کسی بھی سوچنے سمجھنے والے شخص کی سوچ کبھی یکساں نہیں رہتی، اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں خود میرا بھی یہی عالم ہے۔ میرے گھر میں مذہبی جرائد آتے تھے جو میرے مطالعہ میں رہتے تھے۔ اسی طرح قبلہ والد محترم مولانا بہاء الحق قاسمی ایک جید عالم دین تھے بلکہ ہمارے آٹھ سو سالہ علمی اور دینی خانوادے کی ایک لڑی تھے۔ ان کی لائبریری میں صرف اسلام نہیں بلکہ دیگر مذاہب ہندو، مسیحی، احمدی اکابر کی کتابیں بھی موجود تھیں۔ ان کے علاوہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور غلام احمد پرویز کی کتابوں کے پورے سیٹ بھی ابا جی کی لائبریری کی زینت تھے۔ میں جب موقع ملتا ابا جی کی لائبریری میں چلا جاتا اور مطالعہ میں مشغول ہو جاتا۔ میں نے ان دنوں بائبل بھی پوری پڑھی اور اس کے شاعرانہ اندازِ بیان کا بہت لطف آیا۔ بعض آیات تو باقاعدہ نظمیں لگتی تھیں۔خود ابا جی نے مجھے قرآن مجید کے دو سیپارے ترجمے کے ساتھ پڑھائے ان کا انداز تدریس اس قدر عمدہ تھا کہ آج بھی اگر قرآن مجید کی کوئی آیت میرے سامنے پڑھی جائے تو مجھے پچپن فیصد اس کی سمجھ آ جاتی ہے۔ابا جی انگریزکے دور میں استعما ر کے خلاف جنگ کے دوران جیل کی سزا بھی بھگت چکے تھے اور ہمارے امرتسر والے گھر کے باہر سی آئی ڈی کا ایک اہلکار بھی باقاعدہ ڈیوٹی پر ہوتا تھا۔ مگر وہ ہم سے اتنا مانوس ہوگیا کہ گھر والوں نے اس سے سودا سلف منگوانا شروع کردیا اس بات کا تعلق بھی میرے کالم کے اگلے حصے سے ہے، اس لئے بیان کی۔ اور ہاں ابا جی کی لائبریری میں مختلف مذاہب کے علاوہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کے علماء کی کتابیں موجود تھیں سو اس زمانے میں میں کٹر بنیاد پرست مسلمان تھا مگر ابا جی پیار محبت ڈانٹ ڈپٹ اور بعض اوقات پٹائی کے باوجود مجھے نماز روزے کا پابند نہیں بنا سکے۔
اوپر سے یعنی ’’مور اوور‘‘ وزیر آباد سے ماڈل ٹائون لاہور منتقل ہونے کے بعد میرے جو دوست بنے ان کی اکثریت مذہب کے حوالے سے تشکیک کا شکار تھی اور یوں میں جو عملی مسلمان نہیں تھا، انہوں نے مجھے بھی تشکیک کا شکار کر دیا جو مجھے اچھا نہیں لگتا تھا، چنانچہ میں نے ابا جی سے بات کی کہ مجھے اس الجھن سے نکالیں، انہوں نے ایک بڑے عالم دین کو صورت حال بتائی اور جوصرف عالم نہیں تھے بہت بڑے مناظر باز بھی تھے۔ میں نے انہیں اپنے ایک دوست کے گھر مدعو کیاجہاں یہ سب ’’بے دین‘‘ جمع تھے۔ مولانا نے اپنی گفتگو کے آغاز میں کہاکہ آپ سب نوجوان سمجھیں کہ میں بھی آپ کی طرح داڑھی مونچھ منڈا ہوں اور وہ سب حرکتیں کرتا ہوں جو آپ کرتے ہوں گے۔ بس اب آپ مذہب کے حوالے سے اپنے بدترین سوالات بھی کھل کر کریں اور یہ سمجھیں کہ آپ کے سامنے کوئی مولوی نہیں بلکہ آپ سے بھی بڑا ملحد بیٹھا ہے۔ ان کے بنائے ہوئے اس نفسیاتی ماحول سے میرے دوستوں نے کھل کھلا کر وہ کچھ کہا جو وہ کسی غیر مذہبی شخص کے سامنے بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔ مولانا نے یہ ساری باتیں پورے تحمل سے سنیں اور آخر میں کہا ’’میں آپ سے صرف سات سوال کرتا ہوں آپ اس کے جواب دے دیں‘‘ پھر انہوں نے وہ سات سوال دہرائے اور وہ ایسے تھے جن میں بظاہر ان کے سارے سوالات اور اعتراضات کا جواب موجود تھا۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا آپ کچھ کہنا چاہتے ہوں تو کہیں ، مگر وہ تو سارے مسمرائز ہو چکے تھے۔ انہوں نے مولانا کا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے ہمارے سارے شکوک رفع کردیئے۔ میرے یہ دوست تقریباً ایک ہفتے تک تشکیک کے دائرے سے نکل گئے، مگر یہ مناظرانہ گفتگوعارضی اثر تھا چنانچہ وہ دوبارہ واپس اپنے ماضی کے خیالات کی طرف لوٹ گئے۔
مگر جب میں نے ابا جی کی لائبریری سے باہر کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا تو خود میں تشکیک کا شکار ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ میں نے اپنے ان نئے دوستوں کے ساتھ اپنے شکوک کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا جو واقعی صاحب علم اور جدید ذہن کے مالک تھے تو وہ ان انکشافات کے جواب میں جو سائنس اور فلسفیوں کے ذریعے سامنے آئے، کا جواب ماڈرن طریقے سے مگر مذہب کی بنیاد پر دیتے تھے۔ میں ان سے کہتا تھا برادر یہ ہمیں پہلی دفعہ پتہ چلا کہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں یہ تو ان جہانوں کا ایک مرلہ بھی نہیں ہے جو سائنس دانوں نے دریافت کی ہیں۔یہ لوگ تو بغیر مذہب کی رہنمائی کے یہ بھی جان گئے کہ ماں کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی ہے۔ وہ تو کائنات کی تخلیق کے بارے میں بھی مختلف نظریات پیش کر چکے ہیں اور ابھی تحقیق جاری ہے۔ انہوں نے انسان کی پیدائش کے مراحل بھی بیان کئے، یہ تویہ بھی بتا دیتے ہیں کہ کب بارش ہوگی، زلزلے کے امکانات کہاں کہاں ہیں۔ انہوں نے مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرا دیا، انہوں نے ارب ہا سیاروں میں سے چند ایک تک رسائی حاصل کی اور وہاں خود پہنچ کر چہل قدمی کرتے رہے۔ یہ بے دین لوگ تو اب آپ کے ڈی این اے کے ذریعے بتا دیتے ہیں کہ آپ کے آباء کہاں سے آئے تھے اور یہ کہ آپ سید ہیں یا آرائیں ہیں۔ انہوں نے ثابت کردکھایا کہ زمین ساکت نہیں۔ یہ سب معجزے تو ان معجزوں سے کہیں بڑھ کر ہیں جو واعظ اور ذاکر بیان کرتے ہیں۔ ابھی میں نے جس دوست کا ذکر کیا وہ ان سوالوں کے جواب عقیدے سے دیتا ہے جبکہ ضرورت لاجک سے دینے کی ہوتی ہے۔
سو آخر میں مجھے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ابتدا میں، میں نے انسان میں آنے والی تبدیلیوں کے حوالے سے بات کی اس کی زد میں، میں خود بھی آگیا ہوں مگر اپنے ابا جی کے دو بنیادی رویوں سے زیادہ دور نہیں گیا۔ الحمد للہ مسلمان ہوں بس صاحب علم سے اپنی تشکیک دور کرانے میں لگا رہتا ہوں مگر مبشر علی زیدی ہر دفعہ نئے سوالات اٹھا دیتے ہیں، تاہم میں مسلم برادری کا حصہ ہوں اور رہوں گا۔ ابا جی کی دوسری سنت بیرونی اور اندرونی ظالم حکمرانوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا تھی اور اپنے ابتدائی دور کے علاوہ میں نے ہر آئین توڑنے والے کے خلاف کھل کر اظہار خیال کیا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ ایک دور میں جو ’’جمہوری دور تھا‘‘ مجھے قتل کی دھمکی وقار انبالوی کے ذریعے پہنچائی گئی تھی اور میں نے جواب میں اس کو گندے گندے الفاظ میں جواب دیا تھا کہ جو کرسکتے ہو کرلومگر سترہ دن بعد وہ حکومت ہی ختم ہوگئی۔ میں مسلمان ہوں اور چاہتا ہوں کہ جو لوگ تشکیک کا شکار ہیں ان کا ذہن لاجک سے صاف کریں، عقیدے سے نہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ