کورونا سے پاکستان میں ہونے والے نقصانات کا اندازہ روزانہ کی بنیادوں پرہسپتالوں میں رپورٹ ہونے والے مریضوں کی تعداد سے لگایا جائے یا پھر اس مرض کا شکار ہوکر اس جہان فانی سے کوچ کر جانے والوں کی گنتی سے، سر دست یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں لگتا۔ جہاں تک پورے ملک میں اس وباءکا شکار مریضوں کی تعداد کی بات ہے، تو اصل مسئلہ یہ کہ ہمارے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ ہر شخص کا کورونا ٹیسٹ کر سکیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ امریکا اور برطانیہ جیسے نہایت خوشحال اور سائینسی طور پر توانا ملک ایک بڑی تعداد میں ٹیسٹ کرنے کے باوجود مرنے والوں کی تعداد کم نہیں کر سکے تو ہم پاکستانی تو کسی گنتی میں ہی نہیں آتے۔
ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ سب کے پاس ہی اس وباءکا ایک ہی علاج دکھائی دیتا ہے یعنی سماجی فاصلہ۔اندیشہ یہ ہے کہ اس وباءکے زمانے میں ہم سماجی فاصلے پر اتنا زور دے رہے ہیں کہ وباءختم ہوجانے کے بعد بھی ہم اس سماجی فاصلے کے اتنے عادی ہو جائیں گے کہ بس دور دور سے سلام، نہ کسی قسم کی قربت نہ کسی قسم کا تعلق، ڈر ہے کہ ہم سب ساری دنیا کے لوگ بے حس نہ ہوجائیں۔ویسے وہ منظر بھی کیسا عجیب ہوگا جب ہر ایک کو بس اپنی پڑی ہوگی، باپ بیٹا ہاتھ ملانے سے احترازکریں گے، مائیں بچوں کو چومنے سے گریزاں ہوں گی، دوست دوستوں کے سائے سے بچیں گے اور ہر شخص اس بھیانک وباءکے خوفناک نتائج سے سہم کر دوسروں سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھے گا۔ زمین تنگ پڑجائے گی، فاصلے بڑھ جائیں گے، ہر طرف اجنبیت کا موسم ہوگا۔سچ پوچھیں تو قیامت سے پہلے قیامت ہوگی۔اس خوفناک منظر سے بچنے کے لیے ہم سب کو کوئی نا کوئی درمیانی راستہ نکالنا پڑے گا۔اور وہ درمیانی راستہ ہے اپنی Physical and Spritual فٹنس کو بہتر بنانے کا راستہ۔صرف کرونا ہی نہیں، ہر طرح کی بیماری میں ہماری جسمانی اور روحانی مضبوطی ہمارے لیے سب سے بڑی ڈھال ثابت ہوتی ہے ۔
جہاں تک فزیکل فٹنس کا تعلق ہے،ہمارا ایک ذاتی اندازہ ہے، اس طوفان کے گزر جانے کے بعد کیے جانے والے شماریاتی تجزیے بتائیں گے کہ اس وباءکا شکار ہونے والوں میں کچی آبادیوں میں بسنے والے غریب غرباءکی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ نشانہ بننے والوں میں زیادہ تر وہی لوگ ہوں گے جنہیں ہمارے معاشرے میں ممی ڈیڈی اور برگر فیملیز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔وجہ صرف یہی ہے کہ غربت انسانوں کو حالات کی سختیاں سہنے کا زیادہ عادی بنا دیتی ہے۔سخت سردی کے موسم میں کسی کی دی ہوئی پرانی سی جرسی پہن کر سروس سٹیشن پر گاڑیوں کی دھلائی کرنے والے نوجوان کو برف باری بھی نقصان نہیں پہنچاتی۔
یہاں کورونا کی وباءکے معاملے میں فوج کے کردار کا تذکرہ اس لیے بے معنی ہے کہ ہمارے ہاں فوج ہر مصیبت کی گھڑی میں ہر دوسرے ادارے سے بڑھ کر مدد کے لیے ہمیشہ ہی موجود ہوتی ہے۔ ہم نے ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کے کام میں خود ہی فوج کو ایسا کردار تفویض کر رکھا ہے جو کسی بھی صورت اس وقت تک کم نہیں ہوسکتا جب تک ہمارے سولین ادارے فوجی جذبے کے ساتھ کام کرنے کی عادت اختیار نہ کر لیں۔یہی سبب ہے کہ پاکستان میں کورونا کی وباءسے مقابلے کی بات ہو، زلزلہ ہو یا پھر سیلاب، ہمارا یہ ادارہ دوسرے اداروں سے بڑھ کر متحرک دکھائی دیتا ہے۔تاہم آفت کے اس موجودہ زمانے میں ہماری پولیس نے بھی وہ شاندار کردار ادا کیا جسے نظر انداز کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوگا۔ہمارے خیال میں مصیبت کی اس گھڑی میں پولیس نے ایک انتہائی مثبت کردار ادا کر کے وہ سارے داغ دھو دیے ہیں جو ماضی میں چند کالی بھیڑوں کی بداعمالیوں کے نتیجے میں پورے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے چہرے پر لگتے رہے ہیں۔ہمارے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس بھی قومی خدمت کے حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں رہے۔اپنی جانیں بھی قربان کیں اور اپنے آرام کو بھی پس پشت رکھا۔
یہ بات بھی بڑی حد تک درست ہے کہ ہمارے سیکیورٹی اداروں ، ڈاکٹرز اور پیرا میڈکس سٹاف کو کورونا سے تحفظ کے ضروری سامان کے مسلسل فقدان کا سامنا رہا لیکن انہوں نے اس فقدان کو خدمت کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔فوج، پولیس، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف نے مل جل کر دنیا پر ثابت کر دیا کہ مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے وسائل سے زیادہ ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔
حوصلہ اصل میں جینے کی امنگ کا نام ہوتا ہے۔ وہی امنگ جس نے آج تک مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوجوں کے خلاف جدوجہد کو زندہ رکھا ہوا ہے، وہی امنگ جو سکھوں کے دلوں سے ایک آزاد سکھ ریاست کے خواب کو مٹنے نہیں دیتی اور وہی امنگ جس نے کئی دہائیاں گذر جانے کے بعد بھی افغانستان میں قابض نیٹو افوج کو بے بس کر رکھا ہے۔ یقین کیجیے، برطانیہ ہو یا چین، سپین، اٹلی، ایران یا پھر امریکا، کرونا وائرس کو شکست دینے کے لیے ہمیں اسی ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے جس کا مظاہرہ سکھ حصول خالصتان کے لیے، کشمیری اپنی آزادی کے لیے اور افغانستان کے لوگ قابض امریکی اور نیٹو فورسز سے اپنے وطن کو پاک کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ ہمت اور حوصلے کی جب بھی بات ہوگی، ہمیں سری لنکا کے بہادر عوام اور دلیر فوج کا بھی حوالہ دینا پڑے گا جنہوں نے بھارت کے پروردہ دہشت گردوں کو اتنا بے بس کردیا کہ ان کے لیے سری لنکن سرزمین پر سانس لینا بھی مشکل ہوگیا۔کورونا کا مقابلہ دنیا کو اسی ہمت اور حوصلے کے ساتھ کرنا ہوگا جس ہمت اور حوصلے سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔آفتیں، آزمائشیں، وبائیں، سب زندگی کا حصہ ہیں۔طوفان ہو، سیلاب، زلزلہ یا پھر طاعون، زندگی کا پہیہ چلتا ہی رہتا ہے۔بے ہمتی، کم حوصلگی، مایوسی ، یہ تمام عوامل یک جان ہوکر ہمارے بڑھتے قدموں کی زنجیر بن جاتے ہیں۔ احتیاط اچھی بات ہے مگر ہر وقت کورونا کے بارے میں سوچتے رہنا بھی کوئی مثبت اور امید افزاء روش نہیں۔گھروں میں رہیے، امکانی طور پر سوشل ڈسٹنس بھی رکھیے لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنی پسند کے گیت بھی سنیے، غزلیں گنگنائیے، پرانی فلمیں دیکھیے،عہد جوانی اور بچپن کے زمانے کے ٹی وی ڈراموں سے لطف اندوز ہوں، میری طرح ٹام اینڈ جیری اور ہیکل جیکل کے کارٹون بھی دیکھیے لیکن ان تمام مصروفیات اور مشاغل میں خیال رہے کہ اللہ سے آپ کارشتہ کمزور نہ ہونے پائے۔رشتوں کی مضبوطی اکثر صورتوں میں مسلسل رابطے کی متقاضی ہوتی ہے۔بعض دفعہ چراغوں کو بجھنے سے بچانے کے لیے ہوا سے زیادہ مددگار کچھ بھی نہیں ہوتا۔
فیس بک کمینٹ