وادی سندھ کے ایک بڑے حصے پر سرائیکی وسیب واقع ہے ،اس خطے کی قدیم اور بزرگ زبان سرائیکی ہی ہے جو چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ھے۔اس زبان میں یہاں کی تہذیب و ثقافت کے احوال اور بڑا علمی ورثہ موجود ہے ۔لوک شعر وادب ھو یا پھر صوفیانہ افکار ، تمام اس زبان کو ایک وقار بخشتے ہیں۔زبان،تہذیب و ثقافت ،معدنی وسائل،زراعت ،وائلڈ لائف،لائیوسٹاک اور انسانی وسائل میں یہ وسیب پورے ملک سے جدا اپنا تشخص رکھتا ہے ۔آ بادی کے لحاظ سے بھی اس کی نمایاں حثییت ہے ۔لیکن اس خطے کو معاشی اور سیاسی دونوں حوالوں سے ہمیشہ محروم رکھا گیا ۔
جس شعبے کی جانب نگاہ دوڑائیں مایوسیاں اور محرومیاں دکھائی دیں گی۔یہاں پر بے جوڑ اضلاع اور ڈویژن دکھائی دیں گے,اسی پس منظر میں ہم۔نے تھل ڈویژن کا تصور دیا تھا جو اب۔لیہ ڈویژن تک آ ن پہنچا ہے ۔اپر پنجاب سے مسلط کی گئی انتظامیہ یہاں کے مسائل اور دکھوں سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔یہاں کے تعلیمی ادارے فیکلیٹیز اور سربراہوں سے خالی پڑے رہتے ہیں،ہسپتالوں میں ڈاکٹرز نہیں ملتے،آ رمی میں یہاں کے نوجوانوں کو خال خال کمیشن ملتا ہے بس یہاں کا نوجوان لانس نائیک تک ہی محدود رہتا ہے ۔مواصلات کا نظام پس ماندگی کا منظر پیش کرتا نظر آ تا ہے ۔ایک لمبے عرصے تک بار بار کے مطالبے کے بعد نشتر گھاٹ اور ہیڈ محمد والا بنا۔لیہ تونسہ پل ایک مذاق سے زیادہ نہیں،نہ اس کی ڈائریکشن صحیح ہے اور نہ اس کی تکمیل کے کوئی چانس نظر آتے ہیں۔کبھی بجٹ میں اس کے فنڈز نہیں رکھے جاتے تو کبھی اس کے ٹھیکیدار ادھورا کام چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں ۔یہاں کے اکثر تعمیری منصوبے مہمل ،لایعنی یا غیر منطقی ہوتے ہیں یا پھر سالہاسال ادھورے پڑے رہتے ہیں۔اس کی ایک مثال تو ایم ایم روڈ کی بھی دی جاسکتی ہے ۔کام ہوتے ہوتے فتح پور کے قریب درمیان میں ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ تین برس کے بعد اب سنا ہے کہ بقیہ کام کے کوئی ٹینڈر لگے پیں۔
یہ ایک مثال نہیں اس طرح کی سیکڑوں مثالیں اور بھی دی جاسکتیں ہیں ،دریائے سندھ کی تباہ کاریاں ان کے سوا ہیں۔یہاں انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے جس سے بے روز گاری روزافزوں بڑھ رہی ہے ۔یوتھ میں غیریقینی کے احساسات بڑھ رہے ہیں۔پنجاب میں پانچ دہائیوں سے مخصوص مائنڈ سیٹ کی حکومتیں بن رہی ہیں وہ بوجہ سرائیکی وسیب کی جانب اپنی توجہ مبذول نہیں کرتیں،مقتدرہ شعوری طور پر پنجاب میں پی پی پی کی حکومت بننے سے روکنے کے لیے سازشی منصوبہ بندی سے اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی آ رہی ہے اور بقول ڈاکٹر اشو لال: سرائیکیوں کا آ خری مورچہ پاکستان پیپلزپارٹی ہی ہے ۔پی پی پی کی عرصہ دراز تک پنجاب کی حکومت سے باہر رہنے سے یہاں کی محرومیاں بڑھی ہیں۔پی پی پی کے اولین عہد میں یہاں کئی جامعات،میڈیکل کالجز ،انڈس ہائی وے اور دیگر شعبوں میں ترقی ہوئی۔سیاسی اور معاشی محرومیوں نے یہاں کی دانش کو اب احتجاج اور مزاحمت کرنے پر مجبور کر دیا ہے اب عام آدمی بھی سراپا احتجاج اور سوال بن رہا ہے ،بہت عرصے تک تو سرائیکی ایشو کو لسانی عصبیت کہہ کہہ کر نظر انداز کیا جاتا رہا مگر اب شعور کی سطح بلند ہونے سے پتا چلا کہ یہ مسلہ لسانی نہیں انسانی ہے ۔اس خطے کے دکھ کسی اور رخ پر جا سکتے ہیں اگر وادی سندھ کے اس اہم ترین خطے کو مزید نظر انداز کیا گیا تو ھماری معیشت،تہذیب و ثقافت اور سیاست کو مزید نقصان بھی پہنچ سکتا ہے کیونکہ اس خطے کو سیاسی شناخت دینے ہی سے ملک میں سیاسی اور معاشی توازن آ سکتا ہے ۔اب بڑے پنجاب کو سمارٹ کرنا ہی پڑے گا،ورنہ یہ سوال گراس روٹ لیول پر آ ہی جائے گا کہ آ خر سرائیکی وسیب کے ساتھ "وانجھ”کیوں؟اور جس دن عام آدمی نے اس تلخ حقیقت کا اظہار کرنا شروع کر دیا اسی دن سے حکومتی ایوانوں میں ارتعاش آ نا شروع ہو جائے گا۔
فیس بک کمینٹ