جہاں ڈاکٹر اور سائنس دان کورونا سے لڑنے میں مصروف ہیں، تجزیہ نگاروں اپنی اپنی جگہ کورونا پر طبع آزمائی کر رہے ہیں، مختلف تحقیقات جاری ہیں، ویکسین بنانے کی جدوجہد ہو رہی ہے، وہیں دنیا بھر میں اردو کے معروف شعراء نے کوروناوائرس کی وبا اور اس کے اثرات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ کچھ پرانے اشعار بھی کورونا پر پورے اتر رہے ہیں۔ اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والے افراد ان سے مستفید ہو رہے ہیں۔
وبا کے اس دور پر شاعری کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ کئی غزل گو شعراء نے غزل کے ساتھ نظم میں کورونا کے حوالے شعر موضوع کیے ہیں۔ خصوصاً احتیاطی تدابیر کے حوالے سے شاعری کا اپنا کردار رہا۔ کورونا کے بعد کی تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں اردو شعر و ادب نے اپنی اہمیت کو منوایا ہے، عام آدمی کی شعر و ادب سے کم ہوتی ہوئی رغبت میں اضافہ ہوا ہے اور ادب دوست فضا فروغ پائی ہے۔ آج ہم نے اپنے اس مضمون میں کوشش کی ہے کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والی صورت حال کی غماز اردو شاعری کو جمع کیا جائے اور اس مضمون کا حصہ بنایا جائے۔ قارئین بتائیں گے کہ کوشش کتنی کامیاب رہی۔ بشیر بدر کی مقبول غزل کے یہ شعر سب سے زیادہ عام ہوئے اور لوگ ان پر بات بھی کر رہے ہیں،
یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے ، اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہا تھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو
اس وبا کے دور میں ہر شخص دوسرے سے خوف زدہ نظر آتا ہے، ہر گھنٹے بعد خبر آتی ہے کہ اتنے لوگ متاثر ہو گئے، اس صورت حال میں بھی جون ایلیا کا ایک شعر وائرل نظرآیا۔
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
احمد فراز کے اس شعر نے بھی خوب مقبولیت حاصل کی،
قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں
دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی
پارکوں اور باغوں پر جانے پر پابندی لگی تو میر تقی میر کا یہ شعر عام ہوا،
کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے
چاک قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا
لوگ گھروں میں محصورہیں، اس صورت حال میں جب کوئی کپڑے بدلنے یا بال بنانے کی بات کرے تو ناصر کاظمی کا یہ شعر یاد آتا ہے،
کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کیلئے
رات بہت کالی ہے ناصرؔ گھر میں رہو تو بہتر ہے
کورونا کی اس وبا میں لوگ بہت سی جھوٹی خبروں کے باعث وہم کا شکار رہے، ایسے حالات میں فارس کے اس شعر نے بہت مقبولیت سمیٹی،
سب کچھ جو چمکدار ہو، سونا نہیں ہوتا
ہر چھینک کا مطلب تو، کرونا نہیں ہوتا
ادریس بابرکا یہ شعربھی بہت مشہور ہوا۔ جس میں محبوب سے جدائی کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے
ٹینشن سے مرے گا نہ کرونے سے مرے گا
اک شخص ترے پاس نہ ہونے سے مرے گا
کورونا شاعری میں محمود شام کا یہ شعر بھی خوب رہا،
عجب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی
بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں
کورونا کی وبا کے دور میں لوگ بے شمار اندیشوں کا شکار ہیں، اس صورت حال میں بیاض سونی پتی کا یہ شعر بھی خوب ہے،
سوچ کی ہر تہہ میں ہیں موسوم اندیشے بیاض
لوگ چلتے پھرتے پتھر آئینوں کے شہر میں
شاعر اور ادیب رضی الدین رضی نے کورونا پر کچھ یوں طبع آزمائی کی ہے ،
آج کل تو پیار بھی سہما ہوا ہے شہر میں
آج کل ہر شخص کو ہے کتنی پیاری زندگی
چھپے ہوئے ہیں گھروں میں ہوا سے ڈرتے ہیں
خدا سے ڈرتے نہیں اور وبا سے ڈرتے ہیں…
صائمہ نورین (ملتان) خوبصورت لہجے کی معروف شاعرہ اور افسانہ نگار ہیں ، ان کے چند شعر قارئین کی نذر ہیں،
بدلتی کیوں ہے تکلف کے طور پر تاریخ
بزور جبر کب اہل نظر بدلتے ہیں
یہ راستے کے اندھیرے بھی چھٹنے والے ہیں
ذرا سی دیر میں شام و سحر بدلتے ہیں
جو ساتھ چلتے ہوئے ڈگمگا گئے چھوڑیں
مگر جو لوگ میان سفر بدلتے ہیں
کچھ اپنے اشک بھی شامل کرو دعاؤں میں
سنا ہے اس سے وبا کے اثر بدلتے ہیں
شاعر قمر رضا شہزاد (کبیر والا) کئی کتابوں کے مصنف ہیں، آپ نے کچھ اشعار یوں موضوع کیے
جانے کیوں یہ زمیں رک گئی آسماں رک گیا
کچھ یقینا ہوا ہے جو سارا جہاں رک گیا
میرے چاروں طرف غیر مانوس مخلوق ہے
یہ بھلا چلتے چلتے میں آخر کہاں رک گیا
اپنی دھن میں بڑھائے چلے جا رہا ہے قدم
راہبر کو پتہ ہی نہیں کارواں رک گیا
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ (ڈیرہ غازی خان) کانام اردو شاعری کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں، اب تک ان کے چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اس موضوع پرکچھ دعائیہ شاعری کی جسے بہت پسند کیا گیا،
تیرے در پہ آج یہ گریہ کناں ہے زندگی
میرے مولا اب تو بس محو فغاں ہے زندگی
زمین رو رہی ہے اپنی بے بسی پہ آج کل
کہُ دیر اور حرم میں بھی تو اب فغاں ہے زندگی
خدائے لم یزل کی رحمتوں سے مت ہو بد گماں
یقیں کی آنکھ سے پر ے تو بس گماں ہے زندگی
اپنے شعلوں میں ہی جل کے راکھ ہونے لگ گئی
اپنے ہی رد عمل سے اب دھواں ہےزندگی
کل تلک جو رقص فرما تھی لہو کی تال پر
رنجشوں کے قہر میں اب نوحہ خواں ہے زندگی
نوجوان شاعر شہظل خان کا تعلق چھوٹے سے قصبہ دائرہ دین پناہ، کوٹ ادو سے ہے، پہلا شعری مجموعہ ’’بارشوں کے موسم میں‘‘ شائع ہوا، ان کی نظم ’’بارشوں کے موسم میں، تم کو یاد کرنے کی عادتیں پرانی ہیں‘‘، کافی مشہور ہے، وہ موجودہ صورت حال کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہوئے لکھتے ہیں،
چہروں پہ خدوخال نہیں خوف عیاں ہے
اب کوئی حسیں ہے کہ نہیں فرق کہاں ہے
دنیا نے بدل ڈالا ہے قانون اچانک
اب قرب قضا اور جدائی میں اماں ہے
بازار کی ویرانی یہ سناٹا گلی کا
چیخ اٹھے بتاؤ جو کسی منہ میں زباں ہے
جائیں گے کہاں خوف کے مارے ہوئے شہظل
لگتا ہے کہ ہر شخص یہاں دشمنِ جاں ہے
اسی حوالے سے کچھ مزید عمدہ اشعار پڑھنے والوں کی نذر ہیں،
افسوس یہ وبا کے دنوں کی محبتیں
اک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی گئے
سجاد بلوچ
حال پوچھا نہ کرے ہاتھ ملایا نہ کرے
میں اسی دھوپ میں خوش ہوں کوئی سایہ نہ کرے
کاشف غائر
آپ آمد و رفت اپنی بھی کچھ تو کریں محدود
ممکن ہو جہاں تک تو گھروں تک رہیں محدود
نشاط سرحدی
جہاں جو تھا وہیں رہنا تھا اس کو
مگر یہ لوگ ہجرت کر رہے ہیں
لیاقت جعفری
یہ جو ملاتے پھرتے ہو تم ہر کسی سے ہاتھ
ایسا نہ ہو کہ دھونا پڑے زندگی سے ہاتھ
جاوید صبا
ایسی ترقی پر تو رونا بنتا ہے
جس میں دہشت گرد کرونا بنتا ہے
اسحاق وردگ
بازار ہیں خاموش تو گلیوں پہ ہے سکتہ
اب شہر میں تنہائی کا ڈر بول رہا ہ
اسحاق وردگ
بھوک سے یا وبا سے مرنا ہے
فیصلہ آدمی کو کرنا ہے
عشرت آفریں
شہر جاں میں وباؤں کا اک دور تھا
میں ادائے تنفس میں کمزور تھا
پلومشرا
آپ ہی آپ دیے بجھتے چلے جاتے ہی
اور آسیب دکھائی بھی نہیں دیتا ہے
رضی اختر شوق
اب یہاں رند ہیں نہ سجدہ گزار
مسجدیں اور میکدے تنہا !
انجم عثمان
گھوم پھر کر نہ قتل عام کرے
جو جہاں ہے وہیں قیام کرے
شبیر نازش
میں وہ محروم عنایت ہوں کہ جس نے تجھ سے
ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی
نعیم ضرار
ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں
دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارہ کر کے
اعتبار ساجد
تو نے دیکھا ہی نہیں شہر میں پھیلی تھی وبا
مرنے والوں میں ترے حسن کے بیمار بھی تھے
زبیر قیصر
کچھ اپنے اشک بھی شامل کرودعاؤں میں
سنا ہے ‘ اس سے وبا کے اثر بدلتے ہیں
صـائمـہ نورین بخاری
شام ہوتے ہی کھلی سڑکوں کی یاد آتی ہے
سوچتا روز ہوں میں گھر سے نہیں نکلوں گا
شہریار احمد
کچھ روز نصیر آؤ چلو گھر میں رہا جائے
لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا
نصیرترابی
کرونا تیرا ہی بھیجا ہوا نذیر سہی
تو اس زمیں پر اب اسے بے اثر کر دے
مسعود منور
دعائیں چیختی، رنج و الم پکارتے ہیں
وہ بے بسی ہے کہ دل چشم نم پکارتے ہیں
فرحت عباس شاہ
پکڑ نہ پائے کوئی چھوت کی وبا ہم کو
جو چاہتوں کا ہے ہم میں بخار چلتا رہے
ڈاکٹر یاسین عاطر
ناصر بشیر کس کی نظر گھر کو کھا گئی
سایہ سا بچھ گیا ہے مرے آنگن میں خوف کا
ناصر بشیر
گر اس کو لگا لیتا ہوں میں اپنے گلے سے
پھر بھی اپنی حفاظت کو بھی بازو نہیں بچتا
سلیم طاہر
شہر ویراں ہیں کدھر جائیں
دل پریشاں ہیں کدھر جائیں
گھر خدا کا بھی بند ہے یارو
اہل ایمان ہیں کدھر جائیں
سید شائق شہاب
کرونا کی برف تھی، دونوں جمے رہے
جذبوں کی تیز دھوپ میں پگھلا نہ وہ نہ میں
شامیں سجائی ہم نے سدا انتظار کی
دام فریب صبح میں آیا نہ وہ نہ میں
طارق رشید
وہ تعفن ہے کہ اس بار زمیں کے باسی
اپنے سجدوں سے گئے رزق کمانے سے گئے
دل تو پہلے ہی جدا تھے بستی والو
کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے
ایمان قیصرانی
شعر زندگی کی علامت ہے، شاعری اس خوف اور گھٹن کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتی، امید ہے اس ہوا کے جھونکوں نے کچھ گھٹن کو کم کیا ہوگا۔
فیس بک کمینٹ