مردان کے طالب علم مشال خان کے ساتھ یقینا بہت ظلم ہوا تھا۔ بربریت کی انتہاءجہاں ”جدید ترین“ ہونے کی دعوے دار یونیورسٹی کے طلباءنے بھیڑیوں کے ایک غول کی صورت شاعرانہ سوچ اور متجسس ذہن کے حامل اس نوجوان کو گھیرے میں لے کر ماردیا۔ ہر صاحبِ اولاد کی طرح میری بھی خواہش تھی کہ اس کے وحشیانہ قتل کو اُکسانے اور ارتکاب کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دے کر عبرت کا نشان بنادیا جائے۔ خواہشات کا مگر معروضی حالات میں جائزہ بھی لینا پڑتا ہے۔
آج سے 8سال قبل ایک قتل ہوا تھا۔ مقتول کا تحفظ قاتل کی قانونی ذمہ داری تھی۔ ریاست نے اسے یہ فریضہ سونپ رکھا تھا۔ اپنا فرض نبھانے کی بجائے قاتل نے مقتول کی حفاظت کے لئے ریاستی طور پر جاری ہوئے ہتھیار کو قتل کے لئے استعمال کیا۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے شرمندگی نہیں بلکہ فخر محسوس کیا کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات بٹھادی گئی تھی کہ اس کا نشانہ بنا شخص ناقابلِ برداشت ”توہین“ کا مرتکب ہوا ہے۔
تمام تفتیش اور عدالتی مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی اس کے لئے طے ہوئی پھانسی کی سزا برقرار رکھی۔ اس سزا پر عمل درآمد ہوگیا تو ہمارے معاشرے کے کئی بااثر طبقات کے لئے وہ ”ہیرو“ بن گیا۔ اس کے عمل نے ہمارے سیاسی منظر نامے پر ”اچانک“ نمودار ہوئی ایک جماعت کو انتہائی طاقت ور بنادیا۔مذکورہ جماعت نے حال ہی میں راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر 22دنوں تک مسلسل دھرنا دے کر دونوں شہروں کی روزمرہّ زندگی کو مفلوج بنا ڈالا۔حالات کو معمول پر لانے کے لئے بالآخر ”عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت“ ہونے کی دعوے دار ریاستِ پاکستان مظاہرین کے سامنے سرنگوں ہوگئی۔ وفاقی وزیر قانون نے استعفیٰ دیا۔ وزارتِ داخلہ کے نگران وزیر اور سیکرٹری نے ”دستاویزِ شکست“ پر دستخط کئے۔ اس دستاویز کی تیاری کیلئے ریاست کے ایک طاقت ور ترین دائمی ادارے کے نمائندے کی معاونت اور دستخط بھی طلب کئے گئے۔
اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبارسے سب سے بڑے صوبے کی حکومت بھی گزشتہ کئی ہفتوں سے سیال شریف کے ایک پیر کو یقین دلانے میں مصروف ہے کہ اس کے وزیر اعلیٰ اور وزیر قانون سچے مسلمان ہیں۔ ان کے عقائد پختہ ہیں۔ ان کے ایمان پر سوالات نہ اٹھائے جائیں۔ اپنے ایمان کو درست ثابت کرنے کے لئے گڈگورننس کی علامت شمار ہوئے وزیر اعلیٰ بہت منت سماجت کے بعد بالآخر پیر صاحب کے ڈیرے پر حاضر ہوئے۔ سرجھکاتے ہوئے ان کے گھٹنوں کو چھوا اور اپنے عقائد کی پختگی کی تصدیق حاصل کرلی۔
فیض آباد چوک اور پیر سیالوی سے جڑے واقعات نے جو وسیع تر منظر بنایا ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے ہرگز امید نہیں تھی کہ فسادخلق کے خوف سے ہری پور جیل کے ایک کونے میں لگائی عدالت مشال خان کے قاتلوں کو سزا سناپائے گی۔ فیصلہ مگر میرے خوفزدہ دل میں جمع ہوئے خدشات کے برعکس آیا۔ دلِ مضطر کو تھوڑا قرار نصیب ہوگیا ۔ صاحب دل خواتین وحضرات کی اکثریت مگر اب بھی مطمئن نہیں۔ مشال خان کے قتل کو اکسانے والے گروہ کا سرغنہ ابھی تک پولیس کے ہاتھ نہیں لگا ہے۔
چند لوگ جو اس مقدمے میں بری ہوئے اپنی رہائی کے بعد مردان پہنچے تو اس شہر کے ایک چوک میں ”مذہبی سیاسی جماعت“ کے جلدی میں اکٹھا کئے ایک ہجوم نے ان کا استقبال کیا۔اس ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے مشال خان کے قتل کے الزام میں بری ہوئے دو تین لوگوں نے جوش خطابت میں جو الفاظ ادا کئے انہیں اس کالم میں دہرانے کی مجھ میں ہمت نہیں۔
مختصر الفاظ میں صرف یہ کہوں گا کہ کسی بھی شخص کو ”توہین“ کے الزامات لگاکر Mob Furyکا نشانہ بنانے والی فضا اپنی جگہ پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے (میرے منہ میں خاک) آئندہ بھی کئی بے گناہ نوجوان محض اپنی شاعرانہ سوچ اور ذہن میں کلبلاتے سوالوں کو زبان پر لانے کی معصومانہ کوشش کرتے ہوئے مشال خان جیسے انجام کا شکار ہوسکتے ہیں۔محض عدالتوں کے ذریعے دلائی سزائیں ممکنہ واقعات کے تدارک کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتیں۔ ایک بھرپور فکری تحریک کی ضرورت ہے مگر اس تحریک کے ابھرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
کئی برسوں سے وطنِ عزیز میں Top Downسوچ کا رحجان حاوی ہے۔ ”قومی مفاد“ کیا ہے؟ یہ طے کرنا ریاستی اداروں کا Exclusiveحق واختیار بن چکا ہے۔ ”صحیح اسلام“ کی تعریف وتوجیہہ منبرومحراب والوں کے تصرف میں جاچکی ہے۔ نہایت خلوص اور کھلے ذہن کے ساتھ اپنے تئیں سوالات اٹھاکر جوابات ڈھونڈنے کی تڑپ میں مبتلا افراد کے لئے ہماری زمین تنگ ہوتی جارہی ہے۔
آج کے نام نہاد ”جدید“ دور سے کہیں بہتر زمانہ تو سرسید کو نصیب ہوا تھا۔ عہد رفتہ کی عظمتوں سے مسحور ہوئے بے تحاشہ ذہنوں نے ان کی فکر کو قابلِ گردن زدنی ٹھہرایا۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ کمال مگر ان کی اولوالعزمی ہی نہیں اس حقیقت میں بھی پہناں ہے کہ اسی معاشرے کے کئی بااثر لوگ دل وجان سے ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے۔
محمد علی جناح جبہ و دستارسے بے نیاز تھے۔برطانوی قانون کے ایک بہت ہی زیرک طا لبعلم۔ دنیاوی اعتبار سے ایک انتہائی کامیاب وکیل۔برصغیر کے مسلمانوں کے لئے مگر ایک جدا وطن کی ضرورت کو انہوں نے بہت لگن سے دریافت کیا۔ان کے دور کے جید علماءکی ایک کثیر تعدادانہیں ”کافر اعظم“ قرار دینے پر تل گئی۔ بالآخر وہ لیکن قائد اعظم ہی ثابت ہوئے۔
اقبال کے تخلیقی ذہن نے بھی تو سوالات ہی اٹھائے تھے۔ ”شکوہ“ لکھا تو کفر کے فتوے سہے۔ اس کے باوجود انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجتماع میں طرابلس کی فاطمہ کا ذکر چھیڑتے تو ہزاروں کی تعداد میں موجود افراد زار وقطار رونا شروع ہوجاتے۔سوچ اور فکر کی گرمی سے ہمارے دلوں کی سختی کو نرم کئے بغیر آج کے دور میں سرسید،جناح اور اقبال کی نموناممکن ہے۔ اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں تقسیم ہوئے ہجوم ہیں جو اشتعال دلانے کے بعد بھوکے بھیڑیوں کے غول میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔معصومانہ سوالات اٹھانے والوں کو بھنبھوڑڈالتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ