ہر صحرا پہلے سمندر ،اور ہر سمندر پہلے صحرا ہوتا ہے یا نہیں، یہ جغرافیہ دان بتا سکتے ہیں ،مگر زندگی کے موسموں کو جھیلنے والے ،اگر تخلیق کار ہوں تو وہ لفظوں کی کاریگری سے عمر بھر کے منظر نامے کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ہر پڑھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ گزرتے موسموں میں ہم بھی ان کا حصہ تھے ۔سچی محبتوں اور کھری نفرتوں کے تجربے اور زندگی کی بے شمار حقیقتوں کو کتابوں کی صورت میں پیش کرنے کا ہنر جاننے والے ،بخوبی جانتے ہیں کہ یہ خاموش کتابیں روشنی کے بلند میناروں کی مانند ہوتی ہیں جن سے لوگ آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔
اس وقت دو کتابیں جن کے بارے میں تبصرہ لکھنے میں دیر اس لیے ہوئی کہ میں ان کو تحقیق کی سادہ اور غیر جذباتی زبان کی نذر نہیں کرنا چاہتی تھی (جس کے زیر اثر ایک محقق کا رہنا ضروری قرار دیا جاتا ہے )کیوں کہ یہ دو ایسے اہم تخلیق کاروں کی کتابیں ہیں ،جو خطہ ملتان کے جذباتی و حسیاتی ادب کی پہچان ہیں اور ان کی آپس میں دوستی ان کی الگ پہچان ہے ،جن کے ناقدین بھی ان کے بارے میں بلا تامل کہہ اٹھتے ہیں کہ اردو شعر و ادب سے ایسے والہانہ لگاؤ کی مثال گرد گداگر گرما والے ملتان میں ملنا مشکل ہے۔ سچ پوچھیے تو
رضی الدین رضی اور شاکر حسین شاکر کے حوالوں کے بغیر اگر ملتان کی جدید ادبی تاریخ ادھوری ہے تو دونوں قلمکاروں کی ادبی ،سماجی اور ذاتی تاریخ بھی ایک دوسرے کے حوالوں کے بغیر نامکمل ہے۔ رضی شاکر یا شاکر رضی اب ایک نام کی صورت میں ڈھل چکے ہیں ۔دونوں نامور شخصیات، ملتان کے مستند ادبی چہرے ہیں جنہوں نے گذشتہ چار دہائیوں سے ملتان کی ادبی روایت کا مثبت چہرہ سامنے لانے کی قابل قدر کاوشیں کی ہیں ۔
"ساڈا چڑیا دا چنبہ "اور "ستارے مل نہیں سکتے ”
ان دونوں کتابوں کو ایک تاثراتی تبصرے اور ایک تصویری فریم میں ڈھالنے کا مقصد ،دو مختلف مزاج اور سمتوں میں رواں دواں اور اپنی طویل دوستی (جس کو لوگ سگی دوستی بھی کہتے ہیں) کو سگے رشتوں کی طرح نبھانے والے ،زندگی کے بہت سے دکھ سکھ کو اکٹھے جھیلنے کا عہد رکھنے والے ،حلقہ خواتین ہو یا حلقہ احباب ،تمام میں رضی بھائی اور شاکر بھائی کہلانے والے، المختصر ،علم وادب کی ان نامور ہستیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے ،جنھوں نے اپنے اپنے قلم کے ذریعے محبت کے عظیم موضوع کو منفرد انداز میں کچھ اس طرح برتا ہے کہ پڑھنے والے محبت کے عظیم تجربے سے آشنا ہوکر ،تمام مصنوعی آسودگیوں سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔
شاکر حسین شاکر صاحب نے "ساڈا چڑیا دا چنبہ ” کی صورت میں بیٹی کے لیے باپ کی طرف سے پیار بھری تحریریں کچھ اس قدر محبت بھرے افسانوی انداز میں رقم کی ہیں کہ ہر صفحے پر ایک نئی داستان ،ایک نئی کہانی کا در روشن ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔
پیاری بیٹی کی محبت کو ان لوگوں کے لیے مثال بناتی ہوئی کہانی ، جو بیٹی کی پیدائش پر آنسو بہاتے ہیں ۔۔۔۔۔ان کے نصیبوں سے ڈر جاتے ہیں۔۔۔
بچپن کے ساون میں کاغذ کی ناو بناکر، بارش کے پانی میں کھیلنے والی گڑیوں اور پریوں کی کہانی،
موسم ہجرت میں جب پرندے بہت دور نکل جاتے ہیں تو ایسے میں ان پنچھیوں کی جگہ پر بیٹیوں کی آوازیں سننے والے بابا جانی کی کہانی ،
ماں باپ کے گھر سے رخصت ہوکر ،نئے گھر ،میں جاکر اپنی تہذیب کی وارث بن جانے والی مضبوط بیٹی کی کہانی،
مشرق و مغرب میں بیٹی کے جنم پر ابر رحمت برسنے اور روشنی کی پریاں اترنے کی کہانی۔۔۔۔غرض کہ اس خوب صورت کتاب کے گلابی سرورق سے شروع ہوتی ہوئی ،ایک باپ کی محبت بھرے لفظوں کی کتھا ،اس نیلی چڑیا کے ساتھ ہمیں اس دنیا کی سیر کراتی ہے جہاں جابجا بکھرے ہوئے حسین پھولوں کے ہر رنگ میں بیٹی کی محبت اور اس کی خوشبو بسی ہے ۔۔۔ایک انتہائی منفرد اسلوب و حسیات کی حامل اس کتاب کو اردو کے تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے کی سفارش کرتے ہوئے ،میں اس کا انتساب اپنی پیاری بیٹیوں،جو اپنے بابا مرحوم کی لاڈلی بیٹیوں اور میری زندگی ہیں ،زروہ، فبھا اور مائرہ کے نام کرتی ہوں کیوں کہ شاکر بھائی نے یہ کتاب تحفہ دیتے ہوئے ،انتساب کی جگہ ہر بیٹی کے نام کے لیے خالی چھوڑ دی ہے ۔وہ بڑے وثوق سے لکھتے ہیں ۔۔۔۔
"یہ کتاب صرف گھر میں رکھنے والی نہیں ہے بلکہ جب آپ اپنی بیٹی کے لیے اداس ہوں تو اسے کھول کر بیٹھ جائیں اس کتاب میں آپ کی بیٹی آپ کو چلتی پھرتی نظر آئے گی۔اس کتاب کا ایک ایک لفظ محبت میں گوندھا ہوا ہے کہ اس کتاب کو لکھنے کے لیے میں نے صرف اپنی بیٹی کو اپنے تصورات میں دیکھا اور پھر لکھتا چلا گیا۔کتاب مکمل کرنے کے بعد معلوم ہوا یہ تو ایک شاہکار کتاب ہے "۔۔۔۔
اس شاہکار کتاب کو سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے بڑی خوبصورتی سے شائع کیا ہے ۔کتاب نگر feelings سے شائقین ادب حاصل کرسکتے ہیں۔ پیاری بیٹی کے لیے لفظیات کچھ اس طرح اس شعر کی صورت ، منسوب کی گئی ہیں کہ ہر بیٹی کا دل خوش ہوجائے ۔آپ بھی ملاحظہ کیجئے
انجم و مہر و ماہتاب سرو و صنوبر و گلاب
کس سے تجھے مثال دوں، ہوتو کوئی مثال بھی
دوسری کتاب رضی الدین رضی صاحب کے عمدہ شعری اسلوب پر مبنی مجموعہ "ستارے مل نہیں سکتے "ہے جس کا دوسرا ایڈیشن اضافوں کے ساتھ شائع ہوکر ،پڑھنے والوں کو "عجب معصوم لڑکی تھی ” کی یاد دلا رہا ہے۔گو کہ اب بھی معصوم لڑکیاں اس کائنات کا حصہ ہیں مگر یہ اس زمانے کی معصوم لڑکی کا نوحہ ہے کہ جو رومان کی حقیقت و انجام سے ناواقف تھی ۔ مرحوم قاضی عابد صاحب کے الفاظ میں "یہ محبت کے حزنیہ انجام کی نظم بن جاتی ہے اور یہی انجام اس نظم کو ماورائیت عطا کرتا ہے۔”
"بہت معصوم لڑکی تھی
مجھے کہتی تھی اب اپنے ستارے مل ہی جائیں گے
مگر اس کو خبر کیا تھی
کنارے مل نہیں سکتے
محبت کی کہانی میں
محبت کرنے والوں کے
ستارے مل نہیں سکتے ”
رضی الدین رضی کی شخصیت کا کامل اظہار قرار دیئےجانے والا یہ شعری مجموعہ آپ گردوپیش پبلشرز سے حاصل کرسکتے ہیں۔اردو ادب کے طالب علم، اس شعری مجموعہ میں تخیل ،لفظیات اور حسیات
کے عمدہ تجربوں سے لطف اٹھائیں گے جہاں ادھورا چاند ،خواب ،بادل ،شجر ،ستارے ،گھروندے، کچے مکان ،چھتنار ،پرندے ،مسافر اور دریا محبت کی نظم مکمل کرتے ہوئے ملیں گے ۔۔۔۔ان دونوں کتابوں کو ہر باذوق اور حساس قاری کی لائبریری یا بک شیلف کا حصہ ہونا چاہئے ۔ رضی الدین رضی مشاعروں میں ان اشعار کےذریعے آج بھی بہت داد سمیٹ لیتے ہیں ۔۔۔۔
جو کتابوں میں لکھا تھا وہ سبق تھا ہی نہیں
یاد کروایا گیا سب کو وہی لکھا ہوا
یہ زمانہ کھوٹ ہے اس واسطے میں اب رضی
ڈھونڈنے نکلا ہوں پھر سکہ وہی پھینکا ہوا
فیس بک کمینٹ