حوادث و سانحات سے مسلسل دوچار پاکستان میں کل پیش آنے والا یہ سانحہ ملکی تاریخ کے چند المناک ترین سانحات میں سے ایک ہے جس میں ڈھائی سو کے قریب ہنستے کھیلتے انسان دیکھتے ہی دیکھتے چند لمحوں میں لقمہ آتش بن گئے ، 150 جانوں سے گئے ، باقی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ، اللہ انہیں صحت یاب کرے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان جانبر ہونے والوں میں متعدد ایسے ہوں گے جو عمر بھر پچھتاتے رہیں گے کہ وہ جاں بحق کیوں نہ ہو گئے. .. اور ان پسماندگان کا دکھ بھی تو تا لب گور رہے گا جن کی دو نسلیں نذر آتش ہو گئیں…. جی ہاں جل مرنے والے تقریبا سب کے سب یا تو جوان تھے یا بچے ، احمد پور شرقیہ کا یہ گائوں اب بوڑھوں اور بیوائوں کا گائوں کہلائے گا….
جیسا کہ ہم ایک انتہاپسند قوم ہیں ، اس سانحے پر بھی دو انتہاپسندانہ موقف سامنے آئے ہیں..
ایک یہ کہ لوگوں کا ایک ہجوم تیل چوری کرتے ہوئے اپنی لالچ اور حماقت کے نتیجے میں نذر آتش ہو گیا.
دوسرا یہ کہ حکمرانوں کی طرف سے جان بوجھ کر پسماندہ رکھے جانے والے علاقے کے غریب لوگ ایک وقت کے کھانے کے لئے تھوڑا سا ضائع ہونے والا پیٹرول جمع کرنے کی معصومانہ کوشش کرتے ہوئے حکومت کی غفلت کے نتیجے میں پیش آنے والے حادثے میں جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے.
ان موقفوں کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ مدنظر رہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کسی کی کھوئی ہوئی چند ہزار مالیت کی کوئی چیز یا رقم واپس کرنے پر اخبارات کے صفحہ اول پر خبریں لگتی ہیں اور اگر یہ رقم لاکھوں تک پہنچ جائے تو ٹیلیویژن پر نہ صرف خبر آتی ہے بلکہ ایماندار شخص کا انٹرویو بھی نشر ہوتا ہے.
آپ یہ دیکھیں کہ اگر آئل ٹینکر کی بجائے اناج چینی سبزی پھل سیمنٹ مشینری الیکٹرونکس جیسی اشیاء سے بھرا ٹرک الٹتا تو کیا لوگ اس پر بھی ٹوٹ پڑتے اور اسے لوٹ لیتے ! ہرگز نہیں …
تیل ضائع ہو جانا تھا ، واپس ٹینکر میں نہیں ڈالا جا سکتا تھا ، اب وہ مالکان کے لئے ایک ضائع شدہ اور بیکار چیز تھی ، اسے بوتلوں یا برتنوں میں بھر لینا لوگوں کی سادہ لوحی ، غیرذمہ داری ، لاپرواہی ، دیکھا دیکھی اور نتائج سے عدم واقفیت تو ہو سکتی ہے لالچ یا چوری ہرگز نہیں..
اور جو صاحبان اسے غربت اور پسماندگی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ وہاں سے گزرنے والے موٹرسائیکل سوار یہاں تک کہ کاروں والے بھی رک کر اپنے گاڑیوں میں پیٹرول ڈال رہے تھے ، کچھ سال قبل ایسا ہی ایک سانحہ ضلع جھنگ کے ایک قصبے گڑھ مہاراجہ میں بھی پیش آیا تھا ، وہاں ڈرائیور نے بھاگ کر قریبی مسجد سے اعلان کرایا تھا کہ خدا کے لئے ٹینکر سے دور ہٹ جائیں یہ خطرناک ہے ، لیکن وہاں بھی کاروں والے کاروں میں پیٹرول ڈالتے رہے ، حد یہ کہ قریبی مارکیٹ کے دکاندار دکانیں چھوڑ کر سڑک سے پیٹرول جمع کرتے رہے اور پھر رزق آتش بن گئے.
غربت کئی عوامل میں سے ایک عامل تو ہو سکتا ہے لیکن بنیادی وجہ نہیں………
فرض کریں یہ ٹینکر لاہور کراچی یا پنڈی میں الٹتا تو کیا وہاں لوگ پیٹرول جمع نہ کرتے ، بس اتنا ہوتا کہ پولیس ذرا جلدی پہنچ کر جائے حادثہ سے لوگوں کو دور کر دیتی ( اگرچہ یہ امکان بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ پولیس والے خود پیٹرول بھرنا شروع کر دیتے ) ریسکیو کا عملہ پہنچ جاتا اور اگر کوئی حادثہ رونما ہو جاتا تو ریسکیو کا عمل جلدی شروع ہو جاتا ، علاج کی بہتر سہولتیں بر وقت مل جاتیں….
اور یہ بھی فرض کریں کہ خدانخواستہ یہ حادثہ کوہلو نوشکی دالبندین یا تربت میں پیش آتا تو کیا وہاں احمد پور شرقیہ کی نسبت کہیں زیادہ جانی اتلاف نہ ہوتا اور ریسکیو کا عمل کہیں زیادہ دیر سے نہ شروع ہوتا ، احمدپور سے بہاولپور اور ملتان جبکہ ان علاقوں سے کوئٹہ اور کراچی کے فاصلوں کا موازنہ کیجیے….
عوام کو صحت علاج اور ریسکیو کی سہولیات فراہم کرنا سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کو محفوظ بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسے بلا امتیاز پورے ملک میں کرنا چاہیئے. ……….. تخت لاہور کی مذمت کرتے وقت اپنے مقامی عوامی نمائندوں کو معاف کر دینا بھی ناانصافی ہے.
میری تمام لکھنے والوں اور نشر کرنے والوں سے گزارش ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والوں کو لالچی اور چور کہہ کر ناانصافی کے مرتکب نہ ہوں اور ان کے پسماندگان و لواحقین کے زخموں پہ نمک پاشی نہ کریں اور نہ ہی اس عظیم انسانی المیے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کریں….
فیس بک کمینٹ