سپریم کورٹ آف پاکستان اور نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے ترجمان کی طرف سے سامنے آنے والے دو بیانات میں ملکی اور عالمی سیاسی امور پر اظہار رائے کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ بیانات ایسے اداروں کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں جنہیں ملکی سیاسی پالیسیوں کے بارے میں فیصلے کرنے یا رائے دینے کا کوئی آئینی اختیار نہیں ہے۔ یہ بیان ملک کے جمہوری نظام کو کمزور کرتے ہیں اور اداروں کی ’سرکشی‘ کی علامت کہے جاسکتے ہیں۔
ایک بیان چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر رجسٹرار نے برطانوی ہائی کمشنر کے نام لکھے گئے خط میں سامنے آیا ہے ۔ یہ خط اس ماہ کے شروع میں بھیجا گیا تھا۔ خط میں سپریم کورٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اپنے حصے کا کام کیا ہے اب برطانیہ کو بھی ماضی کی بھیانک غیر جمہوری غلطیوں کا اعتراف کرکے ایسے ہی رویہ کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ دوسرا بیان یوم تکبیر کے حوالے سے منعقد ہونے والے ایک سمینار میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی کی تقریر کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس تقریر میں جنرل قدوائی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان پہلے ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کرنےکے اصول کو نہیں مانتا۔ گویا اس بیان میں بھارت کو متنبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کسی تنازعہ کی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل سے گریز نہیں کرے گا۔
نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی کے مطابق ’پاکستان کی جوہری صلاحیت اس کے لیڈروں کو وقار اور جرات کے ساتھ بھارتی لیڈروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے‘۔ پاکستان کی جوہری حکمت عملی نے بھارت کے جارحانہ عزائم کو محدود رکھا ہے۔ یوں پاکستان کا ایٹمی پروگرام امن کا مقصد حاصل کررہا ہے۔ انہوں نے پاکستانی جوہری ہتھیاروں کو بدستور ڈیٹرنس قرار دیا تاہم کہا کہ بھارتی قیادت کے عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے ہتھیار نہ چلانے کی پالیسی سے گریز اختیار کرنا ضروری ہے۔
یوں تو نیشنل کمانڈ اتھارٹی وفاقی حکومت کی ایجنسی ہے جو قومی سلامتی کے لیے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں فیصلے کرتی ہے۔ ایجنسی کے چئیرمین وزیر اعظم ہیں اور اس میں وزیر اعظم کے علاوہ خارجہ، دفاع، داخلہ، خزانہ اور دفاعی پیداور کے وزرا بطور رکن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چئیرمین چیفس آف اسٹاف، تینوں افواج کے سربراہان کے علاوہ اسٹریٹیجک پلان ڈویژن اورآئی ایس آئی کے ڈائیریکٹر جنرل بھی ارکان ہیں۔ ایجنسی میں اتفاق رائے سے فیصلے ہوتے ہیں لیکن اختلاف کی صورت میں ہررکن کا ایک ووٹ ہے اور فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ ملکی ایٹمی اثاثوں کے بارے میں فیصلے کرنے والی اس ایجنسی میں سول حکومت کے پانچ اور مسلح افواج کے چھے نمائیندے شامل ہیں۔ وزیر اعظم کو کثرت رائے سے ہونے والے فیصلے مسترد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ گویا اگر کسی نازک موڑ پر ایجنسی میں ووٹنگ کی نوبت آ بھی جائے اور سول حکومت کے سب نمائیندے کسی ایک نکتہ پر متفق ہوبھی جائیں تو بھی وہ عسکری نمائیندگی کی اکثریت کے سامنے بےاثر ہوں گے۔ دوسری طرف اس بات کا امکان کم ہے کہ ملک میں سیاسی و حکومتی فیصلہ سازی کے موجودہ ماحول میں سول حکومت کے نمائیندے فوجی قیادت کے ساتھ اختلاف کا حوصلہ کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی سول حکومت کے سربراہ اور پارلیمنٹ کے قائد ایوان کو حتمی رائے دینے کےاختیار سے محروم رکھا گیا ہے۔ ملک کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں فیصلہ سازی کا یہ میکنزم عوامی خواہشات کے مطابق طے نہیں پاتا کیوں کہ منتخب زیر اعظم کو کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
اس ایجنسی کے مشیر نے اب جوہری ہتھیاروں کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے اور پہل نہ کرنے کے عالمی طور سے متفقہ اصول کو مسترد کیا ہے۔ پاکستان نے اس سے پہلے کبھی پہلے ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کرنے کے اصول سے وابستگی کا اعلان نہیں کیا تھا بلکہ اس معاملہ میں ابہام سے کام لیا جاتا تھا۔ تاہم ایجنسی کے مشیر جو کہ ریٹائرڈ جنرل بھی ہیں ، نے اب دوٹوک الفاظ میں یہ ابہام ختم کیا ہے۔ عالمی سطح پر ملکی ایٹمی حکمت عملی کے بارے میں یہ پیغام ملک کی عسکری قیادت کی طرف سے دیاگیا ہے حالانکہ ملک میں نام نہاد جمہوری حکومت ہے۔ بہتر ہوتا کہ اگر ایسے کسی اصولی فیصلے کا اعلان وزیر اعظم پارلیمنٹ کے سامنے کرتے تاکہ دنیا کے سب ممالک کو یہ باور کروایا جاسکتا کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا اختیار سول حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ اس حساس پہلو کو نظر انداز کرکے درحقیقت ملکی معاملات پر عسکری لیڈروں کی گرفت کا مظاہرہ سامنے آیا ہے جو ملک کی سفارتی شہرت کے حوالے سے نقصان دہ ثابت ہوگا۔
پہلے ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کرنے کے اصول سے انحراف کا اعلان کرتے ہوئے یہ عذر پیش کیا گیا ہے کہ بھارت اس حکمت عملی کے اعلان میں غیر علانیہ طور پر تبدیلی کررہا ہے اور بھارتی لیڈروں کے پاکستان دشمن بیانات سے بے یقینی پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان پہلے ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کرنے کا وعدہ نہیں کرسکتا۔ حالانکہ عملی طور سے اس فیصلہ کے صرف دو پہلو ہیں:
ایک: بھارت کو یہ پیغام دیا جائے کہ وہ روائیتی عسکری صلاحیت میں پاکستان پر بالادستی کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارادہ نہ کرے کیوں کہ پاکستان جواب میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔ دیکھا جائے تو عملی طور سے یہ اعلان پاکستان کا یہ اعتراف ہے کہ وہ روائیتی طریق جنگ میں بھارتی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے یہ خطرناک اشارہ ہے۔
دوئم: ایسے اعلان سے پاکستانی عوام کو جذباتی کیفیت میں مبتلا رکھا جائے تاکہ وہ اس زعم میں مبتلا رہیں کہ ان کی بہادر افواج موقع ملنے پر بھارت کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گی ۔
یہ سوچ سطحی، خطرناک اور جنگ جویانہ ہے۔ ایسا عزم کرتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ خدانخواستہ ایٹمی ہتھیار استعما ل ہونے کی صورت میں پاکستان بھی اس کی تابکاری سے محفوظ نہیں رہے گا۔ پوری دنیا کسی وجہ سے ہی پاک بھارت تنازعہ کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ کیوں کہ کسی بھی علاقے میں ایٹمی جنگ پوری دنیا کے لیے تباہی کا پیغام ہے۔ کسی بھی ملک کی طرف سے ایسے اعلان کو مسترد کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کو بھی ایٹمی ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کی حکمت عملی کے ساتھ وابستگی کا اعلان کرنا چاہئے۔ اس سے انکار ہمارے مسلمہ قومی مفادات و سلامتی کے خلاف ہے۔
ایک مشکل وقت میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں ’غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز‘ بیان درست پالیسی نہیں ہوسکتی۔ ایٹمی ہتھیاروں کی پالیسی کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا غلط و خطرناک ہے۔ بھارت کا ایسا رویہ بھی قابل مذمت ہے اور پاکستان کو بھی ایسی پالیسی سے گریز کرنا چاہئے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی طرف سے ایک غیر ملکی سفیر کے نام خط میں ملکی عدالتی معاملات، سیاسی جمہوری اصولوں اور عالمی سفارتی معاملات کے بارے میں تنبیہ پر مشتمل بیان کسی بھی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے رجسٹرار کے ذریعے برطانوی ہائی کمشنر کو خط لکھ کر اپنی آئینی حدود سے تجازو کیا ہے۔ اس طرح خود ہی عدالتی خود مختاری کے لیے خطرہ بنے ہیں۔ کسی ادارے کی حدود کا اسی وقت احترام ممکن ہوتا ہے جب وہ خود اپنی متعین آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت چیف جسٹس کے فیصلہ سازی کے اختیارات محدود ہوچکے ہیں۔ اب بنچ سازی اور سوموٹو کا اختیار ججوں کی سہ رکنی کمیٹی کرتی ہے۔ ایسے میں کیا چیف جسٹس کسی بیرونی ملک کے سفارت خانے کو محض اپنی صوابدید سے خط لکھنے کے مجاز ہوسکتے ہیں؟
رجسٹرار سپریم کورٹ کے خط میں 27 اپریل کو عاصمہ جہانگیر سیمنار میں برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میریٹ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ برطانیہ کو بھی اپنی تاریخی غلطیوں کا اقرار کرنا چاہئے جو کسی بھی طرح جمہوری نہیں تھیں۔ برطانوی ہائی کمشنر نے عاصمہ جہانگیر سیمنار میں تقریر کرتے ہوئے جمہوریت، انتخابات اور کھلے معاشرے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی انتخابات میں ایک پارٹی کا انتخابی نشان واپس لے کر اسے مساوی موقع دینے سے انکار کیا گیا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کے جواب میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے تو اپنے حصے کا کام کیا ہے لیکن امید ہے برطانوی حکومت بھی ایسےہی اقدامات کرے گی تاکہ جمہوری اقدار کا اصول سربلند ہوسکے۔
سپریم کورٹ کے خط میں اس حوالے سے دو تاریخی واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک 1953 میں ایران کے محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے کا معاملہ تھا تاکہ ایرانی تیل تک رسائی ممکن ہوجاتی۔ اور دوسرا معاہدہ بافور کا معاملہ ہے جس کے تحت برطانیہ نے یک طرفہ طور سے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اقدام کیا۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ علاقے کے لوگوں نے اپنے ووٹوں سے اس سلسلہ میں رائے کا اظہار نہیں کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان اختلاف کی وجہ سے ملک میں 90 دن کی آئینی مدت میں انتخابات نہیں ہوسکے تھے ۔تاہم سپریم کورٹ کی مداخلت سے یہ معاملہ 12 دن میں حل کرلیا گیا اور 8 فروری کو انتخابات منعقد ہوگئے۔ سپریم کورٹ نے معلومات تک رسائی کے لیے اپنی حکمت عملی کا حوالہ دیا اور کہا کہ موجودہ چیف جسٹس نے عوامی اہمیت کے مقدمات کی سماعت براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ اسی نقطہ نظر سے کیا ہے۔ خط میں دعوت دی گئی ہے کہ’ آئیں سچ تسلیم کریں تاکہ ہم آزاد ہوسکیں‘۔
اس خط کے دو پہلو قابل غور ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان میں انصاف فراہم کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ایک غیر ملکی سفارت خانے کو خط لکھ کر یہ دلیل دے رہا ہے کہ اس نے درست فیصلہ کیا تھا گویا بالواسطہ طور سے یہ مانا جارہا ہے کہ ملکی سپریم کورٹ کی اتھارٹی بیرونی طاقتوں کی جمہوریت پسندی کی وجہ سے قائم رکھی جاسکتی ہے۔ خط کے متن سے یہ تاثر ملنا افسوسناک ہے کہ عدالت عظمی ایک غیر ملکی سفیر کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
اس حوالے سے دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ یا کوئی بھی عدالت کس حیثیت یا قانونی جواز کے تحت کسی دوسرے ملک کے سفارت کار کے ساتھ مواصلت کرسکتی ہے؟ اگر سپریم کورٹ کے فاضل چیف جسٹس کو برطانوی سفیر کے کسی بیان پر اعتراض تھا اور اسے عدالتی خود مختاری میں مداخلت تصور کیا گیا تو بھی انہیں وزارت خارجہ کے ذریعے اس ناراضی یا مایوسی کو دوسری حکومت تک پہنچانا چاہئے تھا۔ رجسٹرار نے براہ راست سفیر کو خط لکھ کر سپریم کورٹ کی پوزیشن کمزور کی ہے ۔ اس خط سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک میں کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے اور جس کا جو دل چاہے وہ کر گزرتا ہے۔ حساس اور اصولی عالمی سفارتی معاملات پر رائے دینا ایک سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے۔ کسی بھی ملک کی عدالت کو ایسے معاملات پر رائے زنی کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ اس طرح بین الملکی تعلقات کو نقصان پہنچانے کا احتمال ہوتا ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ ان دونوں بیانات سے ادارہ جاتی خودمختاری آئینی حدود و قیود کو توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ کسی صورت خود مختاری نہیں ہے۔ اس لحاظ سے یہ بیان ملک میں آئینی بالادستی اور عوامی حکمرانی کے اصول کو پامال کرتے ہیں۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ