گزشتہ روز میرے نوجوان دوستوں کا ایک ’’گینگ‘‘ میری طرف آیا۔ ان نوجوانوں میں بس ایک حسین شیرازی تھے جو جوانی کی سرحد پار کرنے کے باوجود ابھی تک نوجوان ہیں یا میں خود کہ مجھے کوئی بزرگ کہہ کر دیکھے تو سہی۔ یہ دوست تین گاڑیوں میں آئے تھے۔ وجاہت مسعود، رؤف طاہر، ناصرملک، گل نوخیز اختر، اجمل شاہ دین، عذیر احمد، ابرار ندیم اور علی رضا۔ میرا ڈرائیور بہادر انہیں سیدھا میرے ٹی وی لاؤنج میں لے آیا جہاں میں اپنی مخصوص کرسی پرسامنے دھری ایک چوکی پر پلاسٹر چڑھی ٹانگ پھیلائے بیٹھا کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرنے کی سعی ٔ لاحاصل کر رہا تھا۔ میں نے رجّو کو آواز دی کہ مہمانوں کے لئے چائے وغیرہ کا بندوست کرو مگر اس سے پہلے نوخیز اور علی رضا نے میری دونوں بغلوں میں ہاتھ ڈال کر مجھے اٹھایا اور کمرے میں دھری وہیل چیئر پر بٹھاکر مجھے پورچ کی طرف لے گئے اور ایک گاڑی میں بٹھا کر باقی دوستوں سمیت تینوں گاڑیاں وہاں سے بھگا کرلے گئے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میں تو اغوا ہو گیا ہوں۔
مگر یہ اغوا تو دوستوں کی محبت کا آئینہ دار تھا۔ مجھے بتایاگیا کہ تم جیسا جہاں گرد آدمی تین ہفتوں سے گھر پر بیٹھا چھت کی طرف گھورتا رہتا ہے۔ آج ذرا ایک نظر آسمان پر بھی ڈال لو۔ آسمان تو خیر میں نے دیکھنا ہی تھا مگر میں حیرت سے ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا جو سڑکوں پر اپنے دونوں پاؤں سے چل رہے تھے، موٹرسائیکل کو کک مار رہے تھے، رستے میں نظر آنے والی دکانوں کی سیڑھیاں ’’بقلم خود‘‘ چڑھ رہے تھے، اپنی اپنی خواتین کے ساتھ چہل قدمی کر رہے تھے۔ ’’اپنی اپنی خواتین‘‘ میں آپ حسب ِ خواہش کسی بھی خاتون کو شامل کرسکتے ہیں مگراس دوران اچانک میری نظر ایک بارہ تیرہ سال کے بچے پر پڑی جو زمین پر گھسٹ کر چل رہا تھا اور سڑک پار کرنے کے لئے کسی کی مدد کا منتظر تھا۔ گاڑی میں بیٹھے ہوئے بس اسٹاپوں پر بیسیوں لوگوں کو بس کے انتظار میں کھڑے دیکھا اور بسوں کے دروازے میں لٹکے ہوئے انسان بھی دیکھے۔ ایسے بہت سے مناظر دیکھنے کو ملے کہ میں اپنی معذوری بھول گیا اور دل سے دعا نکلی کے یا باری تعالیٰ دنیا کے سب انسانوں کو انسانوں ایسی زندگی بسر کرنے کے احکامات جاری فرما!
تینوں گاڑیاں کوئی 45منٹ تک سڑکوں پر بھاگتی رہیں، مگر حرام ہے جو مجھے پتاہو کہ ہم کدھر سے گزر رہے ہیں، میں جو 65برس سے لاہور میں رہ رہا ہوں گزشتہ تین برسوں سے شہباز شریف نے مجھے سار ےراستے بھلا دیئے ہیں۔ جگہ جگہ اوور ہیڈ برج، انڈر پاسز، آپس میں لنک کرنے والی سڑکیں چنانچہ اب میں ڈرائیور کے بغیر اپنے گھر کاراستہ بھی بھول جاتا ہوں۔ بہرحال عذیر احمد واحد شخص تھا جسے منزل مقصود کا پتا تھا۔ تبھی وہ اس گاڑی میں تھا جس کو باقیوں نے فالو کرنا تھا۔ اس نے بتایا کہ اب ہم مغل پورے میں ہیں۔ یہی منزل مقصود تھی چنانچہ باقی دو گاڑیاں بھی ایک ماٹھے سے ریستوران کے سامنے پارک کردی گئیں۔ مجھے وہیل چیئر پر اندر لے جایا گیا۔ جہاں بیٹھے کئی لوگوں کی زہر بھری نظروں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے لئے دو میزیں ساتھ ساتھ جوڑ دی گئی تھیں جن پرکہنی رکھنا ’’منع‘‘ تھا کہ وہ ’’تھندے‘‘ سے بھری ہوئی تھیں۔ ریستوران کا ’’چھوٹا‘‘ آیا اور اس نے میز سے بھی زیادہ گندے کپڑے سے میز صاف کیں۔ پتا چلا کہ اس ریستوران میں بکرے کے جو جوائنٹس ملتے ہیں وہ ہند سندھ میں کہیں بھی دستیاب نہیں۔ وجاہت مسعود، رؤف طاہر، اجمل شاہ دین، گل نوخیز اختر، ناصر ملک، ابرار ندیم، علی رضا اور حضرت ِ حسین شیرازی نہ صرف یہ کہ یہ سب دوست دانشور اور لکھاری ہیں، بلکہ الحمد للہ خوشحال بھی ہیں مگر برگر کلاسیئے نہیں ہیں، عوام کی بات کرتے ہیں اور عوام میں اٹھتے بیٹھتے ہیں چنانچہ دوستوں کی یہ منڈلی یہاں خوب جمی۔ ادب پر بات ہوئی، ادیبوں پر بات ہوئی اور اس مسئلے پر بھی کہ ادیب خود کو صرف ادب تک کیوں محدود رکھتے ہیں؟ انہیں سیاست، معاشرت، مذہب اور دیگر تمام معاملات میں شعری اشاروں کنایوں کے بجائے براہ راست اظہار ِ خیال بھی کرنا چاہئے کہ انہوں نے عوام کو اپنے پیچھے لے کر چلنا ہے، ان کے پیچھے نہیں۔ البتہ جب وہ غزل کہیں، افسانہ لکھیں، پھر چاہے جتنی مرضی گول مول بات کریں مگر معاشرے میں پھیلی ہوئی جہالت کے خلاف جہاد اس خوف سے الگ ہو کر کرنا چاہئے کہ اس سے ہم کسی طبقے سے بریکٹ ہوجائیں گے اور ہمارا ادبی مقام متنازع ہو جائے گا۔
خیر یہ باتیں تو برسبیل تذکرہ درمیان میں آگئیں۔ سب سے اہم چیزتو وہ جوائنٹس تھے جس کی لذت ابھی تک زبان یاد کر رہی ہے اور چسکے لینے میں مشغول ہے۔ لذت ِ کام و دہن سے فراغت کے بعد ’’چھوٹے‘‘ کو بل لانے کے لئے کہا تو اس نے کہا ’’جناب آپ کے ساتھ جو صاحب آپ کی ٹیبل پر بیٹھنے کے بجائے بہترین جوائنٹس منتخب کررہے تھے اور اپنے سامنے تیارکرا رہے تھے، بل بھی انہو ں نے ادا کردیا۔ ‘‘اس پر سب دوستوں نے ہاتھ اٹھاکر عذیر احمد کےلئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں آئندہ بھی ایسے کاموں کی توفیق عطا فرمائے۔ بہرحال صاحبو! یہاں سے اٹھا کر میرے احباب مجھے میرے پرانے ’’گاؤں‘‘ اقبال ٹاؤن کے گلشن اقبال لے گئے جہاں لوگ جوق در جوق (بغیروہیل چیئر کے) سیرکر رہے تھے۔ مگر میرے دوستوں نے مجھے ان سےزیادہ سیر کرائی۔ مجھے ان لمحوں میں صرف ایک خدشہ تھا اور وہ ابرار ندیم کی طرف سے تھاکہ کہیں یہ خبیث ’’دے جا سخیا راہ ِ خدا ،تیرا اللہ ای بوٹا لاوے گا‘‘ کی صدا نہ لگا دے مگر وہ اس کے انجام سے واقف تھا اور وہ یہ کہ میں نے نوخیز کو صرف آنکھ مارنا تھی اور اس کے بعد ابرار کو جگتوں کی صورت میں وہ ٹھاپیں پڑنا تھیں جو اسے صور ِ اسرافیل پھوکنے تک یاد رہنا تھیں!
جب دوستوں نے مجھے شام کو گھر چھوڑا تو میری تین ہفتوں کی بوریت دفعہ دو رہو چکی تھی۔ بس اب پلاسٹر اترنے کی دیر ہے اس کے بعد پھر یہ دشت ہوگااور میری دشت نوردی ہوگی۔ واضح رہے یہاں دشت سے میری مراد وہ دنیا ہے جو ہڈپیر سلامت ہونے کی صورت میں بہت خوبصورت ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ