برسوں پہلے اقبال نے دو درجوں پر متعین انسانوں کا موازنہ کرتے ہوئے فرد کی بے قدری اور مشکلات کی وجہ حاکم قوتوں کا جبر و استحصال گردانا تھا۔ وقت کیساتھ اہلِ ثروت و اختیار نے عام اور خاص کی تفریق کا مسئلہ ہی ختم کردیا۔ آج لاچار اورمحکوم رعایا کے مقابلے پر مفادات کے مختلف قلعوں میں براجمان چند افراد پر مشتمل گروہ رہ گیا ہے جو بظاہر مخالف سمت میں سرگرداں ہے مگر ایک دوسرے کے تحفظ پر متفق ہے۔
معاشی اور سماجی مساوات پر حاصل کئے گئے ملک میں فرد کی جدوجہد کی کہانی ایسے طویل ترین ٹریک کے گرد گھوم رہی ہے جس میں دائمی منزل کی استراحت کی بجائے سرائے میں وقتی سہولت اور کمک کے بعد لمبی سڑک پر دھکیل دیا جاتا ہے ، اقبال نے امیر اور فقیر کی مستی کا ذکر کیا تھا آج کا امیر مست ضرور ہے مگر بے فکر نہیں اسلئے کہ اسکی دولت کیلئے محبت لامحدود ہے اود وہ کسی بھی صورت قناعت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہر وقت اربوں کو کھربوں کرنے کے چکر میں پریشان اور فکرمند ہے۔ اقبال کے زمانے کا روایتی فقیر بھی ناپید ہو چکا ہے ویسے تو فقیر فقر کرنیوالے کو کہا جاتا تھا لیکن آج کل پسماندگی اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے فقیری کی زد میں سمجھے جاتے ہیں اور انکی تعداد کروڑوں میں ہے،تاہم دوسروں کو قناعت اور فقر پر رضامند کرکے طاقتوروں کے تابع رکھنے والے ضرور مزے میں ہیں پاکیزگی اور دعائوں کے سبب غیبی امداد کے سکے من و سلوی کی طرح برستے رہتے ہیں۔ اقبال کا فرد کوچہ گرد میں اسلئے اَٹا ہوا ہے کہ مخصوص لوگوں کو نوازنے کی رسم عام ہے۔ طاقتوروں کیلئے انصاف اور مراعات کے پیمانے مختلف ہیں، پتہ نہیں یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں سلطنت کا تمام بوجھ جمہور کی لاغر کمر پر لاد کر ٹیکس کا ہرجانہ بھی اسی سے وصول کیا جاتا ہے۔ جمہور کی آزمائشیں ختم ہی نہیں ہوتیں۔ کبھی لاہور میں یہ مہینے مچھلی کھانے کے موسم تصور کیے جاتے تھے مگر اب یہ آلودگی کا زہر پھانکنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں ، اس میں بھی ہرسال ترقی ہو رہی ہے، پہلے یہ آلودگی صرف سانس کے ذریعے انسانوں کے پھیپھڑوں کو سنگسار کرتی تھی اب یہ کنکریاں آنکھوں کے آئینوں پر برسنا بھی شروع ہو گئی ہیں۔اس کے تدارک کیلئے صرف یہی سنتے رہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بہت بڑا بجٹ رکھا گیا ہے ،اس بجٹ کی وجہ سے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں انکے بارے میں کوئی خبر نہیں۔ لاہور میں سڑکوں کے اطراف، خالی زمینوں اور گھروں گلی محلوں میں درخت لگانے کی کوئی مہم چل رہی ہے کبھی نہیں دیکھا، لاہور کے ارد گرد ہاؤسنگ کالونیوں کی روک تھام کا کوئی سرکاری سندیسہ نظر سے نہیں گزرا، باغوں کا شہر دھوئیں کا شہر بن چکا ، مثبت کاوشوں میں ایک ہمسایہ ملک سے ترلہ منت مذاکرات بھی ہونے چاہئیں۔مریم نواز میں کام کرنیکا جذبہ موجود ہے جب بھی کسی چیز کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے وہ متحرک ہوتی ہیں مگر انکے ارد گرد موجود افسران اور مشیران انہیں کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیتے۔15 کروڑ افراد کے صوبے میں سو لوگوں کو موٹر سائیکلیں دینے، 100لوگوں کو سولر پینل دینے سے ایک دن کی خبر بن جاتی ہے ، مسئلے حل نہیں ہوتے نہ مجموعی ترقی ہوتی ہے، جب تک اکثریت کے مفاد کو مدنظر رکھ کر منصوبے نہیں بنائے جائینگے، کارکردگی نظر نہیں آئیگی
اقبال کا فرد ہر صوبے میں زبوں حالی کا شکار ہے ، ایک ان دیکھی آگ معصوم زندگیوں کو بھسم کرتی پھر رہی ہے، جنکے پاس اسے دیکھنے کی صلاحیت ہے انھیں دیگر مشغلے ترک کرکے عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کھیلنے والوں کو روکنے کی سخت تدبیر کرنی چاہئے۔ جب خان صاحب نے عثمان بزدار کو زبردستی وزیراعلیٰ بھرتی کیا تھا تو پنجاب میں یہ رائے پھیلی کہ خان صاحب پنجاب کی ترقی کیخلاف ہیں اب علی امین گنڈا پور کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سب کے بارے میں ایک جیسا سوچتے ہیں اور انہیں جب جب موقع ملے گا وہ دیگر صوبوں میں بھی ایسے ہی تجربے کرینگے۔ عثمان بزدار کے مرشد اور افسران جو فائلیں سامنے رکھتے تھے، چپ چاپ سائن کر دیتے تھے، یوں کچھ نہ کچھ سلسلہ چلتا رہتا تھا یہاں تو صرف بڑھکیں ہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر معاملے کا ایکسرے لوگوں کے سامنے آجاتا ہے۔ خالی تقریروں اور خبروں سے بات نہیں بنے گی ۔اکثریتی افراد کی زندگی کو مدنظر رکھ کر منصوبے بنائیں اور فیصلے کریں ، تاکہ اکثریت کی رائے اور تعاون جمہوری حکومتوں کے استحکام کا باعث بنا رہے۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ