”یہ اِس دنیا سے دُور اندھے خلاﺅں کے اُس پار ایک روشن اور چمکیلے سیارے کی کہانی ہے جہاں کے سب لوگ سورج سے محبت کرتے تھے۔ اِنہی لوگوں میں ایک کشادہ پیشانی اور روشن آنکھوں والی نارِی اپنے چھوٹے سے نیم تاریک کمرے میں قید ہے۔ دسمبر آ چکا ہے۔ اِس ناری کو علم ہے کہ اب ایک اور سال ماضی کے تاریک غاروں میں کھو جائے گا۔ چند ہیولوں کے سوا سرد ہواﺅں اور دھند کی دیواروں کے بیچ زندگی کسی خزاں رسیدہ شگوفے کی طرح برف کی چادر تلے سو رہی ہے۔ اُسے اندیشہ ہے کہ کہیں فراق رُت اُس کے جسم میں دوڑنے والے خون کو برف نہ کر ڈالے۔ وہ سوچتی ہے کہ اگر سورج نہ نکلا تو اِن ریشمی راہوں پر بچھی برف کیسے پگھلے گی جو راہیں محبت کی وادی تک جاتی ہیں۔ اِس نیم تاریک، سرد اور خاموش کمرے میں وہ ناری سوچتی ہے۔“
دسمبرکتھا سناتے سناتے دھند میں لپٹا وہ شخص ایک گہرا سانس لے کر خاموش ہو جاتا ہے۔ وہ ہر دسمبر کی کسی تیز کٹیلی اور برفیلی شام مجھے ملتا ہے اور میرے مد مقابل کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے بھاری کوٹ کو درست کرتے ، اپنی عینک کے شیشوں کو انگلیوں سے صاف کرتے اور اپنے ہیٹ سے برف جھاڑتے ہوئے مجھے کسی انجانے سیارے کی دسمبر کتھا سنایا کرتا ہے۔ اُس کے ہونٹ بہت کچھ کہنے کا جتن کرتے ہیں، دھندلے شیشوں کے پیچھے اُداس آنکھوں میں کئی کتھائیں رقصاں ہوتی ہیں مگر پھر رفتہ رفتہ ایک ہیولے کی طرح وہ شخص دھند کی دیوار میں گم ہو جاتا ہے، اگلے دسمبر تک کے لئے اور میں کہیں دور سے یہ آواز سنتا ہوں۔
عرش صدیقی کی ادبی شخصیت کئی جہات کی حامل تھی۔ افسانہ، غزل، نظم، دوبا، تحقیق ، تنقید، پنجابی شاعری غرض کئی میدانوں میں انہوں نے اپنے تخلیقی جوہر کا اظہار کیا۔ شاعری میں اُن کی اصل شناخت نظم نگاری کے باعث ہوئی۔ نظموں کے مجموعے ” محبت لفظ تھا میرا“ کو ملک گیر پذیرائی ملی اگرچہ اس سے پہلے ”دیدہ ءیعقوب“ میں بھی اُن کی چند نمائندہ نظمیں شامل تھیں مگر”محبت لفظ تھا میرا“ اُن کی سوچ اور فکر کی جدید تر شکل تھی، جس میں اُنہوں نے نئے میلانات کی طرح ڈالی ہے۔ اُن کی کتاب” اسے کہنا دسمبر آگیا ہے“ میں مندرجہ بالا دونوں مجموعوں کا انتخاب اور آخر میں آٹھ نئی نظموں کو شامل کیا گیا ہے۔ گویا اِس کتاب میں اُن کی نظم نگاری کے تین اہم ادوار کے حوالے سے اُن کے ذہنی اور فکری ارتقاء کو مرحلہ وار دیکھا جا سکتا ہے۔ اِس سے پہلے کہ عرش صدیقی کی نظموں کا جائزہ لیا جائے میں اِس کتاب میں شامل اُن کے دیباچے’ میرا نظریہ شعر‘ (جو” محبت لفظ تھا میرا “میں ’کچھ اپنے اور کچھ اپنی شاعری کے بارے میں‘ کے زیر عنوان لکھا گیا تھا) کے حوالے سے بات کروں گا کیونکہ میرا خیال ہے کہ یہ اُن کی نمائندہ تحریر ہے جس میں اُنہوں نے شعر کے بارے میں اپنے خیالات کو نہایت واضح انداز میں پیش کیا ہے اور یہ اُن کی نظموں کے مزاج کو سمجھنے کے لئے نہایت اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
عرش صدیقی لکھتے ہیں:
٭ مجھے یہ خوش فہمی ہے (غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے) کہ’محبت لفظ تھا میرا میں‘ شامل سب نہیں تو بیشتر نظمیں اُردُو زبان کے دوسرے شعراء کی نظموں سے مختلف ہیں اور اِن نظموں کا لہجہ، اُسلوب کامجموعی تاثر، اِن میں منعکس انسانی رویہ اور ایک حد تک موضوعات کا انتخاب مجھے دوسرے شعراء سے ممتاز نہیں تو انفرادی پہچان کے لئے لازمی حد تک مختلف اور الگ ضرور کر دیتا ہے۔
٭ میں اِس نظریے کو تسلیم نہیں کرتا کہ فن کار اپنا نقاد نہیں ہو سکتا۔
٭ میں فن کو بھی محض لاشعور یا اندھے جذبوں اور ظالم فاتح جبلتوں کی مجبوراً پیدا ہو جانے والی اولاد نہیں سمجھتا ‘شعر کہنا میری مجبوری ایک حد تک ہو سکتی ہے یہ میری ضرورت ہر گز نہیں ہے۔
٭ میں اِس نظریے کو مسترد کرتا ہوں کہ شاعر تو ریشم کے کیڑے کی طرح ہے جسے اُس ریشم کی قیمت کا اندازہ نہیں جو وہ پیدا کرتا ہے۔ میں تخلیق شعر کے اِس نظریے کو بھی مسترد کرتا ہوں جس کے مطابق شاعر پیغمبر ہے، شعر الہام ہے اور مضامین غیب سے نازل ہوتے ہیں۔
٭ میں تخلیق کے اولاد کی طرح عزیز ہونے کے نظریے کو نہ صرف مسترد کرتا ہوں بلکہ اِسے انتہائی احمقانہ قرار دیتا ہوں۔
یہ وہ اہم نکات ہیں جو عرش صدیقی کے مزاجِ شعر کو واضح کرتے ہیں ، اِنہی کی روشنی میں اُن کی شاعری کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ یوں ادب میں اُن کا رشتہ اُس گروہ کے ساتھ جا ملتا ہے جو زندگی کو کھلی آنکھ سے دیکھتا، معروضی حقیقت کو تسلیم کرتا اور جذبات اور واقعات کو استدلالی اور منطقی زاویے سے پرکھنا پسند کرتا ہے۔ آپ اِس رویے کے حامل ادیبوں کو حقیقت پسندوں کے گروہ میں شامل کریں مگر میں اپنے تعصب کے زیر اثر انہیں مارکسی نقطہ نظر کے حامل ترقی پسندوں کے گروہ میں شامل کروں گا۔
عرش صدیقی کی نظموں کے مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اُن کے یہاں نظم کہنے کا انداز ایک داستان گو کا سا ہے اور کم و بیش ہر نظم میں اُنہوں نے اِسی تکنیک سے کام لیا ہے۔ نظم اپنے باطن میں جس گہری سنجیدگی اور منطقی بڑھوت کی متقاضی ہوتی ہے وہ رویہ ہمارے یہاں کم یاب ہے جس کے باعث زندگی کے کسی رویہ کے حوالے سے اہم انکشافات ہونے کی بجائے بات مزید الجھ جاتی رہی ہے۔ عرش صدیقی نے کہانی کار کی تکنیک کو نظم میں بڑے تواتر مگر کامیابی سے برتا ہے، جس کی وجہ سے نظم میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ اُس کے داخل میں موجود اہم حوالے کا ابلاغ بھی بڑے موثر انداز میں ہوتا ہے۔ یہ تو ایک فنی حوالہ تھا فکری سطح پر عرش صدیقی کے یہاں زندگی کی گردش دائرہ در دائرہ ہے۔ زندگی ایک لمبا چکر کاٹ کر دوبارہ اپنے پہلے مقام پر آتی ہے۔ عمروں اور نسلوں کا تسلسل اِسی دائرہ دار گردش کا نتیجہ ہے اور یہ گردش ایک خاص مرکز کے گرد ہوتی ہے۔ مگر زندگی کے طبعی تسلسل سے ہٹ کر ایک ذہنی گردش بھی ہے اور یہ گردش اِس دائرے کے پھیلاﺅ کی ہے ۔جب یہ پھیلاﺅ معروض کی حدیں توڑتا ہے تو پھر زندگی ایک نئے زاویے کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ عرش صدیقی کے یہاں ذہنی اور فکری دائرے کا پھیلاﺅ معروضیت کی بے بسی اور کم مائیگی کا اعلان کرتا ہے اور یہ اعلان انسانی کم مائیگی ، خارجی جبر اور کسی حد تک لاحاصلی کی شکل میں ہوتا ہے۔
عرش صدیقی کی نظموں میں شعور کی سلطنت اپنی تمام تر مضبوطی اور منطقی ایقان کے باوجود ایک تلخ مگر کھوکھلی حقیقت کی آئینہ دار ہے۔ اِس سلطنت کو اُنہوں نے اپنے لئے خود چنا ہے۔ گرنے، ٹوٹنے اور بکھرنے کے باوجود وہ معروضی واقعیت کی بالادستی کے قائل ہیں۔ اُن کے یہاں خارجی تجربہ ہی دراصل ایک رُوحانی واردات بن گیا ہے۔ وہ وجود اور جوہر کے درمیان امتیاز نہیں برتتے بلکہ اِس کی تعبیر شاعرانہ حوالوں سے کرتے ہیں۔ حقیقت کے پسِ پردہ بھی کئی حقیقتیں ہیں۔ یہ حقیقتیں ہزاروں سوال بن کر اُن کے گرد جمع ہو جاتی ہیں۔ جبر واختیار، موجود وعدم، معلوم اور نامعلوم اور اِس انداز کے کئی ایک حقیقی تضادات اُن کے ذہن میں ابھرتے ہیں مگر وہ اِن تضادات کو رد نہیں کرتے بلکہ اِن تضادات کی داخلی حقیقت اور حسن کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے یہاں شعور ارتعاش پذیر ہونے کے باوجود اپنی حیثیت برقرار رکھتا ہے۔
مجھے سب خبر ہے
مرا کچھ نہیں ہے
نہ کہسار میرے
نہ میدان میرا
فقط نیم روشن پہاڑی ہے میری
ازل سے میں اِس برجِ کاکیشیا کا
پرومی تھیس ہوں
(پابہ زنجیر)
ہمارے یہاں نظم کہنے کے سانچے بہت مضبوط رہے ہیں ۔ آغاز سے انجام اور کلائمکس سے انٹی کلائمکس تک کی تکنیک اور پھر بین السطور خیال کی نامیاتی بڑھوت اور وحدت تاثر کو عمدہ نظم کامعیار تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ معیار کوئی ایسا غلط بھی نہیں مگر اب خیال اور اظہار کی سطح پر نئے تجربات سامنے آ رہے ہیں۔ اب نظم کسی خیال کی بجائے محض کیفیت کی ترسیل کا ذریعہ بھی ہے۔ اِس کے برعکس عرش صدیقی نے اپنی نظموں میں شعوری سطح پر انٹی کلائمکس تکنیک کو برتا ہے۔ وہ نظم میں جاری کیفیت کے تسلسل کو ایک شدید جھٹکے سے ختم کر دیتے ہیں۔ یہ تکنیک افسانے میں تو عام ملتی ہے مگر شاعری میں پہلی مرتبہ عرش صدیقی نے اِسے شعوری سطح پر برتا ہے۔ اگرچہ یہ نئی تکنیک ہے مگر نجانے کیوں میں ذاتی طور پر اِس ذہنی جھٹکے کو قبول نہیں کر سکا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اِس تکنیک سے سب سے زیادہ نقصان نظم کی شعری جمالیات اور اخذ شدہ شاعرانہ حسیّت کو پہنچتا ہے اور پڑھنے والا اِس تیزی سے اُس نکتے پر واپس نہیں آ سکتا جہاں سے وہ چلا تھا چند مثالیں دیکھیں:
بہت ہی بے ادب تھا میں
کہ میں بچوں کے سوتے ہی
اٹھا اور اُس کے تحفہ کو
گلی سے دُور بیٹھے اجنبی کے ہاتھ بیچ آیا
کہ اُس شب گھر میں گیہوں تھے نہ چاول تھے۔
(میں بے ادب تھا)
میں کہنا چاہتا تھا …. عمر گزری جس کی چاہت میں
وہی جب مل گیا تو اور اب
کیا چاہئے مجھ کو
مگر تقریر کی قوت نہ تھی مجھ میں
فقط اِک لفظ نکلا تھا‘ لبوں سے کانپتا، ڈرتا
محبت لفظ تھا میرا
مگر اُس نے سنا روٹی
(محبت لفظ تھا میرا)
مختصر یہ کہ اُردُو نظم کی روایت میں عرش صدیقی کا شمار منفرد طرزِ فکر اور اُسلوب کے حامل شاعروں میں ہوتا ہے۔ اُنہوں نے شاعری میں شعوری حوالوں کو معتبر درجہ دیا ہے اور شاعری کو ’الہامی قرار دے کر نام نہاد معنویت پیدا کرنے والوں‘ کو غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ بلاشبہ وہ کھلی آنکھوں کا حامل، زندگی کے زندہ تجربات کا شاعر ہے۔
فیس بک کمینٹ