چونک گئے نا آپ عنوان دیکھ کر ۔ ایسے ہی ہم پہ بھی بجلی گری تھی جب اعلان ہوا کہ عورت کا مقام محض پراپرٹی ہونا ہے چاہیے ایک مرد کی ہو یا بہت سوں کی۔ پراپرٹی یعنی ملکیت یعنی بازار سے قابلِ خرید و فروخت کوئی شے یا چیز۔ یعنی بازاری!
سنتے ہی دل پہ ہاتھ پڑا۔ کیا ہم۔ ۔ ۔ اور ہم سی بہت سی اور۔ ۔ ۔ بازار میں بکنے اور خریدی جانے والی جنس ہیں / تھیں / ہوتیں اگر شوہر کا ٹیگ نہ لگا ہوتا۔ یا شوہر کا ٹیگ ہٹ گیا ہوتا یا شوہر داغ مفارقت دے جاتے یا دے جائیں؟
کیا جنسی بھوک اتنی شدید ہوتی کہ بازار میں بکنے کے لئے جا بیٹھتے؟
کون مٹاتا یہ بھوک؟ گاہک۔ مرد گاہک نا۔ اور ان مردوں کو مول تول میں مدد دینے والا دلال۔ وہ بھی مرد نا۔
کیا ان گاہکوں اور دلالوں کے خود اپنے بھی گھر ہوتے؟ یقیناً ہوتے اور ان میں موجود پرائیویٹ پراپرٹی۔ یعنی بیوی بھی ہوتی۔ سو وہ اس کی بھوک پیاس کے بھی ذمہ دار اور ان کی طلب کے بھی جو دوسری تیسری بن کر گھر میں تو نہ اترتیں مگر پبلک پراپرٹی بن کے ان سب کو مشکل میں ڈال دیتیں۔ کیسے کرتے انکار؟ کیسے جھٹکتے ان کے پھیلے ہوئے ہاتھ اور کیسے منہ موڑتے ان کی طلب سے؟
ہائے بے چارے۔ کتنی مشقت کرنی پڑتی ہو گی نا انہیں ان سب منحوس عورتوں کے لیے۔ بھاری ذمہ داری سر پہ آن پڑتی چاہے عورت پرائیویٹ رہے یا پبلک۔
ہمیں ابّا یاد آئے۔ اور ساتھ میں بھائی، شوہر، بیٹا، کزنز اور بہت سے اور جن سے ہمارا تعلق ہے۔ ہمیں ان پہ ترس آیا۔ مرد ہونے کی اتنی سخت قیمت کہ ہمہ وقت اسی مشقت کی ذمہ داری۔ چاہے جسم و جان ساتھ دے یا نہ دے۔
صاف پوچھیے تو ان کی اس بے بسی اور اس حیثیت نے ہمیں اداس کر دیا جہاں وہ عورت کے سر پہ لٹکتی ہوئی تلوار بنا دیے گئے۔
ہمیں لگا کہ یہاں عورت سے زیادہ تو مرد کو ایک نچلے درجے کی مخلوق سمجھا گیا ہے جسے عورتوں کو ایک ہی نظر سے دیکھنا سکھایا گیا ہے، ایک ہی طریقے سے برتنا سمجھایا گیا ہے اور ان کی ناں، نفی اور انکار کی کوئی اہمیت ہی نہیں جانی گئی۔ بس وہ مرد ہیں اور عورت ان کے لئے استعمال کی ایک چیز۔
ہائے بے چارہ مرد! کولہو کا بار بردار جانور۔
شادی کر کے ایک دو تین گرہستیاں چلائے گا۔ ساتھ میں ان عورتوں کا گاہک بھی بنے گا جو دوسری بیوی نہیں بننا چاہتیں۔ صرف ایک اس گاجر کے پیچھے جو اسے مرد اور گھوڑا بوڑھا نہیں ہوتا کا لالچ دیتی ہے۔ ہمارے خیال میں تو مرد کو مرد ہونے کا تاوان بھرنا پڑتا ہے۔
کچھ مردوں کو اس لین دین کے کاروبار کو چلانے کے لئے دلالی بھی کرنی پڑے گی۔ ان کی جو دوسری بیوی بننے کے لئے آمادہ نہیں۔ مصیبت ڈال دی نا بازاری عورتوں نے بے چارے مرد کے کاندھے پر ؟ گھر والیاں بن جاتیں تو ٹنٹا ہی ختم۔
کم بخت، ناس پیٹیاں، بے حیا۔ کیوں نہیں ہوتیں داخل حرم؟ بیوگی کے بعد ، طلاق کے بعد یا گھر میں کنواری بیٹھی رہ جانے کے بعد بازار کے مرد ڈھونڈنے سے کہیں بہتر ہے کہ کسی ایک سے نکاح پڑھوا لیں چاہے دل چاہے یا نہ چاہے۔
دل کیوں نہ چاہے بھئی۔ دل تو ہمکنا چاہیے ہر وقت۔ آخر بنیادی ضرورت ہے بھئی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کی خواہش رکھنے والا مرد۔ اگر قابل ہی نہ ہو۔ ”گاڑی چلتی نہیں گر جاتا ہے پہلے سگنل“ (سلیم احمد) کی عملی تصویر۔
یہ کیسے کہا ہم نے؟ ہم نہیں میڈیکل سائنس نے۔
جناب میڈیکل سائنس کے مطابق فی زمانہ چالیس فیصد مرد حضرات کسی نہ کسی طور کی جنسی کمزوری کے شکار ہیں۔
اسباب میں شامل ہیں۔
اس کا ثبوت ڈاکٹرز کے کلینک میں آنے والے افراد تو ہیں ہی مگر از قسمِ ویاگرا تو ہیں ہی عطائیوں کی سلاجیت، سانڈے کا تیل اور بے شمار ایسی دو اؤں اور نام نہاد حکیموں کے ان اشتہارات کی عبارتوں کو نہ بھولیے جن سے ہر شہر اور شاہراہوں کے ساتھ چلتی دیواریں شجر ہائے سایہ دار کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتیں اور مرد ذات کے مسائل کی نوعیت و تناسب بھی بتاتی ہیں۔
نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ جس ڈر سے عورت کو ملکیت قرار دیا گیا تھا وہ گھریلو پراپرٹی یا پبلک پراپرٹی بننے کے بعد بھی ویسی کی ویسی۔ اور ستم ظریفی دیکھئے کہ زبان کھولنے پہ بھی پابندی۔ بے حیا تجھے آگ لگی ہوئی ہے کیا؟
اب اس مسئلے کو ایک اور نظر سے دیکھیے۔ اگر ہر سو میں سے چالیس مرد ان مسائل کا شکار ہیں سو باقی رہ گئے ساٹھ۔ وہ ساٹھ تو مارے گئے نا۔ ایک طرف ناآسودہ عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور دوسری طرف نکمے چالیس فیصدی بھائی بند گُھن لگے اعضا کے ساتھ!
آخری بات۔ جس طرح چالیس فیصد مرد کمزوری کا شکار ہیں اسی طرح بے شمار عورتیں ایسی بھی ہیں جو جنسی تعلق کو اہم نہ جانتے ہوئے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ جنسی تعلق ایک بنیادی جبلت تو ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر انسان اس کے سامنے بے بس کھڑا ہو۔
مگر دوسری طرف والوں کا اصرار یہ ہے کہ کوئی ایک بھی پراپرٹی بننے سے انکاری کیوں ہو؟ نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔
سو بھائی لوگو۔ ہماری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں۔ ایک فیمنسٹ کی دلی ہمدردیاں۔ دیکھیے اب کوئی ہمیں مرد دشمن نہ کہے!
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ