امریکی تاریخ کے سب سے سنسنی خیز صدارتی مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ وہ 2020 میں صدر جوبائیڈن سے ہار گئے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے آج تک اس ہار کو قبول نہیں کیا۔ حال ہی میں انہوں نے اپنی اس خواہش کو دوہرایا ہے کہ انہیں وہائٹ ہاؤس نہیں چھوڑنا چاہئے تھا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ 2028 میں اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش تو نہیں کریں گے۔
امریکی انتخابات کے حوالے سے پیش از وقت کیے جانے والے جائزے اور تبصرے ایک بار پھر غلط ثابت ہوئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف صدر منتخب ہونے کے لیے مطلوبہ 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے پہلی بار مقبول ووٹ میں بھی برتری حاصل کی ہے۔ انہوں نے اب تک موصول ہونے والے نتائج میں نہ صرف 292 الیکٹورل ووٹ حاصل کرلیے تھے بلکہ انہیں تقریباً 51 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ ان کے مقابلے میں کاملا ہیرس 224 الیکٹورل ووٹ لے سکیں جبکہ انہیں ملنے والے ووٹوں کی شرح 47،4 فیصد رہی۔ یوں ٹرمپ نے انتخابی معرکے میں مکمل کامیابی حاصل کی ہے۔ ری پبلیکن پارٹی نے سینیٹ کے علاوہ ایوان نمائندگان کا مکمل کنٹرول بھی حاصل کرلیا ہے ۔ اب صدر ٹرمپ کو اپنے فیصلے نافذ کرنے اور انتخابی وعدوں پر عمل کرنے کے لیے کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہونا چاہئے۔ تاہم امریکہ کے علاوہ دنیا بھر میں یہ بے یقینی موجود ہے کہ ٹرمپ کس حد تک اپنے انتخابی نعروں کو عملی جامہ پہنا سکیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ جمہوری ووٹ کے ذریعے دوسری بار امریکہ کے صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن وہ جمہوریت پر سو فیصد یقین نہیں رکھتے۔ اسی لیے 6 جنوری 2020 کو ان کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں ٹرمپ کے حامیوں نے حتمی نتائج مرتب کرنے کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے کانگرس پر حملہ کیا اور یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف 2020 میں اپنی شکست اور جو بائیڈن کی کامیابی کو قبول نہیں کرتے بلکہ موجودہ انتخابی نتائج سامنے آنے سے پہلے بھی ان کا یہی دعویٰ تھا کہ وہ اسی صورت میں اپنی شکست قبول کریں گے اگر انتخابات ’منصفانہ اور شفاف‘ ہوئے۔ اب اس میں کوئی دو رائے یا شبہ موجود نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نزدیک صرف وہی نتیجہ منصفانہ ہوسکتا ہے جس میں وہ خود کامیاب ہوں۔ اسی لیے یہ اندیشہ موجود تھا کہ ٹرمپ کے ہارنے کی صورت میں امریکہ میں پرتشدد ہنگامہ آرائی ہوسکتی تھی۔ یہ صورت حال عام طور سے امریکہ و دیگر مہذب جمہوری ممالک میں دیکھنے میں نہیں آتی لیکن ٹرمپ امریکہ کو ’تبدیل‘ کرنے کا مکمل ارادہ رکھتے ہیں۔ اب انہیں قانونی طور سے فیصلے کرنے اور امریکی عوام کی تقدیر تبدیل کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ البتہ اس حقیقت کو یاد رکھا جانا چاہئے کہ جس جمہوری راستے سے منتخب ہوکر ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر امریکہ کا صدر بننے والے ہیں، وہ اسے پوری طرح ماننے پر آمادہ نہیں ہیں۔
اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے نئے چار سالہ دور میں امریکہ میں انتخابی نظام یا جمہوری طریقہ کار کو کتنا نقصان پہنچا پاتے ہیں۔ عام طور سے قیاس کیا جاتا ہے کہ امریکی نظام ٹھوس آئینی ڈھانچے اور سیاسی روایات پر استوار ہے ۔ کسی ایک شخص کے لیے اسے توڑنا یا تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ البتہ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ 2020 میں وہائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کراکے اور کسی بھی طرح خود اپنی کامیابی کا اعلان کرانے کی اپنی سی کوشش ضرور کی۔ امریکہ میں 6 جنوری کو کانگرس پر حملہ کرنے والے لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ہے اور سزائیں دی گئی ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی وجہ سے گرفت میں نہیں آسکے کہ بطور صدر ان کے کسی فیصلے یا حکم کا احتساب نہیں ہوسکتا۔
واضح رہے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے گزشتہ صدارتی دورانیہ میں سپریم کورٹ میں تین جج نامزد کیے تھے جو سب قدامت پسند نظریات کے حامل تھے۔ سینیٹ پر چونکہ ری پبلیکن پارٹی کا کنٹرول تھا، اس لیے اس نے اس سے قبل صدر باراک اوباما کے نامزد کردہ ایک لبرل جج کی توثیق سے گریز کیا تھا۔ ٹرمپ کے عہد میں امریکی سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کو اکثریت حاصل ہوگئی تھی۔ اسی لیے اس عدالت سے ٹرمپ کو قانونی چھوٹ یا امریکی صدر کو ’شاہانہ اختیا ر‘ کا حامل قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کا حق دینے کے بارے میں 1972 کے ایک فیصلے کو بھی تبدیل کیا۔ اب یہ ہر ریاست پر منحصرہے کہ وہ اپنے باشندوں کو یہ حق دیتی ہے یا نہیں۔ حالیہ انتخابی مہم میں اسقاط حمل کا حق نائب صدر کاملا ہیرس کا ایک بنیادی نعرہ تھا۔ تاہم وہ انتخاب جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
انتخابات کی رات امریکی ووٹروں میں کیے گئے ایک سروے میں 73 فیصد لوگوں نے جمہوریت کو لاحق خطرات کو انتخاب کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیا تھا۔ البتہ انتخابی نتائج سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جمہوری روایت کا تحفظ امریکی ووٹروں کی ترجیح نہیں بنا بلکہ انہوں نے معیشت کے بارے میں ٹرمپ کے نعروں پر بھروسہ کرکے انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا ہے ۔بلکہ کانگرس کو ری پبلیکن پارٹی کے کنٹرول میں دے عملی طور سے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی پالیسیاں تبدیل کرنے کے لیے مکمل اختیار سونپا ہے۔ جمہوری نظام کی جہاں یہ خوبی ہے کہ اس میں عوام اپنی پسند کے کسی شخص یا پارٹی کو منتخب کرکے حکومت کا اختیار عطا کرسکتے ہیں تو اس میں یہ خرابی بہر حال موجود رہتی ہے کہ کیا لوگوں کے پاس درست فیصلہ کرنے کے لیے مناسب معلومات موجود ہوتی ہیں ؟اور وہ کسی جذباتی وابستگی یا کسی غلط فہمی کی بنیاد پر ووٹ دے کر ایسے لوگوں کو اقتدار سونپنے کا سبب نہ بنیں جو جمہوری روایت کے لیے نقصان دہ ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو غیر روائیتی سیاست دان کہا جاتا ہے۔ اگر یہ جائزہ محض اس حد تک ہوتا کہ وہ دیگر سیاست دانوں کے برعکس مختلف انداز میں بات کرتے ہیں۔ زبان پر آئی ہوئی بات صاف گوئی سے بیان کردیتے ہیں اور عوام کے ساتھ عام فہم و آسان لب و لہجہ میں گفتگو کرتے ہیں تو یہ تجزیہ درست مانا جاسکتا ہے۔ یا اگر ان کے پاس ملک کو درپیش مسائل کا غیرروائیتی حل ہو تااور وہ اس کا اظہار کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے ہوں، پھر بھی اس دلیل کو پرزور مانا جاسکتا ہے۔ البتہ اگر تمام اخلاقی و سماجی روایات کو مسترد کرنے کے باوجود کسی شخص کو جواب دہ قرار نہ دیا جاسکتا ہو تو اسے جمہوری رویوں کا انحطاط کہا جائے گا۔ یہ غیر روائیتی طریقہ نہیں بلکہ مسلمہ اقدار کو مسترد کرنے کا طریقہ ہے۔ ایسے شخص کو ووٹ کے ذریعے سیاسی منصب پر فائز کرنے والے رجحانات کے بارے میں بھی غور کرنے اور انہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ جواب دہی سے ماورا کوئی بھی پاپولسٹ لیڈر کسی بھی ملک یا جمہوری نظام کے لیے خطرناک حد تک نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر جنسی بے راہروی اور اسے چھپانے کے لیے غیر قانونی رقم ادا کرنے کا الزام ثابت ہوچکا ہے۔ ان پر متعدد مالی بے قاعدگیوں کے سنگین الزامات ہیں۔ وہ منہ در منہ جھوٹ بولتے ہیں لیکن کبھی اس پر شرمندگی کا اظہار نہیں کرتے۔ 11 ستمبر کو کاملا ہیرس کے ساتھ مباحثہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے تین درجن کے لگ بھگ جھوٹ بولے یا غلط حوالے دیے۔ ان میں سے بعض کی نشاندہی تو بحث منظم کرنے والے صحافیوں نے اسی وقت ہی کردی تھی۔ ان میں سے ایک یہ الزام تھا کہ غیر قانونی تارکین وطن لوگوں کے پالتو بلیاں، کتے پکڑ کر کھا جاتے ہیں۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ بے شرمی سے جھوٹ بولنے کے باوجود نہ ٹرمپ نے اس پر معذرت کی ضرورت محسوس کی اور نہ امریکی ووٹر انہیں اس کی ’سزا‘ دینے پر تیار تھے۔ حالانکہ جمہوری سیاست میں لیڈروں سے صرف سچ بولنے کی امید کی جاتی ہے اور اور اگر کوئی نام نہاد ’روائیتی‘ سیاست دان ٹرمپ جیسی دروغ گوئی سے کام لے تو عوام اسے مسترد کرنے میں لمحہ بھر دیر نہیں کرتے۔ ٹرمپ اور ہیرس کا موازنہ کرتے ہوئے متعدد تجزیہ نگاروں نے یہ بات دہرائی کہ ٹرمپ کوئی بھی جھوٹ بول کر بھی بچ سکتے ہیں لیکن کاملا جھوٹ بول کر ووٹروں کا سامنا نہیں کرسکتیں۔ سچائی، اخلاقی معیار اور باہمی احترام جیسی روایات کسی بھی جمہوریت کی بنیاد ہوتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ انہیں روندنے کی شہرت رکھتے ہیں لیکن ا س کے باوجود وہ امریکی عوام کے پسندیدہ قرار پائے ہیں۔ اس انتخاب سے جمہوریت یا جمہوری روایات مستحکم نہیں ، کمزور ہوں گی۔
امریکہ میں ٹرمپ جیسےمقبولیت پسند لیڈر کی اس شاندار کامیابی کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ سیاست دانوں کی نئی نسل سچ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا نمائیندہ بننے کی بجائے ٹرمپ جیسی شعبدہ بازی سیکھنے کی کوشش کرے گی۔ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ امریکی سیاست میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کے باوجود کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے جیسے رویے رکھنے والے سیاسی لیڈروں کی ایک پوری نسل کو پروان چڑھانے کا سبب بنیں۔ ری پبلیکن پارٹی کے لیڈر ٹرمپ کو اپنا گرو مانتے ہوئے ضرور ان جیسا بننے کی کوشش کریں گے۔ ٹرمپ کی کامیابی امریکہ کے علاوہ متعدد یورپی ممالک میں مقبولیت پسند پارٹیوں اور لیڈروں کی حوصلہ افزائی کا سبب بھی بنے گی۔ جیسے ٹرمپ ایک کمزور گروپ کو دوسرے کے سامنے لانے کی تکنیک استعمال کرکے عوامی توجہ حاصل کرتے ہیں، یورپ میں دائیں بازو کی متعدد مقامی پارٹیاں اور لیڈر ان کی نقالی کو جدید رجحان اور قابل قبول سیاسی ہتھکنڈا بنا سکتے ہیں۔
یہ رجحان اس جمہوری روایت کا گلا گھونٹنے کا سبب بنے گا کہ جس کی بنیاد پر مغربی ممالک انسانیت اور بنیادی اقدار کا پرچار کرتے ہیں اور دوسرے ملکوں سے بھی انہیں اپنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر امریکہ کے بعد یورپ بھی انسانی اقدار کو خیر باد کہنے کا قصد کرنے لگے تو جمہوریت اپنے ہی گھر میں بے گھر ہوکر رہ جائے گی۔ آزادی رائے، باہمی احترام اور انسان کی قدر وقیمت جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ان اصولوں کو نہیں مانتے اور انتخابات میں کامیاب ہیں۔ جمہوری نظام کے لیے اس سے بڑا اندیشہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
( بشکریہ : کارواں ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ