کئی روز سے لسانی جھگڑا جاری ہے زبان کبھی کسی کی میراث نہیں رہی سب علاقوں ،شہر وں اور ملکوں کی زبانیں مختلف ہیں ۔ بابا فرید گنج شکر اورخواجہ فرید دو الگ الگ شاعر ہیں مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ بابا فرید گنج شکر کے بارے میں نہیں جانتے اور نہ ہی خواجہ فرید کے بارے میں ۔یہاں میں تفصیل کے ساتھ دونوں شاعروں کا تقابلی جائزہ پیش کر رہی ہوں یقینا بڑے دانشور ،علماء، ادیب و شاعر میری اس ریسرچ سے اتفاق کریں گے جو کچھ میں نے پڑھا جو کچھ میں نے دیکھا بیان کیا ۔میرا تعلق کیونکہ خود اس دھرتی سے ہےاس لیے مجھے لکھنے کی جسارت کرنا پڑی۔
بابا فرید شکر گنج اور خواجہ غلام فرید برصغیر کے عظیم صوفی شاعر اور روحانی رہنما ہیں۔ دونوں نے اپنی شاعری کے ذریعے انسانیت، محبت، اور روحانیت کے پیغام کو فروغ دیا، لیکن ان کی زبان، مقام، اور ادبی انداز میں فرق پایا جاتا ہے، جسے واضح کرنا ضروری ہے۔
بابا فرید شکر گنج (پاکپتن، پنجاب)
بابا فرید الدین مسعود گنج شکر 12ویں صدی کے مشہور صوفی بزرگ اور پنجابی زبان کے ابتدائی شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ پاکپتن، پنجاب میں رہائش پذیر تھے اور چشتی سلسلے کے معروف صوفی تھے۔ ان کی شاعری میں توحید، محبت، عاجزی اور دنیاوی خواہشات سے دوری کا پیغام ہے۔ ان کے اقوال اور اشعار زیادہ تر پنجابی زبان میں ہیں، اور وہ ادب کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
بابا فرید کی نمایاں خصوصیات:
1. زبان: بابا فرید کی شاعری پنجابی زبان میں ہے، جو اس وقت کی عام بول چال کی زبان تھی۔
2. مقام: پاکپتن، پنجاب، بابا فرید کی زندگی اور روحانی خدمات کا مرکز رہا۔
3. موضوعات: ان کے کلام میں خدا سے محبت، دنیاوی زندگی کی بے ثباتی، اور روحانی سکون کے حصول کا درس ملتا ہے۔
4. اثر: ان کے اشعار کو گرو گرنتھ صاحب میں بھی شامل کیا گیا، جو ان کے کلام کی عظمت کا ثبوت ہے۔
خواجہ غلام فرید (کوٹ مٹھن، سرائیکی وسیب)
خواجہ غلام فرید 19ویں صدی کے معروف سرائیکی شاعر، صوفی، اور فلسفی تھے۔ وہ کوٹ مٹھن (ضلع راجن پور، سرائیکی وسیب) سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی شاعری سرائیکی زبان میں ہے، جس میں عشق حقیقی، وحدت الوجود، اور قدرت کی خوبصورتی کا ذکر ملتا ہے۔ خواجہ فرید نے اپنی شاعری کے ذریعے سرائیکی ثقافت اور زبان کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
خواجہ فرید کی نمایاں خصوصیات:
1. زبان: ان کی شاعری سرائیکی زبان میں ہے، جو ان کے وسیب کی بنیادی زبان تھی۔
2. مقام: کوٹ مٹھن، جو اس وقت کے سرائیکی خطے کا ایک اہم روحانی اور ثقافتی مرکز تھا۔
3. موضوعات: عشق حقیقی، انسانیت سے محبت، اور فطرت کی عکاسی ان کی شاعری کی بنیادی خصوصیات ہیں۔
4. اثر: ان کی شاعری سرائیکی زبان و ثقافت کی نمائندہ ہے اور آج بھی لوگوں کو روحانی طور پر متاثر کرتی ہے۔
بابا فرید کو پنجابی شاعر اور خواجہ فرید کو سرائیکی شاعر کیوں کہا جاتا ہے؟
یہ فرق بنیادی طور پر زبان، مقام، اور ثقافتی پس منظر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ بابا فرید کی شاعری پنجابی زبان میں ہے، اس لیے وہ پنجابی ادب کا حصہ ہیں، جبکہ خواجہ فرید سرائیکی زبان کے عظیم شاعر ہیں اور ان کی شاعری سرائیکی خطے کی نمائندہ ہے۔
بابا فرید کو پنجابی شاعر کہنے کی وجہ:
بابا فرید کی شاعری کے زیادہ تر اشعار پنجابی میں ہیں، جو ان کے وقت کی عام بولی تھی۔
پنجابی ادب کے ابتدائی شعری ذخیرے میں ان کا کلام شامل ہے، جس نے پنجابی زبان کو ادبی حیثیت دی۔
خواجہ فرید کو پنجابی شاعر کہنے کی غلط فہمی:
خواجہ فرید کی شاعری سرائیکی زبان میں ہے، لیکن بعض لوگ سرائیکی اور پنجابی کو ایک ہی زبان کا حصہ سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں مختلف زبانیں ہیں۔
سرائیکی زبان کو ایک عرصے تک پنجابی زبان کے ذیلی لہجے کے طور پر سمجھا جاتا رہا، جو ایک تاریخی اور لسانی مغالطہ ہے۔
سرائیکی اور پنجابی کا تعلق اور فرق یہاں پر واضح ہے
سرائیکی اور پنجابی دونوں زبانیں برصغیر کے شمالی علاقے کی زبانیں ہیں، لیکن ان کے تلفظ، گرامر، اور ادبی اظہار میں نمایاں فرق ہے۔
1. سرائیکی: زیادہ تر جنوبی پنجاب، بلوچستان، اور سندھ کے علاقوں میں بولی جاتی ہے اور اس کا لہجہ نرم اور موسیقی سے بھرپور ہے۔
2. پنجابی: پنجاب کے مرکزی اور مشرقی علاقوں میں بولی جاتی ہے اور اس میں توانائی اور روانی زیادہ ہے
آ خرمیں جو تیجہ میں نے اخذ کیا وہ آپ کے سامنے ہے اگر اب بھی کسی کو سمجھ نہیں آ تی تو بہت افسوس کی بات ہے کہ یہ وہ حقائق ہیں جو تاریخ بتا رہی ہے
بابا فرید اور خواجہ فرید دونوں اپنی اپنی زبان اور علاقے کے عظیم شاعر ہیں۔ بابا فرید پنجابی ادب کے بانیوں میں سے ہیں، جبکہ خواجہ فرید سرائیکی ثقافت کے عظیم نمائندہ ہیں۔ دونوں نے اپنے اپنے دور میں انسانیت، محبت، اور روحانی اقدار کو فروغ دیا۔ خواجہ فرید کو پنجابی شاعر کہنا تاریخی اور لسانی طور پر درست نہیں، کیونکہ ان کی پہچان سرائیکی شاعری ہے، جو ایک الگ اور منفرد ادبی روایت کی نمائندگی کرتی ہے۔
فیس بک کمینٹ