اگر کوئی کسی بھی حکمران کی غلطیاں نکالنے پر آ جائے تو اسے ایک نہیں بہت سی غلطیاں باآسانی مل جائینگی لیکن اگر آپ اس مشن پر ہیں کہ فلاں حکمران کی کردار کشی کرنا ہے تو پھر اسکی کسی غلطی کی تلاشی لینا بھی ضروری نہیں، جتنی کیچڑ اور غلاظت آپ اس پر پھینک سکتے ہیں اس کی آپ کو کھلی چھٹی ہے۔ ان دنوں پنجاب کی وزیر اعلیٰ انکی زد پر ہیں اور دشنام طرازی کے اس گینگ نے اپنی غلیلوں اور توپوں کا رخ انکی طرف کیا ہوا ہے، میں چونکہ میاں محمد شریف مرحوم سے لیکر انکی آل اولاد سے ایک طویل عرصے سے ’’ان ٹیکٹ‘‘ ہوں چنانچہ انکی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی بھی کرتا چلا آ رہا ہوں۔ میاں محمد نواز شریف پاکستان کے تین دفعہ وزیر اعظم رہے اور ہر دفعہ انکے ترقیاتی پروگراموں کی رفتار روکنے کیلئے انہیں ان کے منصب سے الگ کیا گیا، انہیں اور انکی پارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں پر مکروہ الزامات دھرے گئے، جو سب کے سب عدالتوں نے رد کردیئے، مگر اس سے پہلے انہیں جیل کے بدترین سیلز میں رکھا گیا، میاں نواز شریف کو تو ایک دفعہ ایسی کوٹھڑی میں رکھا گیا جس میں روشنی داخل نہیں ہوسکتی تھی اور انہیں پتہ ہی چل نہیں سکتا تھا کہ اس وقت دن ہے یا رات، کسی چوکیدار یا کھانا لانیوالے کو اجازت نہیں تھی کہ وہ ان سے بات کریں یا انکے کسی سوال کا جواب دیں، اور یوں تاریک کمرے میں بند آج کے سب سے بڑے سیاستدان اور پورے پاکستان کو ایک نئی نویلی شکل دینے والے کو یہ ذہنی اذیت بھی دی گئی کہ اسے پتہ نہیں چل سکتا تھا کہ اس وقت دن ہے یا رات ہے اور اس کے کانوں میں انسانی آوازیں سنائی نہ دینے کی اذیت ناک سزا سے بھی ’’نوازا‘‘ گیا، نواز شریف کی طرح بہت اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے کو بھی سخت اذیت ناک قید و بند سے گزارا گیا اور پورے خاندان کو جلاوطنی کی سزااس کے علاوہ تھی۔ اب خدا خدا کرکے وہ عہد بدباطن تمام ہوا چند حلیف جماعتوں کی حکومت قائم ہوئی، شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے اور تیز رفتار اس شخص کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا پڑرہا ہے، چاروں صوبوں میں وزرائے اعلیٰ بھی منتخب ہوئے، پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی ذمہ داری کا کانٹوں بھرا تاج مریم نواز کے سر پر سجایا گیا اور پنجاب کے عوام نے ان سے بہت سی امیدیں وابستہ کرلیں کہ انکا خاندان ماضی میں شاندار کارکردگی دکھا چکا تھا اور خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے عوام کو مایوس نہیں کیا۔ انکی وزارت اعلیٰ کی ششماہی بھی ابھی پوری نہیں ہوئی مگر عوام کی آنکھوں میں اب امید کی چمک پیدا ہوگئی ہے انہوں نے سب سے بڑا کام یہ کیا کہ ایک انتہائی لعنتی ’’رسم‘‘ کا خاتمہ کیا اور یہ سفارش کی لعنت تھی، اب کام میرٹ پر ہونا شروع ہوگئے ہیں ان میں سے چند ایک کا میں ذاتی طور پر گواہ ہوں، میرے پاس روزانہ کچھ لوگ اپنے کسی کام کی سفارش کیلئے آتے ہیں اور میں جب ان سے معذرت کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف آپ کے دفتر میں آتے رہے ہیں آپ کے گھر بھی آئے ہیں، آپ اگر کام نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں مگر یہ نہ کہیں کہ آپ کر نہیں سکتے، البتہ ایک نوجوان کو میری بات سمجھ میں آگئی کہ کام سفارش پر نہیں میرٹ پر ہو رہے ہیں، تم جس محکمے کا اشتہار شائع ہوا ہے وہاں اپلائی کرو، اس نے میرا مشورہ مان لیا اور سینکڑوں امیدواروں میں سے اسے سلیکٹ کرلیا گیا۔ اس طرح کی دو اور مثالوں سے آشنا ہوں، انہوں نے اپلائی کیا اور ملازمت کیلئے منتخب ہوگئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بیوروکریسی میں سے مختلف اسامیوں کیلئےایک فہرست وزیر اعلیٰ کو پیش کی جاتی ہے اور وہ خود انکا انٹرویو کرتی ہیں، ان میں سے اگر کسی کیلئے کسی کی سفارش آ جائے تو اس کا نام انٹرویو کی لسٹ ہی میں سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ اسطرح کی شفافیت اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آئی، ایک اور بڑا کام غریبوں کیلئے گھروں کی تعمیر کا ہے جسکے پاس اپنا دو تین مرلے کا پلاٹ ہے، اسے وہاں اپنی چھت تلے زندگی گزارنے کیلئے انتہائی آسان اقساط پر قرضے بھی دیئے جا رہے ہیں۔ ایک اور اقدام میرے لئے بہت حیرت انگیز تھا کہ سرکاری اسکولوں میں ان دنوں صرف غریب غربا کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ سے آئندہ زندگی میں وہ مختلف النوع جسمانی کمزوریوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔ مریم نواز نے ماں کے طور پر ان بچوں کو صحتمند خوراک دینے کا نظام شروع کیااور اس کا آغاز ڈیرہ غازی خان سے ہوا، میں نے یہ سسٹم یورپ میں دیکھا تھا اب یہ کام پنجاب میں بھی ہو رہا ہے۔ ویل ڈن مریم بیٹی!ایک بہت بڑا کام بجلی کے بلوں میں ریلیف کا بھی ہے، شاید ہم میں سے کچھ کو اندازہ نہ ہو کہ اس سے حکومت کی نیک نامی میں کتنا اضافہ ہوا ہے، کروڑوں لوگ پنجاب کی حکومت کو دعائیں دے رہے ہیں اس اقدام سے آئی ایم ایف کو بہت تکلیف پہنچی ہے۔ اگر کسی کو تکلیف پہنچتی ہے تو پہنچنے دیں، غریبوں کے ریلیف میں تو کمی واقع نہیں ہوئی، ہمارے ایم پی ایز بھی ان دنوں تکلیف میں ہیں کہ ترقیاتی فنڈ بھی ریوڑیوں کی طرح تقسیم نہیں ہوئے، اصول و ضوابط کے مطابق دیئے جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ چھوٹے چھوٹے کام بھی کئے گئے، شہباز شریف کے بعد یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ طوفانی بارشوں کے بعد سڑکیں صرف چند گھنٹوں کیلئے دریا کی صورت اختیار کرتی ہیں، اب جب ادھر سے گزرتے ہیں تو لگتا ہے کہ بارش ہوئی ہی نہیں تھی، میں نے اسے چھوٹے چھوٹے کاموں میں شمار کیا ہے جبکہ اس سے پہلے دریا بن جانے والی سڑکو ںپر ٹریفک جام ہو جاتی تھی جس سے بیسیوں پرابلم پیدا ہوتے تھے۔آخر میں ایک دو مشورے، اسکولوں میں صرف تعلیم کسی کام کی نہیں اگر بچوں کی کردار سازی پر توجہ نہ دی جائے کہ آگے چل کر انہی نے یا تو ہمارے جیسوں کے نقش قدم پر چلنا ہے اور یا پھر ایک نئی مہذب قوم ہمارے پاکستان کا مقدر بنے گی۔مرکز میں محی الدین وانی نے اس حوالے سے معجزانہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اسکولوں کی ظاہری حالت کے علاوہ وہاں تعلیم پانے والے بچوں کو زندگی گزارنے کا ایک چارٹر بھی دیا ہے۔ وانی گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری بھی رہے ہیں اب جس نے ایک پازٹیو تبدیلی دیکھنا ہو وہ ایک چکر ادھر کا لگا آئے۔ ایک مشورہ اور کہ سات سات، آٹھ آٹھ سال سے بہت سے سرکاری ملازمین کنٹریکٹ پر ہیں انہیں پکا نہیں کیا جا رہا اور یوں ان کےسروں پر ہر وقت ایک تلوار سی لٹکتی رہتی ہے۔ ایک ملاقات میں میں نے وزیر اعلیٰ کی توجہ اس طرف دلاتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ان بے چاروں کو پکا کرکے لاکھوں لوگوں کی دعائیں لیں، اس پر انہوں نے کہا پنجاب میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یوں بجٹ پر بہت زیادہ بوجھ پڑے گا۔ آپ ٹھیک کہتی ہیں لیکن اگر انہیں کنٹریکٹ پر لگا ہی دیا گیا تھا اور اب وہ برس ہا برس سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں تو براہ کرم انہیں کسی انجانے جرم کی سزا نہیں ملنی چاہئے۔ ویسے بھی آپ بجٹ کا بہت بڑا حصہ عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کر رہی ہیں، اس میں سے ان دکھیاروں کی بھی دعائیں لے لیں تو کیا حرج ہے۔ آخر میں پریس کلب کے ایک اہم رکن م۔ ش کی جائز شکایت بھی سن لیں۔
محترم عطاء الحق قاسمی صاحب:وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کم آمدن والے افراد کو چھت فراہم کرنے کیلئے اقدامات کررہی ہیں ہم صحافی کالونی ایف بلاک کے الاٹیز 17سال سے چھت کے منتظر ہیں براہ مہربانی وزیراعلیٰ پنجاب سے ہماری اس اپیل کو اپنے کالم میں جگہ دیدیں کہ صحافی کالونی ایف بلاک میں بجلی کی فراہمی کا منصوبہ جلد مکمل کرکے ڈیمارکیشن کی جائے ہم متاثرین آپ کے مزید ممنون ہونگے ۔
والسلام میم سین بٹ لائف ممبر لاہور پریس کلب
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ