کرونا کی احتیاطی تدابیر اور رابطوں کے تعطل کی وجہ سے عرصے بعد شہر اقتدار میں آنا ہوا تو موسم کی تبدیلی کے ساتھ بہت کچھ بدلا دکھائی دیا اگرچہ شہر اقتدار کو موسموں سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ یہاں ہر موسم ہی موسم بہار ہوتا ہے بہت پہلے جب اسلام آباد آنا ہوتا تھا تو درختوں کے جھنڈ اور پیڑوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ فضا کو پُراسرار بنانے کے ساتھ ساتھ ماحول کو بھی اثر انگیز بناتی تھی اب شہروں کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ شجر اور پرندے بھی خال خال دکھائی دینے لگے ہیں اسلام آباد کا جڑواں شہر راولپنڈی اب سکڑتا اور اسلام آباد روات تک پھیلتا دکھائی دیتا ہے۔
بارشیں بھی اب زیادہ تر اسلام آباد میں ہی ہوتی ہیں یوں بھی اس شہر اقتدار میں انعامات و اکرامات کی بارشیں سارا سال ہی جاری رہتی ہیں اور دوسرے شہروں نے دونوں قسم کی بارشوں کے لیے منتظر ہی رہتے ہیں۔ بہرحال اس بار راولپنڈی اور اسلام آباد کے موسم میں دھند اور بارش کی بجائے دھوپ کی سنہری کرنوں سے واسطہ رہا ادب اور کتاب دوستوں سے پرانے اور کچھ نئے رابطے بھی ہوئے۔
کہنے کو توشہر ِ اقتداراسلام آباد گریڈوں کا شہر ہے لیکن خوش قسمتی سے ہم نے تو اس شہر کے دوستوں سے ہمیشہ محبتیں ہی سمیٹی اور تقسیم کی ہیں۔90 ء کی دہائی میں فکری تحریک کے روح رواں ڈاکٹر اعجاز حنیف مرحوم اور ساجد محمود خاکوانی نے کتاب دوستاں کی تقریب پذیرائی کا اسلام آباد میں انعقاد کیا اور اس میں وفاقی وزیر مخدوم جاوید ہاشمی اور سید جاوید علی شاہ کے علاوہ شہر اقتدار کے کئی نمایاں اہل قلم نے شرکت کی۔اسی طرح اسلام آباد ہی میں معروف شاعرہ شبنم شکیل کی صدارت میں منعقد ہونے والی تقریب پذیرائی میں محبوب ظفر،طارق نعیم، ڈاکٹر راشد متین،غضنفر ہاشمی، انجم خلیق،پروفیسر نثار ترابی اور دیگر ادب دوستوں سے ملاقاتیں رہیں جبکہ محترم افتخار عارف کی محبت و شفقت بھی ہمیشہ حاصل رہی۔راولپنڈی میں مرحوم شوکت مہدی اور اسلام آباد میں صحافی دوست مظہر عباس مرحوم سے ہونے والی ملاقاتیں بھی ابھی تک یاد ہیں۔افسانہ نگار منصور قیصراور احمد داؤد سے بھی اسی زمانے میں شناسائی ہوئی۔
بزم اہل قلم پاکستان کے روح رواں ڈاکٹر فرحت عباس راولپنڈی میں اپنے ہسپتال کے ذریعے مسیحائی کا فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں اور ادیبوں، شاعروں کی محافل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں انہوں نے کم وقت میں کافی دوستوں سے تقریب بہرملاقات کا اہتمام کر ڈالا جس میں معروف شاعر نسیم سحر صدر اور ڈاکٹر جنید آذر مہمان خاص تھے۔ مہمان اعزاز کی حیثیت سے راولپنڈی اسلام آباد کے ادب دوستوں سے مکالمہ بھی رہا اور شاعر دوستوں کی تازہ شاعری سننے کا موقع بھی ملا۔ ڈاکٹر فرحت عباس کی میزبانی میں ہونے والی یہ تقریب خاصی بھرپور ٹھہری۔ عارف فرہاد، رفعت وحید، زہرہ بتول، فخر عباس، طلعت منیر اور ڈاکٹر مظہر اقبال کے علاوہ ڈاکٹر جنید آذر، شہزاد بیگ، سلیم اختر اور صدر محفل نسیم سحر کے عمدہ کلام نے محفل کا لطف دوبالاکیے رکھا۔
اسلام آباد میں اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر پروفیسر یوسف خشک سے ملاقات کے دوران جنوبی پنجاب کے اہل قلم کو قومی دھارے میں شریک رکھنے کے ساتھ ساتھ اکادمی کے ملتان آفس کو مزید فعال بنانے پر بھی مختلف تجاویز پر گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر یوسف خشک اکادمی ادبیات کو فعال رکھنے اور ادیبوں شاعروں کی فلاح و بہبود کیلئے مؤثر اقدامات کرنے میں خاصے پرعزم اورپُرجوش نظر آئے۔
مستحق ادیبوں کوفنڈ کی فراہمی اور ادبی شخصیات پر معماران ادب کی اشاعت بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ حال ہی میں معروف افسانہ نگار انتظار حسین پر خصوصی سیمینار کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔اکادمی ادبیات کے شعبہ تالیف و تصنیف میں اختر رضا سلیمی بھی اس سلسلے میں خاصے فعال نظر آئے۔ جبکہ محترم مہر علی اور محمد ساجد بھٹی بھی ہمیشہ محبتوں سے پیش آتے ہیں۔
اسلام آباد میں ادب اور کتاب دوست معروف صحافی جبار مرزا سے ان کی اہلیہ رانی کی وفات پر تعزیت بھی پروگرام میں شامل تھی۔ محترم جبار مرزا اپنی اہلیہ کی وفات پر خاصے دل گرفتہ نظر آئے اللہ تعالیٰ انہیں صبر و جمیل اور ان کی اہلیہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔(آمین)
افسانہ نگار دوست ڈاکٹر انور زاہدی سے بھی ان کی ہمشیرہ اور معروف شاعرہ ماہ طلعت زاہدی کی وفات پر تعزیت کی۔ اسلام آباد کے دیگر دوستوں میں افسانہ نگار محمد حمید شاہد،حمید قیصر اور اصغر عابد سے ملاقات کے بغیر اسلام آباد کا سفر ادھورا لگتا ہے سو اس دفعہ بھی اُن سے بھی بھرپور رابطہ رہا۔افسانہ نگار حمید شاہد نے قلم اور قرطاس سے مسلسل رشتہ استوار کیا ہوا ہے حال ہی میں ان کی نئی کتاب ”منٹو آج بھی زندہ کیوں“شائع ہو کر ادبی حلقوں سے پذیرائی حاصل کر رہی ہے۔
اس مرتبہ اسلام آباد کے سفر میں ایک اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ اپنے سکول کے زمانے کے دوست رانا طارق سے ملاقات کے ساتھ ساتھ مادر علمی زکریا یونیورسٹی کے پرانے دوستوں سے بھی اس شعر کی صورت ملاقات ہو گئی کہ ؎
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
محترم بہادر خان سیہڑ ضلع لیہ سے دوبارہ قومی اسمبلی کے رکن اوروفاقی وزیر رہ چکے ہیں ان کی میزبانی میں ہونے والی ملاقات میں محترم طاہر خوشنود، محترم رمضان خالد اور ریڈیو پاکستان اسلام آباد سنٹرل پروڈکشن کے کنٹرولر آصف خان کھیتران شامل تھے۔ بہادر خان اور آصف کھیتران یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات میں ہم مکتب تھے جبکہ طاہر خوشنود اور رمضان خالد یونیورسٹی میگزین زلال کی ادارت میں راقم کے ساتھ شامل تھے۔ طاہر خوشنود صدر مملکت کے پریس سیکرٹری اور انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں چیف پرسنل آفیسر کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے جبکہ رمضان خالد PTV اسلام آباد میں ڈائریکٹر نیوز کی ذمہ داریاں بااحسن انجام دیتے رہے ہیں۔
اسلام آباد کلب کے پولو گراؤنڈ میں پر تکلف ظہرانے کے ساتھ زمانہ طالب علمی کی خوبصورت یادوں اور باتوں کے ساتھ ساتھ سنہری دھوپ نے خوبصورت سماں باندھے رکھا۔منیر نیازی اور احمد مشتاق ایک خوبصورت اشعار کے ساتھ ساتھ سیاست اور حکومت کے معاملات بھی زیر گفتگو رہے۔ا دب اور کتاب دوستوں سے اس ملاقات میں کتابوں کے تبادلے بھی ہوئے۔راولپنڈی اور اسلام آباد کے ادب دوستوں کو ادب اور کتاب دوست بھائی مظہر سلیم مجوکہ کی طرف سے دیئے گئے ادب لطیف اور بک ڈائجسٹ کے تازہ شمارے بھی پیش کیے۔ معروف کالم نگار منو بھائی نے ایک بار ملتان میں کہا تھا کہ جس کا ملتان مضبوط ہے اس کا اسلام آباد بھی مضبوط ہے۔
حکومت اور سیاست کے میدان میں ملتان کے سپوت نمایاں اور فعال نظر آتے ہیں تو دل کو خوشی کے ساتھ اطمینان بھی ہوتا ہے۔ ملتانی مخدوم شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ کی حیثیت سے اسلام آباد میں خاصے فعال ہوتے ہیں حال ہی میں کامیاب سفارت کاری کے ذریعے چین سے کرونا سے بچاؤ کی ویکسین بھی وصول کر چکے ہیں اور کرونا کے خلاف حکومتی جنگ میں خاصے پُرامید ہیں۔
عوام دوست رکن قومی اسمبلی چیف وہیب اور وزیر مملکت محترم عامر ڈوگر بھی اسمبلی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں ان سے بھی اسلام آباد میں رابطہ ہوا وہ بھی ملتانی دوستوں کیلئے ہمیشہ فرش دل راہ کئے رکھتے ہیں اور یہ عوامی نمائندے حکومت کے ایوانوں سے جنوبی پنجاب کیلئے مراعات اور سہولتوں کی فراہمی کیلئے خاصے سرگرم عمل ہیں۔
اسلام آباد کا موسم سیاسی ماحول اور درجہ حرارت کی وجہ سے آج کل خاصا گرم ہے ایک طرف سینیٹ کے انتخابات کی گہما گہمی میں اسمبلیوں میں شور شرابہ مچا ہوا ہے تو دوسری طرف اپوزیشن لانگ مارچ کی تیاریوں میں سرگرم عمل ہے۔ خدا کرے کہ یہ تمام مراحل بخوبی طے ہوں اور جمہوری عمل کا تسلسل برقرار رہے اور شہر اقتدار کے موسموں سے اچھی خبریں ملتی رہیں۔
فراق یار کی بارش ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اترا کمال کا موسم
بہت دنوں سے میرے ذہن کے دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے تمھارے خیال کا موسم
فیس بک کمینٹ