بدھ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے اچانک اٹھ کر ایک مختصر خطاب کیا۔ ان کی تقریر میرے اندازے کے مطابق 8سے 9منٹ تک محدود رہی۔ اس کا ایک ایک لفظ مگرملکی سیاست کے بارے میں مضطرب ہر شخص کے لئے قابل غور ہونا چاہیے۔ اہم ترین پہلو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ بدھ کے روز مولانا کی تقریر دو اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے بعد برسرعام آئی ہے۔
تقریباََ دو ہفتے قبل صدر مملکت وزیر داخلہ کے ہمراہ جمعیت العلمائے اسلام کے رہ نما کے گھر تشریف لے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے مولانا کو ایک بندوق بھی تحفتاََ پیش کی تھی۔ مولانا کے لئے بندوق کا تحفہ میرے لئے حیران کن تھا۔ عملی رپورٹنگ سے ریٹائر ہونے سے قبل مجھے اپنے بہت ہی مہربان اور بڑے بھائیوں جیسے شفیق سینئر افضل خان مرحوم کی بدولت مولانا صاحب کے ساتھ بے تکلف محفلوں میں گفتگو کے بے شمار مواقع نصیب ہوئے۔ ان کے دوران ایک بار بھی انہوں نے کبھی شکار سے دلچسپی کا ذکر نہیں کیا۔ نہ ہی کبھی بندوقیں وغیرہ زیر بحث آئیں۔
آصف علی زرداری سے بھی ایک زمانے میں بے تکلف اور اکثر تنہائی میں ملاقاتیں رہی ہیں۔ وہ بھی بندوقوں کے بجائے ماحولیات، درختوں اور زراعت کے لئے پانی کی فراہمی کے موضوعات میں زیادہ دلچسپی دکھاتے تھے۔ زرداری صاحب کومگر اپنے دوستوں اور دشمنوں کے بارے میں ذاتی معلومات جمع کرنے کی عادت ہے۔ غالباََ انگریزی کے اس محاورے پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں جو دوستوں یا دشمنوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ’’انفارمیشن (معلومات) ‘ ‘ جمع کرنے کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ صدر زرداری نے قائد جمعیت العلمائے اسلام کو بندوق کا تحفہ بغیر کسی اہم وجہ کے نہیں دیا ہوگا۔ کاش میں اس کے بارے میں باخبر ہوتا اور آپ کو بھی آگاہ رکھ سکتا۔
صدر زرداری کی ملاقات کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف بھی مولانا سے ملاقات کو تشریف لے گئے تھے۔ صدر اور وزیر اعظم کی جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ سے یکے بعد دیگرے ملاقاتوں کے بعد صحافیوں کی اکثریت نے اپنے تئیں یہ فیصلہ کرلیا کہ غالباََ مولانا سے درخواست کی جارہی ہے کہ وہ ماضی کے دوستوں سے ناراض ہوکر تحریک انصاف کی سرپرستی سے گریز کریں۔ شہباز حکومت آئین میں ترامیم کے علاوہ دیگر قوانین کو ہوشیاری سے بروئے کار لاتے ہوئے عدالت کے لئے قواعد وضوابط پر مبنی لگام کو زیادہ مضبوط بنانا چاہ رہی ہے۔ مذکورہ تناظر میں مولانا سے تعاون بھی درکار ہوگا۔
بدھ کے روز ہوئی مولانا کی تقریر کومگر میرے وسوسوں بھرے دل نے ایک اور انداز سے دیکھا ہے۔ مجھے شبہ ہوا کہ شہباز حکومت اور اس کے اتحادی یہ محسوس کررہے ہیں کہ اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی وہ کامل اختیارات سے محروم ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو صدر اور وزیر اعظم نے براہ راست نہ سہی مگر دیگر پیغامبروں کے ذریعے اپنی محدودات سے آگاہ کردیا ہے۔ بدھ کے روز ہوئی اپنی تقریر کے دوران مولانا نے ’’امرت دھارا‘‘ اور ’’فیصل آباد کا گھنٹہ گھر‘‘ کی تراکیب غالباََ اسی تناظر میں استعمال کی ہیں۔یہ تراکیب درحقیقت ’’منتخب حکومت ‘‘کی بے اختیاری کا اظہار ہے۔ ’’فیصل آباد کا گھنٹہ گھر‘‘ ہی لیکن مولانا کے ’’ترجیحی سامع‘‘ نہیں تھے۔ ’’فارم 45‘‘ اور ’’فارم47‘‘ کے مابین فرق بھلانے کا مشورہ دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کو بھی ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کا مشورہ دیتے سنائی دئے۔اختر مینگل کے قومی اسمبلی سے دئے استعفیٰ نے اسلام آباد میں جو ہل چل مچارکھی ہے اس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن کی تقریر مگر ریگولر اور سوشل میڈیا پر کماحقہ انداز میں زیر بحث نہ آسکی۔ اسے نظر انداز کرنا مگر میرے لئے ممکن نہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے رہائشی ہوتے ہوئے مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت اور مکتبہ فکر کے مدرسوں کے نیٹ ورک کی بدولت شمالی وزیرستان سے بنوں اور لکی مروت سے لیکر ڈیرہ اسماعیل خان کو بلوچستان کے ڑوپ سے ملانے والے علاقے میں پھیلے سیاسی رحجانات کو حاذق حکیموں کی طرح نبض ٹٹول کر جان لیتے ہیں۔ ان کا یہ اعتراف دل دہلادینے والا ہے کہ مذکورہ علاقوں میں ریاست پاکستان اپنا کنٹرول بہت تیزی سے کھورہی ہے۔مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر ابھرے گروہ (مولانا نے یہ ترکیب استعمال نہیں کی کہ یہ میرے الفاظ ہیں) جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ کے بقول کئی قصبوں اور شہروں میں قائم کمرشل پلازوں سے بھتہ لیتے ہیں۔ سورج ڈھلتے ہی یہ گروہ مرکزی شاہراہوں کے علاوہ قصبات کو ملانے والی سڑکوں پر ’’پٹرولنگ‘‘ شروع کردیتے ہیں۔اپنی تقریر کے دوران مولانا یہ ثابت کرنے کو بضد رہے کہ ان کے بقول خیبرپختون خواہ کے جنوبی علاقوں سے پنجاب کے میانوالی اور بلوچستان کے ڑوب تک پھیلتے علاقوں میں جو ’’بدامنی‘‘ پھیلی ہوئی ہے اس کا ذمہ دار افغانستان کے طالبان کو ٹھہرانا مناسب نہیں۔ وہ مصر رہے کہ افغانستان کی سرحد سے شروع ہوکر پاکستان کی سرحد کے اندر کئی کلومیٹر تک چپے چپے پر دوسو کے قریب چیک پوسٹیں ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ اتنی چیک پوسٹوں کے ہوتے ہوئے بھی ’’دہشت گرد‘‘ وسیع وعریض علاقوں تک کیسے پہنچ جاتے ہیں۔ مختصراََ یوں کہہ لیں کہ مولانا فضل الرحمن خیبرپختونخواہ کے جنوبی علاقوں سے بلوچستان کے ڑوب تک پھیلے علاقوں میں مسلسل بڑھتی ’’بدامنی‘‘ کا ’’مرکز‘‘ اور ’’وجوہات‘‘ پاکستان کی سرحد کے اندر ہی دیکھ رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کی فکر مندی مگر ’’مقامی‘‘ وجوہات تک ہی محدود نہ رہی۔ وہ مصر رہے کہ پاکستان اس وقت ’’پراکسی جنگ‘‘ کا مرکز ہے۔ مبینہ جنگ کا ایک فریق (چین) پاکستان میں ترقی کے مختلف منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنا چاہ رہا ہے۔ موجودہ اور مزید سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کیلئے خیبرپختونخواہ کے جنوبی علاقوں سے بلوچستان کے ڑوب تک پھیلے علاقوں ہی میں نہیں بلکہ بلوچستان کے 990کلومیٹر تک پھیلے ساحلی شہروں مثلاََ گوادر وغیرہ میں بھی دہشت گردی کی پشت پناہی ہورہی ہے۔ مولانا نے دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے فریق کا بھی نام نہیں لیا۔ آپ سب مگر سمجھ دار ہیں۔نام جان چکے ہوں گے۔مولانا کی تقریر کا کلیدی پیغام مگر یہ تھا کہ جو ’’پراکسی جنگ‘‘ ان کی دانست میں اس وقت پاکستان پر مسلط ہے اس سے عسکری ادارے اپنے تئیں نبردآزما نہیں ہوسکتے۔ سیاستدانوں ہی کو اس جنگ کی ’’کمان‘‘ اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگی تانکہ بدامنی کے عالمی پشت پناہ ہمارے عوام کو اپنے ایجنڈے کے حصول کے لئے مہروں کی طرح استعمال نہ کرسکیں۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ