3 دسمبر کو ایران کے صدر حسن روحانی نے صوبہ سیستان و بلوچستان میں بحر اومان کے ساحل پہ واقع چاہ بہار شہر میں بھارت کے تعاون سے مکمل ہونے والی بندرگاہ شہید بہشتی پورٹ کا افتتاح کیا، اس موقع پر پاکستان سمیت سترہ ممالک کے اعلی سطحی وفود موجود تھے جن میں بھارت ، روس ، افغانستان، ترکمانستان، قازقستان، آذربائیجان، تاجکستان ، ازبکستان اور اومان شامل ہیں. 3 دسمبر کو ایران کے صدر حسن روحانی نے صوبہ سیستان و بلوچستان میں بحر اومان کے ساحل پہ واقع چاہ بہار شہر میں بھارت کے تعاون سے مکمل ہونے والی بندرگاہ شہید بہشتی پورٹ کا افتتاح کیا، اس موقع پر پاکستان سمیت سترہ ممالک کے اعلی سطحی وفود موجود تھے جن میں بھارت ، روس ، افغانستان، ترکمانستان، قازقستان، آذربائیجان، تاجکستان ، ازبکستان اور اومان شامل ہیں. یہ چاہ بہار کی دوسری بندرگاہ ہے ، پہلی بندرگاہ شہید قلنطری پورٹ ہے جو ایرانیوں نے 80 کی دہائی میں تعمیر کی تھی۔ چاہ بہار بلوچ ماہی گیروں کی ایک بستی تھی 1621 میں پرتگالی جہازران الفانسو البقرق نے اس پر قبضہ کیا اور یہاں ایک چھوٹا قلعہ بھی تعمیر کیا ، برطانوی بھی اس پر قابض رہے۔ 70 کی دہائی میں اس کی تزویراتی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے رضا شاہ پہلوی نے یہاں ایک بڑے بحری اڈے اور فوجی بندرگاہ کی تعمیر کا منصوبہ بنایا، اس پہ کام شروع بھی ہوا لیکن یہ 1979 کے انقلاب کی نذر ہو گیا۔ ایران عراق جنگ کے دوران جب خلیج فارس کی ایرانی بندرگاہیں عراقی فضائی حملوں کی زد میں تھیں تو ایران کو ایک محفوظ بندرگاہ کی ضرورت محسوس ہوئی ، ایسی جگہ چاہ بہار سے بہتر اور کونسی ہو سکتی تھی چنانچہ 1983 ء میں شہید قلنطری پورٹ کی تعمیر کا آغاز کیا گیا ۔ اس سے پہلے موجود ایران کی سب سے بڑی بندرگاہ بندر عباس ڈھائی لاکھ ٹن کے بڑے کارگو جہازوں کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی اور ایسے جہاز متحدہ عرب امارات میں لنگر انداز ہوتے تھے وہاں سے سامان چھوٹے جہازوں میں لاد کر بندرعباس پہنچایا جاتا تھا جبکہ چاہ بہار کی شہید قلنطری پورٹ بڑے جہازوں کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی تھی جبکہ اس کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لئے بین الاقوامی پابندیوں کے شکار ایران کے پاس تکنیکی اور مالی وسائل کی کمی تھی ۔ پاکستان میں متعین ایرانی سفیر مہدی ہنردوست کے مطابق ایرانی حکومت نے اس ضمن میں چین اور پاکستان سے رابطہ کیا لیکن اسے کوئی مثبت جواب نہ ملا ۔ اس دوران دنیا کو چاہ بہار کی اہمیت کا احساس ہونے لگا اور اسے وسطی ایشیا کے لئے گولڈن گیٹ کا نام دیا گیا ۔ پاکستانی گوادر سے 72 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع چاہ بہار خشکی میں گھرے افغانستان کے لئے سمندر تک نزدیک ترین رسائی ہے صرف980 کلومیٹر ، جبکہ ترکمانستان کا سرحدی قصبہ سرخس 1827 کلومیٹر ہے ، سمندر کے راستے دبئی 650 کراچی 840 جبکہ ممبئی 1552 کلومیٹر ہے۔ 1992 ء میں ایران نے چاہ بہار کو فری ٹریڈ اور انڈسٹریل زون بنانے کا اعلان کیا تو بھارت نے اس کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے ایران سے رابطہ کیا اور یہ طے پایا کہ وہ ایران کو تکنیکی معاونت اور ضروری سامان مہیا کرے گا ایران خود شہید بہشتی بندرگاہ اور سڑک اور ریل پر کام جاری رکھے ، جیسے ہی ایران پر سے پابندیاں اٹھیں بھارت جنگی بنیادوں پر اس کے ساتھ کام شروع کرے گا اور مالی وسائل بھی مہیا کرے گا ۔ آج بھارتی گجرات کی کاندلہ پورٹ سے جو چاہ بہار سے 1000 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے ایک لاکھ دس ہزار ٹن گندم افغانستان پہنچ چکی ہے اور ایک ملین ٹن مزید آنی ہے . چاہ بہار سے افغان بارڈر تک سڑک مکمل ہو چکی ہے ریل پر کام جاری ہے ، جلد ہی ریل لنک کو ترکمانستان سے ملا دیا جائے گا. اس منصوبے کے علاوہ ایک اور بڑے منصوبے نارتھ ساؤ تھ کوریڈور پر کام تیزی سےجاری ہے جو ایرانی بندرگاہ بندرعباس کو آذربائیجان ، استراخان ، ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ کے راستے یورپ سے ملائے گا ، اس منصوبے میں بھارت ، ترکی ، عراق، شام ، آرمینیا اور دیگر وسط ایشیائی ریاستیں بھی شامل ہوں گی۔ ضمنا یہ بھی بتا دوں کہ چین کے شہر ارمچی سے ایک تجرباتی کارگو ٹرین تہران پہنچ چکی ہے۔ نارتھ ساؤ تھ کوریڈور سے کہیں بڑا گیم چینجر منصوبہ بھی پائپ لائن میں ہے جس کا ہمارے ہاں ابھی ذکر نہیں ہوا یہ ہے ایران رود یعنی دریائے ایران ، سویز اور پانامہ کینال طرز کی جہازرانی کے قابل ایک نہر جو بحیرہ کیسپین کو بحر ہند سے ملائے گی۔ گزشتہ دنوں روس میں ایرانی سفیر مہدی ثنائی نے سینٹ پیٹرز برگ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے ایران رود منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا . 2012 میں ایرانی وزیر توانائی مجید نامجو نے فارس نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے 7 ارب ڈالر کے اس مجوزہ منصوبے کا ذکر کیا تھا .بحیرہ کیسپین زمین سے محصور land locked سمندر ہے جس کے 7ہزار کلومیٹر طویل ساحل روس، قازقستان ، ترکمانستان، آزربائیجان اور ایران کے سانجھے ہیں ۔ اگر اسے خلیج فارس یا بحر اومان سے ملا دیا جائے تو روسی جہاز بحیرہ اسود سے درہ دانیال اور آبنائے باسفورس کے ہزاروں کلومیٹر طویل سفر سے بچ کر سیدھے بحرہند میں پہنچ سکتے ہیں جبکہ دیگر چار ممالک پہلی بار جہازرانی کے قابل ہو سکیں گے۔ پہلی بار 1998 میں روسی اور ایرانی ماہرین کی اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کے بارے میں مشترکہ رپورٹ چھپی تھی ۔ 1999 میں ایران پر بین الااقوامی پابندیاں لگنے کے سبب اس پہ کام آگے نہ بڑھ سکا ، پابندیاں اٹھنے کے بعد اب اس کی فائلوں سے گرد جھاڑ دی گئی ہے۔ اس کینال کے لئے دو روٹ تجویز کیے گئے ہیں ایک مغربی روٹ جو خیلج فارس کی بندرگاہ امام خمینی پر کھلے گا، یہ 950 کلومیٹر طویل ہو گا ، اس میں 350 کلومیٹر کے آبی راستے دریائے سفید ، دریائے اروند اور دریائے کارون پہلے سے موجود ہیں ، البتہ باقی 6سو کلومیٹر کوہ البرز اور کوہ زاگرس کی وادیوں میں سے گزریں گے جہاں کھدائی اور پہاڑ کاٹنا خاصا محنت طلب ہو گا۔ دوسرا مشرقی روٹ جو اگرچہ 1400 کلومیٹر طویل ہے لیکن ایک تو یہ آبنائے ہرمز کو بائی پاس کر کے بندر عباس اور چاہ بہار کے درمیان خلیج اومان پہ کھلے گا اور دوسرا یہ کہ اس میں کوئی بڑا پہاڑی سلسلہ نہیں ، اس کے آغاز میں دنیا کی سب سے بڑی خشک جھیل ارومیا ہے پھر دشت کاویر اور دشت لوت صحرا ہیں آخری حصے میں ہامون مرجان کی برساتی جھیلیں اور دریائے بامپور ہیں ۔ اس روٹ کا مطالعہ 1966 میں ایک ایرانی انجینئر ہمایوں فرزاد نے ذاتی دلچسپی پہ کیا تھا ، انہوں نے لکھا کہ اس سے ایک تو ارومیا جھیل دوبارہ بھر جائے گی دوسرا یہ کہ کیسپین کے پانی سے دشت کاویر اور دشت لوت کی پیاس بجھے گی ۔ کیسپین سائنٹیفک ریسرچ باکو کے سربراہ چنگیزاسماعیلوف اس منصوبے کی راہ میں حائل ہونے والی تکنیکی اور ماحولیاتی دشواریوں کا ذکر کرتے ہیں، زمین کی خریداری سیلاب اور زلزلوں سے بچاؤ اور پھر اتنی طویل اور جہازرانی کے قابل نہر کے لئے محض کنکریٹ کافی نہیں ہو گا کئی جدید مادے تلاش کرنا ہوں گے۔ روسی ماہر ایوان آندروسکی کہتے ہیں کہ کیسپین خلیج فارس کی سطح سے 28 میٹر گہرا ہے لہذا پانی کی سطح کنٹرول کرنے اور سیلاب سے بچاؤ کے لئے خصوصی ہائیڈرالک کنٹرول سسٹم نصب کرنا ہوں گے۔ سینٹرل ایشین سٹڈیز انسٹیٹیوٹ کے سربراہ آندرے گروزن کہتے ہیں کہ اگر political will اور مالی وسائل ہوں تو یہ منصوبہ تکنیکی حوالے سے کسی بھی طرح ناممکن نہیں ، دس ارب ڈالر ، دس سال اور یہ خواب حقیقت میں بدل جائے گا۔ یورپ میں بیٹھے ایرانی حکومت کے ایک مخالف جلاوطن ایرانی ماہر کا کہنا ہے کہ زار پیوٹن اور شہنشاہ خامینائی کا یہ منصوبہ چینی بادشاہوں کی دیوار چین جیسا ثابت ہو گا ، مالی وسائل ضائع کرو، لوگوں کو مصروف اور غریب رکھو اور فائدہ صفر ، بلکہ یہ نہر ماحولیات کے لئے تباہ کن ثابت ہو گی۔ آخر میں یہ خبر کہ کرپشن کی رپورٹوں پر چین کے سی پیک کے چند منصوبے موخر کر دیےگئے ہیں.
فیس بک کمینٹ