بزنس کیا۔ اس ٹرانسمیشن میں ڈائریکٹر آئی ٹی فخر حمید مرحوم کی بے انتہا کوششیں شامل حال تھیں چنانچہ انہیں بھی بری طرح سے ذہنی طور پر ٹارچر کیا گیا کہ شدید دباؤ کی وجہ سے ایک دن ان کو ہارٹ اٹیک ہوگیا، ان کی بیوی نے شوہر کو مردہ حالت میں دیکھا تووہ بھی یہ صدمہ برداشت نہ کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ دونوں میاں بیوی کی لاشیں اکٹھی اٹھائی گئیں…. بطور چیئرمین مجھے پی ٹی وی کی ترقی ہمیشہ عزیز رہی، میں چیئرمین نہیں بھی تھا تو پی ٹی وی میری محبت تھا، اس ادارے کے لئے بطور ڈرامہ نگار بھی میں جو کرسکتا تھا کیا۔ بجلی کے بل میں جو پیسے پی ٹی وی کو ملتے تھے اس کا ایک بڑا حصہ حکومتی خزانے میں جمع ہوتا تھا، میں نے بطور چیئرمین اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سے مل کر بھرپور کوشش کر کے پی ٹی وی کو ملنے والے معاوضے میں خاطر خواہ اضافہ کروایا جس کی وجہ سے پی ٹی وی کو آج سالانہ 80کروڑ کی زائد آمدنی ہورہی ہے، اور ہاں مجھ پر الزام لگنے کی دیر تھی کہ عمران خان کے دل کی کلی کھل گئی، موصوف نے حسب معمول بلاتحقیق مجھ پر 27کروڑ لینے کے الزام پر ایمان لاتے ہوئے ٹویٹ کردی جس میں ہر ڈھول والے کے سامنے لڈی ڈالنے والا شیخ رشید بھی پیچھے نہیں رہا اور ’ٹلیاں‘ بجانی شروع کردیں۔ ایک بات یہ کہ میں نے مفروضوں سے ماہانہ رقم ایک کروڑ بنانے کی کوشش کی ہے، جو پھر بھی نہیں بن سکی، کیونکہ اس پروگرام کی ماہوار تنخواہ پر ملازم تھی، جو خرچ ہوا ہوگا وہ صرف دوسرے شہروں میں جا کر مشاہیر کے انٹرویو پر ہوا ہوگا جو ماہوار لاکھ دو لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگا۔ اس کالم سے میں نے منسٹری کو موقع دیا ہے کہ وہ چند دنوں میں مزید جھوٹ تیارکرلیں۔ ویسے بائی دی وے ایک کروڑ ماہانہ تنخواہ کے حساب سے دو سال کی تنخواہ 27نہیں 24کروڑ بنتی ہے۔ الزام کا حساب کتاب تو ٹھیک کرلیا کریں۔ اور ایک آخری سوال معزز عدالت سے، اگر یہ الزامات لگانے والے جھوٹے ثابت ہوئے تو کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟
(بشکریہ : روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ