رضی الدین رضی کے ویسے تو چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں مگر پہلی محبت کی طرح اسے یہ اولیں مجموعہ زیادہ پسند ہے اس لئے اسے دوبارہ شائع کیا ہے پیپر بیک میں ۔ اس لئے قیمت بہت کم رکھی ہے یعنی 600 روپے ، رضی نے ایک بک کلب بھی بنا رکھا ہے جس کے اراکین کے لئے یہ مجموعہ مفت دستیاب ہے ۔
” دن بدلیں گے جاناں ” رضی جیسے مشقتی کے لئے امید کی بشارت ہے جبکہ کسی زردار کے لئے ڈراوا ۔اس مجموعے میں زیادہ تر غزلیں ہیں اور جو نظمیں ہیں وہ بھی غزل گو کی ہیں البتہ اس میں اہم بات ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا اور عرش صدیقی کے پیش لفظ غیر رسمی انداز’میں لکھے گئے ہیں جن میں بعض’فقرے اس نوجوان کے روشن ادبی مستقبل کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔
رضی کے والد بخیہ گر تھے کرکٹ کے شوقین تھے ایم سی سی گراونڈ میں جاری کرکٹ میچ بھی دیکھ رہے تھے سائیکل بھی چلا رہے تھے کہ ایک کار انہیں روندتی ہوئی آگے نکل گئی ۔ رضی کو بیوہ ماں نے پالا اور اپنے ہم عمر دوستوں ( شاکر حسین شاکر ، قمر رضا شہزاد ، نوازش ندیم )سول لائینز کالج کے ساتھیوں ، استادوں اور خود اعتمادی نے اسے ان اخبارات سے بھی وابستہ کئے رکھا جو اپنے ملازمین کو تنخواہ کی بجائے ” تجربہ ” دیتے تھے ۔
اس کے چند شعر دیکھئے :
اس کا وصال معجزے سے کم سہی مگر
اس معجزے سے بڑھ کے کوئی معجزہ تو ہو
۔۔
ہم بھی ضرور لوٹ کے گھر جائیں شام کو
لیکن ہماری راہ کوئی دیکھتا تو ہو
۔۔۔۔
جہاں پابندیاں ہوں بولتے ہیں ہم وہاں لیکن
جہاں اذن تکلم ہو وہاں خاموش رہتے ہیں
۔۔
محبت کا ادھورا سا فسانہ یاد آتا ہے
نئے چہرے کو دیکھوں تو پرانا یاد آتا ہے
۔۔۔۔
ہم تلاش رزق میں گھر سے نکل آئے رضی
اب ہماری واپسی کا راستہ کوئی نہیں
۔۔۔
ہم محبت ساحلوں کی ریت پر لکھتے رہے
بات کم میں نے کہی اور مجھ سے کم اس نے کہا
۔ ۔۔
اور بستی لال کمال میں راکھ ہونے والے کے لئے
کمال ہو بھی چکا اور کمال ہونا ہے
ترے زوال کو رو بہ زوال ہونا ہے
فیس بک کمینٹ