عمران خان کی اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ اسٹبلشمنٹ ملکی سیاست سے پیچھے ہٹ جائے اور شفاف انتخابات کروائے جائیں۔ بانی تحریک انصاف کے اس مؤقف سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کسی بھی ملک میں صرف وہی حکومت جراتمندانہ فیصلے کرسکتی ہے جسے عوام کی حمایت حاصل ہو۔ لیکن پاکستان میں انتخابات اور مسلط شدہ حکومتوں کے تجربات کرنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شفاف انتخابات کیوں کر منعقد ہوسکتے ہیں؟
موجود ہ صورت حال میں عمران خان اور تحریک انصاف جن شفاف انتخابات کی بات کرتی ہے، ان کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو ملک مرکز اور ملک کے تمام صوبوں یا کم از کم پنجاب میں حکومت حاصل ہوگی۔ جبکہ 8 فروری کے جن انتخابات کو عمران خان اور ان کے ساتھی تاریخ کے سب سے زیادہ دھاندلی زدہ انتخاب کہتے ہیں، شہباز شریف اور حکومت کی حمایت کرنے والی دیگر پارٹیوں کے نزدیک وہ شفاف تھے اور جائز طریقے سے ایک قانونی حکومت ملک میں قائم ہوچکی ہے۔ ایک ہی صورت حال کے بارے میں متضاد مؤقف کی اس صورت حال میں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پھر ایسے غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کیسے ممکن بنایا جائے جن کے نتائج پر سب مطمئن و شاداں ہوں۔
یہاں اس حقیقت سے درگزر نہیں کیا جاسکتا کہ انتخابات کی شفافیت کا تعلق صرف اس بات سے نہیں ہوتا کہ جس پارٹی کے بارے میں یہ عمومی تاثر بنا لیا جائے کہ وہ انتخابات میں کامیاب ہوگی تو اسی کی کامیابی کی صورت میں انتخابات کو غیر جانبدارانہ کہا جاسکتا ہے۔ اس کا تعلق لیڈروں اور سیاسی پارٹیوں کے رویہ اور مزاج سے بھی ہوتا ہے۔ متعدد دوسرے ممالک کے برعکس پاکستان میں انتخابات کی حرمت اور نتیجہ کو تسلیم کرنے کا مزاج عام نہیں ہوسکا۔ یہ طے کرلیا گیا ہے کہ انتخابی نتائج اگر کسی ایک پارٹی یا گروہ کی کامیابی کا سبب نہ بنیں، تو وہ ناقص اور دھاندلی زدہ ہیں۔ عام طور سے اس مؤقف کے لیے کسی دلیل یا شواہد فراہم کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی اور پروپیگنڈے، نعرے بازی، تنقید اور سیاسی ہنگامہ آرائی سے خود کو درست اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
اس حوالے سے اس سال فروری میں منعقد ہونے والے انتخابات کو خصوصیت حاصل نہیں ہے۔ 2014 کے انتخابات کے خلاف بھی عمران خان نے ایسی ہی مہم چلائی تھی اور اسٹبلشمنٹ کی مدد سے اسلام آباد میں اپنا مشہور زمانہ دھرنا بھی دیا تھا ، پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ۔ تاہم اس وقت چونکہ عمران خان یا ان کی پشت پناہی کرنے والے اسٹبلشمنٹ کے عناصر ابھی ’آخرچوٹ‘ لگانے کے لیے تیار نہیں تھے،اس لیے پشاور آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملہ کو عذر بنا کر اسلام آباد کا دھرنا ختم کردیا گیا حالانکہ اس وقت بھی عمران خان نے تاحیات دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا خواہ وہ احتجاج کرنے کے لیے اکیلے ہی رہ جائیں۔ البتہ نواز شریف کی حکومت کو بے اعتبار کرنے کا موقع پانامہ پیپرز نے عطاکردیا اور سپریم کورٹ نے ایک مشکوک اور مضحکہ خیز فیصلہ میں نواز شریف کو نااہل قرار دے کر عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد نواز شریف بھی ’مجھے کیوں نکالا‘ کا نعرہ لگاتے رہے تھے۔ لیکن عمران خان اور ان کی پارٹی کو جمہوریت، انصاف یا اصول یاد نہیں تھے کیوں کہ وہ نواز شریف کو کمزور کرکے کسی بھی طرح اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔
2018 کے انتخابات کے نتیجہ میں تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری البتہ متعدد چھوٹی بڑی پارٹیوں کی مدد سے عمران خان کو اکثریت دلوا دی گئی اور وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ وہ ساڑھے تین سال تک اقتدار میں رہے لیکن اپوزیشن انہیں مسلسل ’نامزد وزیر اعظم ‘ کہتی رہی لیکن عمران خان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہؤا۔ انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کے سوال پر کوئی تحقیقات کروانا ضروری نہیں سمجھا اور نہ ہی اپوزیشن کے کسی مطالبے کو شرف قبولیت بخشا بلکہ ملک کے پارلیمانی نظام میں عمران خان شاید واحد اکثریتی لیڈر ہوں گے جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ تک ملانا گوارا نہیں کیا اور نہ ہی اپوزیشن کی سیاسی و انتخابی حیثیت کو قبول کیا۔ بلکہ چن چن کر ہر سیاسی مخالف کو جیلوں میں بند کیا گیا اور ان کے خلاف مضحکہ خیز مقدمے بنائے گئے۔ یہی نہیں بلکہ 2018 کے انتخابات سے پہلے جب ’خلائی مخلوق سے لے کر محکمہ زراعت‘ تک سیاسی لیڈروں کو ہراساں کرنے اور انہیں جہانگیر ترین کے جہاز میں بیٹھ کر بنی گالہ یاترا پر جانے پر مجبور کررہے تھے، تب بھی عمران خان کو اس طریقے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوئی اور نہ ہی انہیں جمہوری عمل میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت ناگوار گزری۔
البتہ جب مسلسل ناکامیوں ، غلط معاشی فیصلوں، انتظامی بے قاعدگیوں، سفارتی حماقتوں کے نتیجہ میں ملک معاشی طور سے قلاش اور سفارتی طور سے دنیا بھر میں تنہائی کا شکار ہونے لگا تو جس اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کو’سوہنا ہونہار منڈا‘ سمجھ کر اقتدار تک پہنچایا تھا، وہی اس کے خلاف میدان ہموار کرنے میں سرگرم ہوگئی۔
مقبولیت کے شدید گمان میں مبتلا عمران خان نے کبھی اس پہلو پر غور نہیں کیا ہوگا کہ اگر اپریل 2022 میں انہیں عدم اعتماد کے ذریعے علیحدہ نہ کیا جاتا اور مزید ڈیڑھ سال انتظار کرکے انہیں عام انتخابات میں جانے کا موقع ملتا تو شاید وہ ملک کا دس فیصد ووٹ لینے میں بھی کامیاب نہ ہوتے۔ اس کے باوجود انہوں نے غیر ملکی سازش، لندن پلان اور فوجی قیادت کی بدنیتی کو الزام دیتے ہوئے ملک میں ایک ہنگامہ خیز سیاسی تلاطم برپاکیا۔ عوام کو جھوٹے پروپگنڈے اور سیاسی مخالفین کی کردار کشی کے ذریعے گمراہ کیا گیا۔ اسی پرجوش مہم جوئی میں عمران خان اور تحریک انصاف سے 9مئی والی غلطی ہوگئی جس نے اسے براہ راست عسکری قیادت کے مد مقابل لاکھڑا کیا اور عمران خان کی سیاست کے دروزے بند کرنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی۔ اس سیاسی غلطی کا اعتراف کرکے ڈیمیج کنٹرول کی بجائے عمران خان نے سانحہ 9 مئی کو فالس فلیگ آپریشن قرار دے کر فوج پر ہی یہ الزام عائد کرنے کی کوشش کی کہ اسی نے تحریک انصاف کو پھانسنے کے لیے اس روز اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کارروائی کی تھی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ منت سماجت اور بین السطور دھمکیاں دینے کے باوجود فوج عمران خان سے مواصلت پر راضی نہیں ہے۔
فروری 2024 کے انتخابات میں ضرور دھاندلی ہوئی ہوگی۔ عمران خان کا یہ مؤقف بھی ہوسکتا ہے درست ہو کہ اسٹبلشمنٹ نے مرضی کے لوگ منتخب کروالیے ہیں اور ملک پر جعلی حکومتیں مسلط کردی گئی ہیں۔ لیکن وہ زمینی حقائق سے اس کی دلیل لانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف غیر معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے۔ اگر اسٹبلشمنٹ ہی انتخابی نتائج مرتب کررہی تھی تو خیبر پختون خوا میں اس نے نتائج پر اثر انداز ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کیا وہاں پر اسٹبلشمنٹ تحریک انصاف ہی کو اقتدار دینا چاہتی تھی۔ اس کی کچھ درپردہ وجوہات ضرور ہوں گی جن کے بارے میں عمران خان عوام کو آگاہ نہیں کرتے۔ کیوں کہ وہ اس وقت خالص جمہوریت اور شفاف انتخابات کی بات کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں 90 سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں اور وہ سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی لیکن عمران خان نے حکومت سازی کے عمل میں حصہ لینے سے گریز کیا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے پارلیمانی تعاون کے اشاروں کو سختی سے مسترد کردیا گیا۔ لیکن اب منتخب حکومت کو کٹھ پتلی قرار دے سیاسی طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
شفاف انتخابات اسی صورت میں ممکن ہوسکتے ہیں جب انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کا مزاج بھی عام کیا جائے۔ حال ہی میں بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو متوقع کامیابی نہیں مل سکی لیکن کسی سیاسی لیڈر کی طرف سے اسے انتخابی دھاندلی نہیں کہا گیا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران میں فرانس کے پارلیمانی انتخابات میں انتہاپسند پارٹی نیشنل ریلی کی واضح اور شاندار کامیابی کے اشاریے سامنے آئے تھے لیکن انتخابی نتائج میں اسے ویسی کامیابی نہیں ملی بلکہ بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد کامیاب ہوگیا۔ لیکن میرین لے پن نے اسے انتخابی دھاندلی کا نام دے کر سیاسی طوفان برپا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ نتائج خوش دلی سے قبول کیے اور کہا کہ ہم نے پہلے سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔ کیا عمران خان سمیت پاکستانی لیڈر بھی ایسی ہی وسیع الظرفی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں؟
عمران خان اسٹبلشمنٹ کے پیچھے ہٹنے اور شفاف انتخابات کی بات تو کرتے ہیں لیکن وہ یہ مقصد اسٹبلشمنٹ کے تعاون سے ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک شفاف انتخابات وہی ہوں گے جن میں تحریک انصاف کو ان کی مرضی کی ’اکثریت‘ حاصل ہو۔ ایسے طریقے کو کیوں کر انتخابی شفافیت کہا جاسکتا ہے ۔ جب تک سیاست دان اسٹبلشمنٹ کے ساتھ لین دین اور ہتھ جوڑی کے راستے کھلے رکھیں گے ، اس وقت تک کیسے اسٹبلشمنٹ انتخابی عمل اور اس کے نتائج سے غیرمتعلق ہوسکتی ہے۔ یہ کام تو سیاسی لیڈروں ہی کو کرنا ہے۔ لیکن وہ باہمی اتحاد و اشتراک کی بجائے اسٹبلشمنٹ کی خوشنودی کے ساتھ جمہوری عمل جاری رکھنے پر ’متفق ‘ ہیں۔ اتفاق سے جیسے 2018 میں یہ موقع عمران خان اور تحریک انصاف کو ملا تھا ، اب وہی موقع شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو ملا ہؤا ہے۔
پاکستانی فوج کئی وجوہ کی بنا پر ملکی سیاست میں اہم اسٹیک ہولڈر کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ ملکی سیاست دان اگر واقعی اسٹبلشمنٹ کو سیاست اور انتخابی عمل سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے آپس میں مل کر چند بنیادی اصولوں پر اتفاق کرنا چاہئے ۔ اس کی ایک مثال نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت کی صورت میں موجود ہے جس پر بدقسمتی سے عمل نہیں ہوسکا۔ سیاست دان جب تک شفاف انتخابات، ووٹ کو عزت دینے ، پارلیمنٹ کی خود مختاری کے حوالے سے چند بنیادی اصولوں پر اتفاق نہیں کرتے ،شفاف انتخابات کی حیثیت نعرے سے زیادہ نہیں ہوگی۔
ملک میں جمہوریت لانے اور عوام کی نمائیندہ حکومت کے قیام کا خواب محض اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ان اصولوں کو نعرے بنانے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ سیاسی و معاشی معاملات میں فوج کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے تمام سیاسی لیڈروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اور خوش اسلوبی سے ایسے انتخابات کے انعقاد پر متفق ہونا پڑے گا جس کے نتائج کو سب قبول کرنے پر آمادہ ہوں۔ اسٹبلشمنٹ سے شفاف انتخابات کی ضمانت مانگنے والے فوج کو ’پیچھے ہٹنے‘ پر مجبور نہیں کرسکتے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ