حبیب اکرم اور میرے نظریات میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ڈونلڈ ٹرمپ اور علامہ طاہر اشرفی کے خیالات میں ہے، گویا زیادہ اختلاف نہیں ہے، بس کچھ معاملات پر رائے مختلف ہے۔ ایک مرتبہ ہم دونوں کسی مذاکرے میں شریک تھے جس کی میزبانی نوجوان صحافی اجمل جامی فرما رہے تھے، وہاں ہماری کافی گرما گرم گفتگو ہوئی، مذاکرہ ختم ہوا تو ہم نزدیک ہی ایک کیفے میں چائے پینے چلے گئے، مذاکرے میں موجود کچھ حاظرین بھی وہاں پہنچ گئے اور ہمیں یوں اکٹھے بیٹھا دیکھ کر خاصے حیران و پریشان ہوئے کہ یہ دونوں حضرات جو کچھ دیر پہلے ایک دوسرے کیخلاف تند و تیز دلائل دے رہے تھے اب کیسے شیر و شکر ہوئے بیٹھے ہیں۔ چند روز پہلے احباب کی ایک محفل میں حبیب اکرم سے قیام پاکستان کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی، میں نے (خواہ مخواہ) بحث کی غرض سے اُن کے سامنے سوال رکھا کہ قائداعظم نے جو تقریر 11اگست 1947 ء کو آئین ساز اسمبلی میں کی وہ تقریر 23مارچ 1940ء کو کیوں نہیں ہو سکتی تھی اور اگر ہم ایک علیحدہ قوم تھے اور ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے تھے تو پھر پاکستان بننے کے بعد ہندوؤں کیساتھ کیوں کر رہ سکتے تھے؟ حبیب اکرم نے کافی تفصیل سے جواب دیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ قائد اعظم شروع سے علیحدگی کے قائل نہیں تھے بلکہ انہیں تو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا جاتا تھا، تاہم کانگریس نے مسلسل اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ انگریزوں کے جانے کے بعد مسلمان اقلیت کیساتھ منصفانہ سلوک نہیں کرے گی جسکا ثبوت 1937ء کی کانگریسی وزارتیں ہیں، اِس کے باوجود قائداعظم نے کیبنٹ مشن پلان منظور کر لیا جبکہ کانگریس نے اسے رد کر دیا جس کے بعد تقسیم ہند کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا! یہ درست ہے کہ تقسیم کا عمل اُس حوالے سے جمہوری تھا کہ 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی جس کا مطلب تھا کہ مسلمانوں نے تقسیم کے بیانیے پر مہر لگاد ی ہے، لیکن ہر سال 14اگست کو یہ سوال میرے سامنے پھن اٹھا کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ کیا تقسیم کا یہ بیانیہ درست تھا اور میں سوچتا ہوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اِن سوالات سے قوم کو کنفیوژ کرنے کی ضرورت نہیں، ملک ایک نظریے کی بنیاد پر آزاد ہوا تھا،اب یہ ایک خود مختار مملکت ہے،لہٰذا سن 47کے گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے یہ سوچنا چاہئے کہ اِس ملک کو واپس پٹری پر کیسے چڑھایا جائے۔ تاہم یہ بات اتنی سادہ نہیں، چار جنگیں ہم لڑ چکے ہیں، خوارج سے نبرد آزما ہیں، غیر مسلموں کو ملک سے نکال باہر کیا ہے، اور جو باقی مسلمان ہیں وہ آئے روز ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے رہتے ہیں۔ یہ سب باتیں آخر ہم نے کہاں سے سیکھی ہیں، اِن کا مخرج کیا ہے،یہ جاننے کیلئے لا محالہ گڑے مُردے اکھاڑنے پڑتے ہیں ۔
ایک علیحدہ وطن کی دلیل یہ تھی کہ ہندو اکثریت مسلمانوں کو جینے نہیں دے گی، لہٰذا قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی ایک تہائی ہونی چاہئے، واضح رہے کہ اُس وقت مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 22سے 23فیصدتھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بنگال اور پنجاب جیسے صوبوں میں، جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، وہاں تو اپنی آبادی کے لحاظ سےانہیں پوری نشستیں ملیں لیکن وفاق میں ،اپنے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے، مسلمانوں کو کم از کم33فیصد نمائندگی دی جائے ۔اِس کیساتھ ہی مسلم لیگ کا مطالبہ جداگانہ طرز انتخاب کا بھی تھا یعنی مسلمانوں کے انتخابی حلقے علیحدہ ہوں جہاں مسلمان امیدواروں کو صرف مسلم ووٹوں سے ہی منتخب کیا جائے ۔دوسری جانب کانگریس کا استدلال یہ تھا کہ مسلمانوں کو آبادی کی بنیاد پر متناسب نمائندگی دی جا سکتی ہے، بلکہ ایک موقع پر کانگریس 25فیصد نمائندگی دینے پر رضامند بھی ہوگئی تھی،تاہم مسلم لیگ مسلسل 33فیصد نمائندگی پر اصرار کرتی رہی۔ جداگانہ طرز انتخاب پر کانگریس نے لیگ کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا ،کانگریس کا موقف تھا کہ بھارت کی تمام قومیتیں مخلوط طرزِ انتخاب کے تحت ووٹ ڈالیں البتہ مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کے لیے کچھ مخصوص نشستیں ضرور ہوں ۔
کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان 25 فیصد اور 33 فیصد کاجھگڑا طے نہ ہوسکا اور بالآخر ہندوستان تقسیم ہوگیا ، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ پنجاب اور بنگال تقسیم ہوگئے ۔ 50لاکھ ہندو اور سکھ مغربی پنجاب سے مشرقی پنجاب جبکہ اتنے ہی مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب میں مہاجر بن کر گئے ۔تقسیم کے موقع پر ہونے والے فسادات اِس قدر ہولناک تھےکہ اُس وقت کے ادیبوں پر بھی اُن کا گہرا اثرہوا ، منٹو ، بیدی، ندیم، کرشن چندر، انتظار حسین وغیرہ نے ایسے دردناک افسانے لکھے کہ بندہ پڑھ کر لرز اٹھتا ہے اور سوچتا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی دلیل اِس قدر متاثر کُن نہیں ہوسکتی کہ وہ کسی کو قائل کرسکے کہ یہ سب آزادی کی قیمت تھی جو ادا کی گئی۔
جبکہ مسلم لیگ کے استدلال کے نتیجے میں جوحکومت پاکستان میں وجودمیں آئی وہاں مسلمانوں کی اکثریت بن گئی اور ہندو اور دیگر غیر مسلم قومیں اقلیت میں تبدیل ہوگئیں ، لیکن مسلم لیگ نے اِن اقلیتوں کو 33 فیصد نمائندگی نہیں دی حالانکہ سن 47 میں اقلیتی آبادی کا تناسب 30 فیصد تھا ، گویا مسلم لیگ نے یہ فرض کر لیاکہ اگر وہ اکثریت میں ہوگی تو اقلیت کے ساتھ انصاف کرے گی تاہم اگر کانگریس اکثریت میں ہوگی تو مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔اِن گزارشات کا یہ مقصد نہیں کہ یوم ِآزادی کا مزا کرکرا کیا جائے ، بلکہ مقصد یہ یاد دلانا ہے کہ جس دلیل کی بنیاد پر ہم نے یہ ملک بنایا تھا اُس دلیل پر پہلے خود عمل کرکے دکھائیں ۔بٹوارے کے بعد مہاتما گاندھی لاہور اور قائد اعظم بمبئی میں رہنا چاہتے تھے۔کاش کہ ایسا ہی ہوتا ۔لیکن سوال وہی ہے کہ پھر علیحدہ ملک بنانے کی کیا ضرورت تھی اور اگر بنا لیا ہے تو دونوں ملکوں کےشہریوں کو اُس طرح کیوں نہیں رہنے دیتے جیسے ارشد ندیم اور نیرج چوپڑہ کی مائیں رہنا چاہتی ہیں ؟ نہ جانے وہ دن کب آئے گا جب یہ دونوں ملک نارمل ہو جائیں گےاور ہم دیکھیں گے کہ مزار شریف سے چنائی تک ویسے ہی ریل گاڑی چلے جیسے زیورخ سے نیپلز کے درمیان چلتی ہے ۔ اُس دن کے آنے تک ارشد ندیم اور نیرج چوپڑہ کی ماؤں کو اپنا اپنا یوم آزادی مبارک!
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ