یہ جب سے لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو بہت سے نئے دوست بنے جن میں سے کچھ سے بالمشافہ ملاقات بھی ہو چکی ہے اور باقیوں سے فیس بک پر ہی گپ شپ ہوتی ہے۔ فیس بک ایک ایسا جدید گاؤں بن چکا ہے جس پرآپ نئے نئے لوگوں سے ملتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ملنے سے پہلے کوئی ٹائم بھی نہیں لینا پڑتا۔دوسرا بندہ آن لائن ہو یا آف لائن آپ اسے آسانی سے اپنا نقطہ نظر میسج کے ذریعے بھیج سکتے ہیں۔ یہ میسج ٹیکسٹ کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور آواز یا ویڈیو کی صورت میں بھی بھیجا سکتا ہے۔ اور دوستوں سے جب چاہیں کال کے ذریعے بات بھی کر سکتے ہیں۔
ماضی کا جائزہ لیں تو صرف پندرہ سال پہلے تک صورتحال یکسر مختلف تھی۔فیس بک تو درکنار موبائل فون نہ ہونے کے برابر تھے۔ گھروں میں یا دفاتر میں رابطے کے لیے ٹیلی فون یا پھر فیکس، خط، ٹیلی گرام استعمال ہوتے تھے۔ اور پھر جب موبائل فون آیا تو ابتدا میں اتنے سادہ فون آئے جن کے ذریعے صرف کال کی جا سکتی یا پھر سنی جا سکتی تھی۔ پھر موبائل فون کے اندر میسج کا فیچر بھی متعارف کرایا گیا اور آج کے موبائل فون میں دنیا جہان کی شاید ہی کوئی چیزہو جو اس میں سما نہ سکی ہو۔ آج کل موبائل فون کے دور میں اگر آپ کا کوئی دوست یا قریبی عزیز دوسرے شہر میں ہو اور کسی وجہ سے آپ کا اس سے فون پر رابطہ نہ ہو سکے تو خواہ مخواہ پریشانی ہو جاتی ہے ۔ کہ خدا خیر کرے موبائل فون بند کیو ں ہے جبکہ دو دہائی پہلے دور دراز شہروں میں اپنے کسی عزیز یا دوست کی خیریت دریافت کرنے یا کوئی پیغام دینے کے لیے خط بھیجے جاتے اور اس خط کا جواب کم از کم پندرہ دن یا ایک مہینے بعد آتا تو اس دوران کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی، ایک اطمینان کی کیفیت ہوتی تھی۔ لوگ حج ، عمرہ یا باہر کے ممالک میں جاتے تو بھی رابطے کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں تھا۔ وہاں سے بھی خطوط یا پھر ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے آڈیو کیسٹس میں پیغام بھیجا جاتا تھا۔ موبائل فون آنے سے پہلے شہر اور گاؤں کی صورتحال بھی بہت دلچسپ تھی۔گاؤں کی چوپال میں حقے کی گڑگڑاہٹ میں محفلیں سجائی جاتیں اس دوران پریشان حال لوگ دل کی بھڑاس نکال کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے اور کچھ لوگ اپنے چٹکلوں اور مزاحیہ باتوں سے محفل کا لطف دوبالا کرتے۔ اس دوران پیالوں میں گڑ یا پھر شکر والی چائے بھی نوش کی جاتی۔ علاقے کے مسائل اور ملکی سیاست پر بھی بات چیت ہوتی۔ اگر کسی عزیز کا کوئی خط یا چٹھی آتی تو اس کو بھی پڑھ کر سنایا جاتا اور خط کے آخر میں جب ” سب دوستوں، رشتے داروں کو سلام” پڑھا جاتا تو وہاں پر موجود ہرشخص ” انتہائی جوش و خروش کے ساتھ "وعلیکم السلام” کہتا۔
کچھ خطوط یا چٹھیوں کے تبادلے انتہائی” خفیہ رکھے جاتے”۔ یہ چٹھیاں یا خطوط ” دو جوڑے” اپنے دل کی صورتحال بیان کرنے کے لیے ایک دوسرے کو لکھتے۔چٹھی کو بحفاظت پہنچانے کے لیے مقامی سہولت کار کی خدمات لی جاتیں۔ ان چٹھیوں کو ” عطر اور پرفیومز” لگا کر انتہائی ادب و احترام کے ساتھ دل کی تصویر بنا کر بھیجا جاتا۔ اور کبھی کبھار کوئی کسی ٹرک کے پیچھے لکھا ہوا شعر چرا کر الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ لکھ دیا جاتا۔
دور تھوڑا تبدیل ہوا۔ موبائل فون پہلے شہروں میں آیا اور اس کے ساتھ ہی گاؤں میں بھی اس نے بہت تیزی سے اپنی جگہ بنا لی۔ جو آدمی نیا موبائل فون خریدتا وہ سب سے پہلے اپنے تمام دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنا نمبر بتاتا پھر جن جن دوستوں یا عزیزوں کے نمبر اس کے پاس آتے تو وہ فارغ وقت کو انتہائی مصروف کرنے کے لیے سب کو ” مس کال ” کرتا۔ اوراس دوران اس کے دوستوں کی طرف سے بھی بہت سی مس کالز اس کو موصول ہوتیں۔ پھر میسجزکا فیچر آیا تو سادہ پکچر میسجز یا بالکل خالی میسجز بھیجے جاتے۔ اسی دوران لوگ دوسروں سے موصول شدہ یا پھر ذہن میں آئے ہوئے ” رانگ نمبرز” بھی ٹرائی کرتے اور چند ہی خوش قسمت حضرات ہوتے جن کی لاٹری نکل آتی۔ باقی حضرات ہیلپ لائن پر کال کر کے کمپنی کی طرف سے ریکارڈڈ آواز سن کر ہی دل کو بہلاتے رہتے ۔ پھر چند ہی سال میں موبائلز فون میں اتنی جدت آ گئی کہ اس نے ٹیپ ریکارڈر، وائر لیس، کیمرہ، کیسٹ، کیلکولیٹر، ریڈیو، انٹرنیٹ، ای میل اور بہت سے اور فیچرز کو اپنے اندر سمو لیا۔ اب کسی دور دراز کے ملک میں بیٹھے دوست یا عزیز سے بات کرنے کے لیے آپ کے موبائل میں ، کال، میسج کے لیے واٹس ایپ، سکائپ،لائن، وی چیٹ، وائبر، ایمو، فیس بک میسنجر جیسے فیچرز ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مختلف لوگوں سے رابطے میں رہنے کے لیے انسٹا گرام، فیس بک اور ٹویٹر موجود ہیں اور پروفیشنل لوگوں کے لیے لنکڈن جیسی نیٹ ورکنگ سائٹ موجود ہے۔ موبائل فون کے ذریعے آپ یوٹیوب سے مختلف معلوماتی یا تفریحی ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح بزنس کے حوالے سے ایمیزون، فیور جیسی بے شمار سائیٹس موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے دنیا کو ” گلوبل ویلج” کہا جاتا ہے ، لیکن اس تصور کو عملی روپ دینے میں کمپیوٹر اور موبائل فون کا بہت اہم کردار ہے۔ ٹیکنالوجی میں دن بدن جدت آتی جا رہی ہے اورلگ رہا ہے کہ چند سال بعد صورتحال آج سے کافی مختلف ہوگی۔ آگے آگے د یکھیے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔۔
فیس بک کمینٹ