اختصارئےڈاکٹر عباس برمانیعلاقائی رنگلکھاری

میں کون ہوں ؟ ۔۔ ڈاکٹر عباس برمانی

بچپن سے آغاز کرتا ہوں جب مجھے ابھی سکول داخل نہیں کرایا گیا تھا ، ان دنوں بچوں کو دودھ کے دانت ٹوٹنے کی عمر میں سکول داخل کرایا جاتا تھا ، میری تعلیم گھر پہ بہت جلد شروع ہو گئی تھی ۔ اماں گھر پر اور بابا بیٹھک میں یا باغ میں مجھے پڑھاتے تھے ، دو سال میں ہی مجھے قرآن مجید اور چوتھی جماعت تک کا نصاب پڑھا دیا گیا ، چچا بستی برمانی سکول میں اول مدرس تھے انہوں نے کہا میں نے اے ڈی آئی اور سینئر ہیڈماسٹر صاحب سے بات کر لی ہے اسے چہارم کا امتحان دلوا کے پنجم میں داخل کرا دیتے ہیں تو ایسا ہی ہوا میں ایک عجوبہ بچہ تھا جو سیدھا پانچویں میں داخل ہوا ہےمزید یہ کہ اسے انگریزی حروف تہجی اور گنتی بھی آتے تھے ۔ میری یہی حیثیت ہائی سکول چوٹی زیریں میں بھی برقرار رہی سکول کا سب سے چھوٹا بچہ جو فرفر انگریزی پڑھ لیتا ہے ،کبھی کبھار کوئی بچہ کہہ دیتا تھا کہ تم شیعہ ہو جو ماتم کرتے ہیں اور یہ گناہ ہے ، پھر کچھ عرصہ مجھے بھکر اور احمد پور سیال میں پڑھنا پڑا ۔ لائق طالب علم تو میں تھا ہی اور اس حوالے سے عزت ملتی تھی لیکن بھکر میں مجھے عزت کے ایک نئے پیمانے سے شناسائی ہوئی بچے اور بعض اساتذہ بھی میرا تعارف کرواتے ہوئے کہتے تھے یہ بلوچ ہے اور لغاری قبیلے سے ہے ۔ وہاں شاہانی ، عالمانی اور نوانی بلوچ اچھی خاصی تعداد میں تھے کچھ نیازی بھی تھے جو پٹھان تھے اور وہ بھی عزت دار سمجھے جاتے تھے۔ احمدپور گیا تو معاملہ الٹ ہو گیا دوستوں نے کہا قوم بلوچ نہ بتانا بلوچ اونٹ لادنے والے ہوتے ہیں ، وہاں عزت دار صرف سیال اور سید تھے…
گورنمنٹ کالج سول لائنز ملتان میں داخل ہوا تو بلوچی عزت بحال ہو گئی بلکہ چند بلوچ نوجوانوں نے رابطہ کیا انہوں نے کہا تم اسلامی جمیعت طلبہ میں آؤ بشارت بلوچ اور سہیل بلوچ بھائی ہمارے لیڈر ہیں ، پھر لیاقت بلوچ بھائی لاہور منصورہ میں بیٹھے ہیں اور سب سے بڑھ کے سعادت بلوچ گینگسٹر ہیں کوئی مائی کا لعل تمہیں آنکھ اٹھا کے دیکھنے کی جرات نہیں کرے گا …. جماعتی بلوچ بھائیوں کا ساتھ کنٹین پہ بیٹھ کے طاقت کا مظاہرہ کرنے اور سی آر کے الیکشن میں ووٹ دینے تک رہا ….
سول لائنز سے ایمرسن کالج چلا گیا وہاں مختلف بلوچ بھائی ملے جو این ایس ایف میں تھے سلیم حیدرانی یونیورسٹی میں تھے اور مرکزی رہنما تھے ، ایک جماعتی بلوچ بھائی سلمان شیر قیصرانی ملے لیکن وہ دیر سے ملے ، اس دوران عون شیرازی بھی ملے جنہوں نے قائل کرنے کی کوشش کی کہ تم شیعہ ہو آئی ایس او میں آؤ اور انقلاب اسلامی کے لئے جدوجہد کرو ، معذرت کی کہ پڑھنے کے لئے بھیجا گیا ہوں انقلاب لانے کے لئے نہیں.


قائداعظم میڈیکل کالج پہنچا تو وہاں آئی ایس او نے گھیر لیا میڈیکل کالج میں ریگنگ بہت ہوتی ہی سال اول کے طالب علموں کو کئی ماہ تک دب کے رہنا پڑتا ہے ، اس دوران جمیعت کے طلبہ بھی گھیرنے کے لئے آئے ، آئی ایس او اور جمیعت کا ایک ہی بیانیہ تھا اسلامی انقلاب، امام خمینی ، سید قطب ، سید مودودی اور حسن البناء دونوں کے سانجھے تھے ۔ حیرت ہوتی تھی کہ جماعت کے بزرگ تو ہندی قوم پرستی کے حامی تھے علمائے دیوبند کہتے تھے قوم مذہب سے نہیں وطن سے بنتی ہے ، اقبال اسلامی قوم پرست تھے لیکن اب جماعت اسلامی اقبال کی اسلامی عالمگیریت کی بات کرتی تھی.
فرسٹ پروفیشنل کی چکی سے نکل کے ذرا ریلیکس ہوئے اور سینئر ہوئے تو مہر نعیم کلاسرا مرحوم کامریڈ محمد حسین جعفری ، ارشد شاہانی اور ملک قاسم سے دوستی ہوئی تو ایک نیا جہان کھلا جس میں عبداللہ ملک ، علی عباس جلالپوری ، سید سبط حسن اور خود حضرت کارل مارکس تھے ۔ تب پتہ چلا کہ مذہب پرستی ، قوم پرستی وطن پرستی اور لسانیت سب سامراجی ہتھکنڈے ہیں ، اصل تفریق اور تقسیم تو طبقاتی تقسیم ہے جس کا خاتمہ ہونا چاہیے، بنی نوع انسان صرف دو طبقات پر مشتمل ہے بورژوا اور پرولتاری …. ہمیں پرولتاری انقلاب کے لئے جدوجہد کرنی ہے….ہم دل و جان سے پرولتاری ہو گئے…
اس دوران ایک اور بیانیہ بھی سامنے آیا ۔ پاکستانی قوم پرستی ، ہمارے دوست ماجد خان نے ایم ایس ایف کی بنیاد رکھی ، ان کی پشت پر مرحوم غلام حیدر وائیں اور تابش الوری کا ہاتھ تھا ، ان کے نزدیک قومیت لسانیت مذہبیت سب غداری ہیں ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں…


فائنل ایئر میں تھے تو ہمارے کامریڈز استاد فدا حسین ملک عبداللہ عرفان اشو لال فقیر اور دیگر لیڈران کو لے آئے جنہوں نے ثابت کیا کہ سوشلزم کا راستہ نیشنلزم کے خام مال سے تیار ہوتا ہے ، ہم ملتان بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کے باسیوں کو سرائیکی قوم اور صوبے کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے ، لالہ زمان جعفری نے اپنا محکوم اقوام کا تھیسس پیش کیا جس کی رو سے سرائیکی سندھی اور بلوچ محکوم اور مظلوم اقوام ہیں جبکہ پنجابی پٹھان اور مہاجر بالادست اور ظالم طبقات اور یہ فطری اتحادی ہیں…. یہ الگ بات کہ کچھ عرصہ بعد پونم بنی اور پختون ظالم سے مظلوم ہو گئے…
فدوی کو سرائیکی شاگرد سانجھ کا چیف آرگنائزر مقرر کر دیا گیا.. ہاں اس دوران قادر بلوچ نے بی ایس او بھی بنائی اور مجھ پر حجت تمام کرنے کے لئے یہ بھی کہا کہ اگر تم بلوچ ہونے سے انکار کرتے ہو تو پھر تم حرامی ہو کیونکہ تم نسلوں سے اپنے اندر دوڑنے والے بلوچ لہو کے منکر ہو گئے ہو.
یہ وہ دور تھا جب لوگ سرائیکی بولنے سے شرماتے تھے خود کو سرائیکی کہلوانے سے گھبراتے تھے ، بہت لوگوں نے محنت کی میرا حصہ اس میں آٹے کے انبار میں نمک کے ایک مالیکیول جتنا ہو گا ، لیکن بہرحال تھا ضرور.


اور اب جبکہ یہ زبان ملتانی ریاستی جٹکی کی بجائے سرائیکی ہو گئی ہے لوگ فخریہ سرائیکی بولتے ہیں ، سرائیکی لکھتے ہیں اور سرائیکی صوبے کا مطالبہ فضا میں گونج رہا ہے سرائیکی قوم پرستی کے دعویدار ملک اور جام مجھے کہتے ہیں تم قابض اور حملہ آور ہو تم واپس بلوچستان بلکہ عرب چلے جاؤ …
میرا یہ طویل سفر اک سفر رائیگاں ہو گیا ہے .
میں جہاں سے چلا تھا وہیں کھڑا ہوں.

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker