یروشلم ۔۔پاکستان کے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے مسلمان ملکوں پر بڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ بیشتر مسلم ممالک کے اسرائیل سے انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔ مگر ان کے حکمران اس بات کو راز رکھنا چاہتے ہیں۔اسرائیل کے معروف اخبارھاریڑز کی صحافی ڈانا ہرمن نے اپنے ایک مضمون میں دعوٰی کیا ہے کہ 2012 ءمیں جنرل مشرف نے ان کو بتایا کہ پاکستان کے عوام اسرائیل کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں۔ اسرائیل ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ صحافی کے مطابق سابق صدر نے انھیں بتایا کہ انھوں نے ستمبر 2005 میں اپنے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کو اسرائیل سے پاکستان کے تعلقات بہتر بنانے کی ذمہ داری دی۔اسرائیلی اخبار کے مطابق پرویز مشرف نے بتایا کہ دونوں وزرا ءکی ملاقات ترکی کے شہر استنبول میں ہوئی اور اس وقت پاکستان کے عوام بہت خوش ہوئے۔اخبار کے مطابق پرویز مشرف نے کہا کہ اسرائیل اور پاکستان میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔ پاکستان اسرائیل ہی کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے۔ ہمارے لوگ قرآن کی حرمت کے معاملات میں بہت حساس ہیں۔ صحافی کے مطابق پا کستان کے سابق صدر نے شکوہ کیا کہ پاکستان اسرائیل سے دوستی چاہتا ہے۔ مگر اسرائیل کا جھکاﺅ انڈیا کی طرف ہے۔اسرائیلی صحافی نے یہ دعوٰی بھی کیا کہ پرویز مشرف نے انھیں بتایا کہ فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لیے عربوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور اس سلسلے میں ترکی، پاکستان ،ملائیشیا اور انڈونیشیا زیادہ بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پرویز مشرف نے کہا کہ انھوں نے مذکورہ بالا ممالک کے حکمرانوں سے ذاتی طور پر ملاقاتیں کیں اور فلسطین کے امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو کہا۔پرویز مشرف نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 2006ءمیں ہمارے مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار ہو چکے تھے۔ مگر ایران کے صدر احمدی نژاد مسلسل ہماری کوششوں کی مخالفت کرتے رہے۔ اخبار کا دعوٰی ہے کہ اگر مشرف کی حکومت عدم استحکام کا شکار نہ ہوتی تو شاید وہ ایران کے وزیر اعظم کو امن کی کوششوں میں پیش رفت پر راضی کر لیتے۔اسرائیلی اخبار نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ جب پرویز مشرف کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو اسرئیل کے وزیر دفاع نے امریکی وفد کو بتایا کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی بہت پریشان کن ہے۔ "ہمارے لیے یہ ایک بھیانک خواب ہے۔ سب کچھ بدل گیا”۔اسرائیلی صحافی کے مطابق پرویز مشرف کو یقین ہے کہ وہ دوبارہ پاکستان میں حکومت بنائیں گے۔
فیس بک کمینٹ