بابائے صحافت الطاف حسن قریشی کی تحریریں پڑھتے پڑھتے میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور وہ خود ماشا اللہ نوے پلس کی عمر میں بھی اپنی فعال مصروفیات کے حوالے سے ابھی تک جوان کے جوان ہی ہیں۔ ان کی ساری زندگی ایسے ہی فعال اور بامقصد گزری ہے۔ انہوں نے اپنا سفر سائیکل سواری سے شروع کیا، معاشی مشکلات کا شکار رہے، حق حلال کی روزی کمائی، بالآخر اس مرحلے سے گزرے اور انہوں نے اردو میں پہلا ڈائجسٹ نذر قارئین کیا، اس سے پہلے انگریزی کے ڈائجسٹوں کی دنیا بھر میں دھوم تھی۔قریشی صاحب کا اردو ڈائجسٹ قارئین کے دستر خوان میں ایک لذیذ ’’ڈش‘‘ کے اضافہ کابا عث بنا۔ اس کی سب سے نمایاں صفت اس کے طویل انٹرویو تھے۔ جو قریشی صاحب زعماء سے کرتے تھے۔ ان زعماء میں سیاست دان بھی تھے، حکمران بھی اور علماء بھی، اور قاری ان کے انٹرویو پڑھتے ہوئے محسوس کرتا تھا کہ وہ ان شخصیات کے روبرو بیٹھا ان کی گفتگو سن رہا ہے۔ اردو ڈائجسٹ میں ان انٹرویوز کے علاوہ ادب پارے بھی ہوتے تھے اور یوں پورا مینو آپ کے سامنے ہوتا تھا، ا س میں جو چیز آپ کے من کو بھاتی تھی وہ اس دستر خوان سے چن لیتے تھے اور یوں اردو ڈائجسٹ کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی اور اسے بالکل ایک منفرد تجربے کی صحافت کا سنگ میل قرار دیا گیا۔ اس کے بعد ڈائجسٹوں کی بھرمار ہوگئی اور شکیل عادل زادہ کا سب رنگ ڈائجسٹ سب پر بازی لے گیا۔
ہمارے ہاں اخبارات اور رسائل کی اشاعت شروع ہوتی ہے اور بہت سے آغاز ہی میں قارئین کی بجائے اللہ کوپیارے ہو جاتے ہیں ۔ اردو ڈائجسٹ ان جرائد میں سے ہے جو کئی دہائیوں سے منصہ شہود پر آ رہے ہیںاور اس کے خوبصورت خدو خال میں بڑھاپے کے آثار ابھی تک ظاہر نہیں ہوئے۔ دراصل قریشی صاحب صرف مدیر ہی نہیں بہت عمدہ نثر نگار بھی ہیں، چنانچہ حال ہی میں ان کی کتاب ’’قافلے دل کے چلے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جو ان کے متعدد بار حج اور عمرے کی دلآویز داستان ہے۔ یہ صرف سفر نامہ یا آپ بیتی نہیں بلکہ اس سفر میں روحانیت کی ایک لہر بھی قاری کے دل و دماغ میں رواں دواں رہتی ہے۔ قریشی صاحب چونکہ قومی اور بین الاقوامی سیاست کے اندرونی اور بیرونی خدو خال میں دلچسپی رکھتے ہیں چنانچہ ’’قافلے دل کے چلے‘‘ میں اس کی جھلکیاں جا بجا ملتی ہیں۔ ایک فلسطینی خاتون کی پاکستان سے محبت کا بیان تو قاری کو جذباتی کردیتا ہے، میں آخر میں اس کی تفصیل بیان کروںگا۔ قریشی صاحب نے مناسک حج کا ذکر بھی کیا ہے اور ایک بہت اہم حصہ منیٰ میں شاہ فیصل سے پہلی ملاقات ہے جو صرف تین منٹ پر محیط تھی لیکن اس مختصر ترین ملاقات میں دوطرفہ محبت کی جھلکیاں ملتی ہیں، قریشی صاحب نے شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران دیکھا کہ شیطان کی طرف پھینکی گئی ایک تیز دھار والی نوکیلی کنکری نے شیطان کی بجائے ان صاحب کا رخ کیا اور وہ لہولہان ہوگئے ۔میں اگر یہ روداد لکھ رہا ہوتا تو میرے اندر کا شیطان مجھ سے کسی اور طرح لکھواتا، لیکن ہمارے قریشی صاحب شریف آدمی ہیں ، ان کے ذہن میں اس نوع کی ’’نکتہ آفرینی‘‘ کی گنجائش ہی نہیں۔ اس کتاب کی سب سے زیادہ جو بات مجھے پسند آئی کہ یہ ریڈایبل ہے جبکہ روداد حج میں عموماً انداز بیان ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔
اس کتاب کا ایک سنسی خیز باب منیٰ کے خیموں میں آگ لگنے سے متعلق ہے۔ قریشی صاحب نے یہ دل خراش داستان اتنی تفصیل سے بیان کی ہے کہ مجھے پڑھتے ہوئے جھرجھری آگئی۔ آگ لگنے کے بعد تیز ہوا بھی چلنے لگی اور پھر یہ آگ جنگل کی آگ بن گئی کچھ لوگ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے مگر بیسیوں لوگ بھاگ نہ سکے اور آگ نے انسانوں کو کوئلہ بنا دیا۔ قریشی صاحب سے بھاگا نہیں جا رہا تھا مگر اس موقع پر اللہ نے انہیں ہمت دی اور بہت تگ و دو کے بعد ایک محفوظ مقام پر پہنچ گئے۔ اس آتشزدگی سے پہلے سعودی حکومت نے بتایا تھا کہ اس قسم کے حادثات سے بچاؤ کیلئے انتہائی سائنسی اقدامات کئے گئے ہیں اور باہر سے ایک بہت مہنگی مشین بھی منگوائی گئی ہے جس کی موجودگی میں آگ لگنے کا کوئی امکان نہیں رہے گا، مگر آگ لگنا تھی وہ لگی اور سینکڑوں انسانوں کو کوئلہ بنا دیا۔ قریشی صاحب کی دردمندی کے ایک واقعہ نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ایک خیمے کے لوگ آگ بھڑکنے کے بعد افراتفری میں بھاگ گئےاور اپنی ایک بچی وہیں چھوڑ گئے، قریشی صاحب نے اپنی ناتوانی کے باوجود اس بچی کو اپنے ساتھ لیا اور خدا کا کرم ایسا ہوا کہ بچی کے والدین بھی مل گئے اور ان کی بچی ان کےسپرد کردی گئی۔
اور اب آخر میں اس فلسطینی خاتون کا ذکر جس کا حوالہ میں نے کالم کے آغاز میں دیا تھا، مگر یہ تذکرہ آپ خود قریشی صاحب کی زبان سے سنیں۔
خیمے کے اندر ایک ادھیڑ عمر عورت اور تین بچے بے چارگی سے بیٹھے تھے ہمیں دیکھ کر خاتون اور بچے باہر آگئے۔ عورت یہ سمجھی کہ میں امریکی ہوں اور مالی امداد دینے آیا ہوں۔ وہ ہم سے اپنی مصیبتوں کا ذکر کرتی رہی۔ اس نے بتایا کہ ’’میرا شوہر حالیہ جنگ میں شہید ہو چکا ہے، میرا سب سے بڑا بچہ چودہ برس کا ہے جو آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ تین چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ہمیں کھانے کو بہت کم ملتا ہے۔ ذرا اندر آ کر تو دیکھیں، بارش کا پانی خیمے میں داخل ہوچکا ہے اوررات کے وقت اوڑھنے کیلئے جو پھٹے پرانے کمبل ہیں وہ سب بھیگ گئے ہیں۔ میرے چیتھڑے آپ دیکھ رہے ہیں‘‘۔اس کے چہرے پر شکستہ زندگی کے آثار پوری طرح ہویدا تھے اور اس کی حالت زار دیکھ کر میرے آنسو بہہ نکلے۔ میرے سچے آنسوؤں کو دیکھ کر اس خاتون نے میرے ساتھیوں سے پوچھا :یہ صاحب کہاں سے آئے ہیں؟ ’’یہ پاکستانی ہیں‘‘۔بس یہیں سےوہ دل کو پارہ پارہ کردینے اور میرے وطن کی عظمت کو چار چاند لگا دینے والا منظر شروع ہوتا ہے۔ وہ تباہ حال شکستہ خاطر اور دل آزردہ خاتون یک بیک یوں چہک اٹھی جیسے پرندہ پنجرے سے آزاد ہوگیا ہو۔ ’’سلام ہو تم پہ اور تمام اہل پاکستان پہ، میں خوش نصیب ہوں کہ میری آنکھوں نے ایک پاکستانی کو دیکھ لیا‘‘۔پھر اس نے اپنے منجھلے بچے کو آواز دیتے ہوئے کہا، جا اپنے بڑے بھائی کو بلا لا، وہ بھی ایک پاکستانی کی زیارت کرلے گا۔
اس کے بعد اس کی آواز میں جذبوں کا طوفان امڈ آیا۔ ’’میرے بھائی خیمے کے اندر آ جاؤ، میرا فرش کچا ہے، اس پہ کوئی کپڑا بھی نہیں،میں اپنا دوپٹہ تمہارے نیچے بچھاؤں گی۔ میرے بھائی ذراٹھہر جاؤمیں تمہارے لئے چائے تیار کرتی ہوں‘‘۔ پھر وہ یوں بے قرار ہوگئی جیسے اس کا روٹھا ہوا سگا بھائی برسوں بعد گھر آیا ہو۔ بھائی! میں غریب ہوں اس لئے تم اندر نہیں آتے۔ بھائی صرف ایک منٹ کے لئے آ جاؤ، میں کہہ سکوں گی کہ اس خیمے میں میرا ایک پاکستانی بھائی آیا تھا۔
اور جب میں نے خیمے میں قدم رکھا تب وہ اپنے تمام دکھ اور غم بھول کر خزاں رسیدہ پھول کی طرح مسکرا رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے قطرے موتیوں کی طرح دمک رہے تھے۔ میں جب تک وہاں رہا محبت کی ایک نئی دنیا میں سانس لیتا اور گہری اپنائیت کے ایک ناقابل فراموش منظر میں کھویا رہا، یگانگت کا ایک تجربہ کرتا رہا جو تمام تجربات سے لطیف تر اور پاکیزہ روح کی طرح شفاف تھا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ