ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہونے کے باوجود میں سادہ لوح اس گماں میں مبتلا ہوگیا تھا کہ آئین میں 26ویں ترمیم متعارف کروالینے کے بعد حکومتی اتحاد کو وقتی سکون نصیب ہوجائے گا۔ اس کے دوران حکومت ملکی معیشت پر کامل توجہ مبذول رکھتے ہوئے سیاسی استحکام کا حصول بھی ممکن بناسکتی ہے۔
میری خوش گمانی کا اہم سبب عزت مآب یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس تعیناتی بھی تھی۔ میں ان سے آج تک کسی سماجی تقریب میں رسمی سلام دْعا کے لئے بھی نہیں ملا۔ ان کے چند دیرینہ شناسائوں سے گپ شپ رہتی ہے۔ ان کی بدولت علم ہوا کہ موصوف انتہائی پرانی وضع کے جج ہیں۔ نمودونمائش کے شوقین نہیں۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ روایتی اور سوشل میڈیا سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان کی تعیناتی عدالتوں کو افتخار چوہدری، ثاقب نثار اورکھوسہ جیسے دونمبری مسیحائوں سے محفوظ رکھے گی اور وہ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے اتبا ع سے بھی گریز کریں گے۔
اتوار کی شام مگر دو دنوں کے وقفے کے بعد میں نے لیپ ٹاپ کھولا۔ ٹویٹر جسے اب ایکس کہاجاتا ہے بطور صحافی میرا پسندیدہ پلیٹ فارم ہے۔ عالمی سطح کی چند اہم خبروں کی بابت تازہ ترین جاننے کیلئے میں اس سے رجوع کرنے کو مجبورہوں۔ حکومت پاکستان مگر اس پلیٹ فارم سے ناراض ہے۔ بسااوقات میرے ٹیلی فون اور لیپ ٹاپ پر یہ کئی گھنٹوں تک میسر نہیں ہوتا۔ جبکہ میں نے اس تک رسائی یقینی بنانے کے لئے سالانہ فیس بھی ادا کررکھی ہے۔ ٹویٹر(ایکس) سے محرومی کی وجہ سے مجھ پر نازل ہوئی اداسی کو دیکھتے ہوئے کئی دوست مشورہ دے رہے ہیں کہ میں وی پی این استعمال کرنا شروع کردوں۔ میں اس کا استعمال مگر غیر قانونی تصور کرتا ہوں اور خواہ مخواہ کے پنگے لینے کا حوصلہ دل میں موجود نہیں رہا۔
بہرحال اتوار کی شام لیپ ٹاپ کھول کر یوٹیوب پر گیا تو وہاں ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ تحریک انصاف کے دوستوں کو کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ صحافی جو عمران خان صاحب کے دور اقتدار میں ریاستی اور حکومتی غضب کا نشانہ رہے برملا الفاظ میں انتظار حسین پنجوتھا صاحب کی کئی دنوں تک گمشدگی کے بعد ’’بازیابی‘‘ پر سوالات اٹھارہے تھے۔ وہ سب مصر تھے کہ عمران خان صاحب سے بطور وکیل اڈیالہ جیل میں مستقل ملاقاتیں کرنے والے پنجوتھا صاحب کو ’’ان ہی ‘‘ لوگوں نے اغواء کیا ہوگا جن کے بارے میں ’’سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں۔‘‘ پولیس کی بتائی اس کہانی کو یوٹیوب پر چھائے صحافیوں نے با ہمی اختلافات بھلاکر ٹھوس دلائل سے جھٹلانے کی کوشش کی کہ پنجوتھا صاحب کو (اب تک) نامعلوم افراد نے تاوان کی خاطر اسلام آباد کی ایک معروف ترین شاہراہ سے اغواء کرلیا تھا۔ نظر بظاہر اغواء کے بعد وہ کئی دنوں تک خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں رکھے گئے تھے۔ وہاں سے واپس پنجاب کے کسی مقام پر لائے جارہے تھے تو اٹک کے قریب لگے ایک پولیس ناکے کی بدولت ’’بازیاب‘‘ ہوگئے۔ انہیں ’’اغواء ‘‘ کرنے والے مگر گرفتار نہیں ہوپائے ہیں۔
عمران حکومت کے دوران کئی مشکلات کا شکار رہے صحافیوں کی جانب سے پنجوتھا صاحب کی ’’گمشدگی‘‘ کی بابت اٹھائے سوالات نے مجھے امید دلائی کہ ہماری صحافت ابھی تک اندھی نفرت وعقیدت کے ہاتھوں کاملاََ تباہ نہیں ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے حامی ماضی میں اپنے ناپسندیدہ صحافیوں کے ساتھ ہوئے ایسے واقعات کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اس حوالے سے اکثر ’’لڑکی کے بھائیوں‘‘ کا ذکر بھی چلا۔ پنجوتھا صاحب کے بارے میں البتہ ایسے بیہودہ سوالات ہرگز نہیں اٹھائے گئے۔ ہر ایک نے دیانتداری سے مکمل تحقیقات کا تقاضہ کیا۔
اسلام آباد کا 1975ء سے رہائشی ہوتے ہوئے میں ایک لمحے کو یہ بات ماننے کو آمادہ ہوا کہ پنجوتھا صاحب کو واقعتا ’’تاوان” کی خاطر اغواء کرلیا گیا تھا۔اسلام آباد کو کئی سال قبل سی سی ٹی وی لگانے کے بعد ’’سیف سٹی‘‘ بنادینے کی بڑھک لگائی گئی تھی۔ اس کے باوجود پنجوتھا صاحب کا اس سڑک سے ’’اغواء ‘‘ ہونا دل دہلادیتا ہے جہاں اسلام آباد کلب واقعہ ہے۔ اس کلب سے آگے بڑھیں تو ایک اہم ترین ہوٹل کے بعد سفارتخانوں کے لئے مختص علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس جانب نہ مڑیں تو وزارت خارجہ سے گزرکر آپ سپریم کورٹ، وزیر اعظم ہائوس، پارلیمان اور ایوانِ صدر کی عمارتوں سے گزرتے ہیں۔ اسلام آباد کلب سے گزرکر بائیں ہاتھ مڑیں تو اسلام آباد کو دیگر شہروں سے ملانے والے راستے شروع ہوجاتے ہیں۔ایسی شاہراہوں پر سی سی ٹی وی کیمروں کی عدم موجودگی یا عدم کارکردگی کے خیال نے مجھے خوفزدہ بنادیا ہے۔
فرض کیا پنجوتھا صاحب واقعتا اغواء ہوئے تھے تو ان کی کہانی سن کر کون غیر ملکی اسلام آباد آکر یہاں کی مختلف وزارتوں میں بیٹھے لوگوں سے ملاقاتوں کے بعد وطن عزیز میں سرمایہ کاری کا خواہش مند ہوگا۔ اس پہلو پر مگر میرے ساتھیوں نے توجہ نہیں دی۔ ’’سب سمجھتے ہیں-سب چپ ہیں‘‘ والی سوچ ہی اپنائے رکھی۔
پنجوتھا صاحب سے متعلق داستان نے میرے پنجابی محاورے والے ’’پسینے چھڑادئے‘‘ تو چند یوٹیوب چینلوں کی بدولت دریافت یہ بھی ہونا شروع ہوا کہ جیسے حکومت عزت مآب یحییٰ آفریدی صاحب کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کے بعد ’’پچھتا‘‘ رہی ہے۔ یہ سچ ثابت کرنے کے لئے جو دلائل ایجاد ہوئے انہوں نے مجھے حیران کردیا۔ بات کا یقینا بتنگڑ بنایا جارہا تھا۔ مثال کے طورپر خدیجہ شاہ کی ایک کمیٹی میں تعیناتی جو جیل کے نظام میں اصلاحات کی خاطر بنائی گئی ہے۔ خدیجہ شاہ ایک سابق آرمی چیف کی نواسی ہیں۔ ان پر نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ اس کی وجہ سے کئی مہینوں تک جیل میں رہی ہیں۔ ایک پڑھے لکھے اور خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے کی بنا پر وہ جیل میں گزارے دنوں کی وجہ سے کئی ایسی تجاویز دے سکتی ہیں جو جیل کے ماحول کو انسانی اعتبار سے قابل برداشت بناسکتا ہے۔ خاص طورپر خواتین کے لئے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ جیل اصلاحات کی خاطر ان سے رجوع کی خواہش پر اتنا واویلا کیوں مچایا جارہا ہے۔
(بشکریہ:نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ