امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عرب لیڈروں کی مخالفت کے باوجود اپنی اس تجویز کو دہرایا ہے کہ ’غزہ کو صاف کیاجائے‘۔ وہاں کے فلسطینیوں کو مصر اور اردن میں بسا دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ نقل مکانی مختصر یا طویل مدتی ہوسکتی ہے۔ حماس کے لیڈروں اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ صدر محمود عباس نے ایسے کسی منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے لیکن عام طور سے عرب ممالک کی طرف سے کوئی فوری اور شدید رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔
اس پس منظر میں دیکھنا چاہئے کہ اگر امریکی صدر نے ایک بار پھر فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرکے ہمسایہ ملکوں میں بھیجنے کے منصوبے پر اصرار کیا تو مصر و اردن کے علاوہ سعودی عرب اور دیگر مالدار عرب ممالک کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ سب ممالک دو ریاستی نظریے کی بنیاد پر فلسطینیوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے غزہ میں اسرائیلی جنگ جوئی کے دوران اسے فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیاتھا اور اور کہا تھا کہ فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کے دوران اسرائیل سے کسی قسم کی مواصلت نہیں ہوسکتی۔ اکتوبر 2023 میں غزہ میں جنگ شروع ہونے سے پہلے سعودی عرب ، اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے منصوبہ پر کام کرتا رہاتھا تاہم اس جنگ کی وجہ سے ان سب کوششوں کو معطل کردیاگیا تھا۔
سعودی عرب اپنے مالی وسائل اور مسلمان ممالک میں اثر و رسوخ کی وجہ سے فلسطین کے سوال پر سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابقہ دور میں سعودی حکومت سے قریبی تعلقات استوار رہے تھے۔ حتی کہ سابقہ دور حکومت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر کے طور پر سب سے پہلا غیر ملکی دورہ ریاض ہی کا کیا تھا۔ اب بھی یہ تعلقات قریبی اور دوستانہ ہیں۔ ٹرمپ سعودی عرب کو امریکہ کے ساتھ تجارت بڑھانے کی ترغیب دیتے ہیں جبکہ ولی عہد محمد بن سلمان نے صدر ٹرمپ سے فون پر گفتگو کے بعد آئیندہ چار سال میں امریکہ کے ساتھ سرمایہ کاری اور تجارت کے شعبوں میں 600 ارب ڈالر صرف کرنے کا عندیہ دیاہے۔ تاہم اس اعلان میں بھی یہ واضح نہیں ہوسکا تھا کہ سعودی عرب حال ہی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کو مؤثر بنانے ، غزہ میں پائدار امن قائم کرانے اور اس کی تعمیر نو کے لیے امریکہ سے کس قسم کے تعاون کا مطالبہ کریں گے۔ سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے ٹرمپ اور ایم بی ایس کے درمیان ہونے والی گفتگو اور مالی تعاون میں قابل ذکر اضافہ کی جوخبر نشر کی تھی، ا س میں سعودی ایجنڈے کے مطابق علاقے میں پائدار امن کے حوالے سے کسی رعایت کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا۔ اگرچہ سفارت کاری میں سعودی عرب پس پردہ بات چیت پر یقین رکھتا ہے اور اپنی خواہشات کا برملا اظہار نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود غزہ میں 15 ماہ تک ہونے والے مظالم کے باوجود سعودی عرب ابھی تک امریکہ سے اس بارے میں کوئی کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ حالانکہ سعودی عرب اگر امریکی مصنوعات کی خریداری کو فلسطین کا مسئلہ حل کرنے سے مشروط کردے تو وہ ٹرمپ پر یہ مسئلہ حل کرانے کے لیے دباؤ میں اضافہ کر سکتا ہے۔
اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ اگرچہ چند روز میں دو بار غزہ کو صاف کرکے فلسطینیوں کو امن سے رہنے کا موقع فراہم کرنے کی بات کرچکے ہیں لیکن سعودی عرب یا کسی دوسرے اہم عرب ملک نے اس بیان پر کوئی تبصرہ کرنے اور فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکالنے کے انسانیت سوز منصوبے کو ترک کرنے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ اردن اور مصر نے اگرچہ ایسے کسی منصوبے میں حصہ داری سے انکار کیا ہے لیکن گزشتہ روز ائیرفورس۔ 1 پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ٹرمپ نے غزہ کے فلسطینیوں کی نئی آباد کاری کی تجویز کو دہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ’ میں نے حالیہ دنوں میں اردن کے شاہ حسین دوئم اور مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی سے فون پر بات کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ مصری صدر سیسی کچھ فلسطینیوں کو قبول کرلیں گے۔ ہم نے ان کی بے حد مدد کی ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ وہ بھی ہماری مدد کریں گے۔ اسی طرح مجھے امید ہے کہ اردن کے شاہ حسین بھی میری تجویز مان لیں گے‘۔ البتہ دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ مصر کی وزارت خارجہ نے اس معاملہ پر صدر سیسی اور صدر ٹرمپ کے درمیان کسی گفتگو کی تردید کی ہے اور کہا کہ ویک اینڈ پر دونوں لیڈروں کی کوئی گفتگو نہیں ہوئی ورنہ اس کا اعلان کیا جاتا۔
اس سے قبل مصر نے صحرائے سینا میں فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ صدر عبدالفتاح السیسی کا کہنا تھا کہ اس سے مصر اور اسرائیل کے درمیان 1979 میں ہونے والے امن معاہدے کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اردن پہلے ہی 23 لاکھ رجسٹرڈ فلسطینی پناہ گزینوں کا گھر ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کی بے دخلی کو اردن پختہ اور غیر متزلزل انداز میں مسترد کرتا ہے۔ حماس اور فلسطین کے سیاسی قائدین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کو صاف کرنے کے منصوبے پر برہمی اور مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ البتہ اسرائیل نے اس کی حمایت کی ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس نے غزہ کے شہریوں کو بے دخل کرنے کے کسی بھی منصوبے کی مذمت کی۔ حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن باسم نعیم کا کہنا تھا کہ فلسطینی ایسے کسی بھی منصوبے کو ناکام بنائیں گے جیسا کہ وہ کئی دہائیوں سے بے دخلی اور متبادل وطن کے اسی طرح کے منصوبوں کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فلسطینی کسی بھی پیشکش یا حل کو قبول نہیں کریں گے۔چاہے ان کے ظاہری ارادے تعمیر نو کے جھنڈے تلے اچھے ہی کیوں نہ ہوں، جیسا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے تجویز کیا ہے۔
صدر ٹرمپ غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کی بات بظاہر ’انسانی ہمدردی‘ کے جذبے سے کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ مٹی کا ڈھیر بن چکا ہے۔ فلسطینیوں کو ہمسایہ ممالک میں اچھے گھر بناکر دیے جائیں تاکہ وہ امن سے رہ سکیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ واضح نہیں کرتے کہ کسی علاقے میں آباد لوگوں کو ان کی مرضی اور کسی قابل قبول منصوبہ کے بغیر کیسے منتقل کیا جاسکتا ہے۔ کیا امریکہ طاقت کے زور پر پچیس لاکھ فلسطینیوں کو ذبردستی غزہ سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟اور اس نقل مکانی سے کیا مقاصد حاصل کیے جائیں گے۔ ٹرمپ مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کی حمایت کرتے ہیں اور مسئلہ کے حل کے لیے دو ر یاستوں کے قیام کو عملہ جامہ پہنانے کی بجائے، ٹرمپ نے آج تک اس حل کی تائد میں کوئی بیان نہیں دیا۔ ان حالات میں غیر واضح بیانات میں فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی تجویز تمام عالمی قوانین اور دنیا بھر کی اس متفقہ رائے کے خلاف ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کو پر امن ریاستوں کی طرح ساتھ ساتھ رہنا چاہئے۔ تاہم اسرائیل اوسلو معاہدہ پر دستخط کرنے کے باوجود ابھی تک اس حل کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاریوں کے ذریعے فلسطینیوں کی آزادی کو مسلسل محدود کیا جارہا ہے اور ان کے علاقے چھینے جارہے ہیں۔
اب ٹرمپ غزہ کے 25 لاکھ شہریوں کو منتقل کرنے کے جابرانہ اور شرمناک منصوبہ کا اعلان کررہے ہیں۔ عرب ممالک کے علاوہ تمام مہذب ملکوں کو اس غیر انسانی تجویز کی سختی مذمت کرنی چاہئے تاکہ ٹرمپ خود کو دنیا کا عظیم لیڈر ثابت کرنے کے لیے کمزور طبقات کو دبانے اور ظلم کرنے کے جن منصوبوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں، اس کا دائرہ کار فلسطین اور غزہ تک نہ پھیلے۔ کسی علاقے کے لوگوں کو وہاں سے نکال کر کبھی نہ تو امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی لیڈر ’عظیم ‘ کہلا سکتاہے۔ فلسطینیوں کو غزہ سے ہٹانے کی کوئی بھی کوشش ’نکبہ‘ کی سیاہ تاریخ کی یادیں تازہ کر ے گی جب 1948 میں اسرائیل کے قیام کے لیے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیا گیا تھا اور بڑے پیمانے پر ظلم و ستم ڈھائے گئے تھے۔ لاکھوں فلسطینی اب بھی اردن و لبنان کے پناہ گزین کیمپوں میں مجبوری اور پریشان حالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کی جنگ جوئی میں حماس کے علاوہ حزب اللہ اور ایران بھی کمزور ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک کی طرح ایران بھی غزہ کے فلسطینیوں کی نقل مکانی کی تجویز پر کوئی سخت رد عمل دینے میں ناکام رہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس اراغچی نے اسکائی نیوز کو انٹریو دیتے ہوئے ضرور تبصرہ کیا ہے اور ٹرمپ کی تجویز کو مذاق میں اڑانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ٹرمپ غزہ کو صاف کرنے کی بات کرتے ہیں تو بہتر ہوگا کہ اسرائیلیوں کو گرین لینڈ لے جار کر آباد کرادیں ۔ اس طرح وہ ایک پتھر سے دو شکار کرسکتے ہیں‘۔ لیکن یہ معاملہ امریکی صدر کی بات کا مضحکہ اڑانے سے ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔
ٹرمپ نے دنیا اور خاص طور سے عرب ممالک کا رد عمل جاننے کے لیے تواتر سے غزہ کو صاف کرنے کی بات کی ہے۔ عرب لیڈروں و ایران نے اگر کوئی سخت مؤقف اختیا رنہ کیا اور پوری دنیا فلسطینیوں کی آزادی اور اپنی سرزمین پر رہنے کے حق کے لیے یک آواز نہ ہوسکی تو ٹرمپ جیسا لیڈر عرب لیڈروں کی کمزوری کا فائدہ اٹھاکر انہیں اپنے منصوبے پر عمل درآمد پر راضی کرسکتا ہے۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ