پنجاب کے شہر قصور میں معصوم بچی کے اغوا جنسی تشدد اور پھر بیدردی سے قتل کے حالیہ واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے ، الیکٹرانک میڈیا ہو پرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ہر جگہ اس واقعے کا چرچا ہے ،دکھ کا اظہار،واقعے کے اسباب ، نتائج ،ایسے واقعات کو روکنے کی تدابیر زیر بحث ہیں۔۔۔۔۔ لیکن اس بات پر کسی نے غور نہیں کیا کہ ایسے شرمناک غیر انسانی اور لرزہ خیز واقعات تواتر کے ساتھ صرف ایک صوبے میں ہی کیوں ہو رہے ہیں ۔۔۔پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک گروہ نے سو سے زائد بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا ،اسی شہر قصور میں انسان نما بھیڑیوں کے ایک گروہ نے تین سو کے قریب بچوں کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا اور ان کی ویڈیوز بھی بنائیں، اور آٹھ سالہ معصوم زینب بھی درندگی کا نشانہ بننے والی پہلی بچی نہ تھی ،صرف ایک سال کے دوران میں یہ بارہواں سانحہ تھا، پنجاب کے طول وعرض میں آئے دن ایسے واقعات اخبارات کے صفحات پہ نمایاں ہوتے ہیں،کچھ عرصہ قبل میڈیا پہ لاہور میں غائب ہونے والے 77 جبکہ پنجاب بھر میں ایسے سینکڑوں بچوں کا تذکرہ ہوا جن کا کوئی سراغ نہ مل سکا ،علاوہ ازیں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور ان کے قتل کے واقعات،خواتین کے ساتھ زنا بالجبر اور گروہی زنا کے واقعات اکثر وبیشتر رپورٹ ہوتے ہیں ۔ دیگر صوبوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پنجاب کے ساتھ کوئی موازنہ ہی نہیں بنتا، آپ کو سندھ میں کچھ واقعات ملیں گے ،خیبرپختونخواہ میں اکادکا واقعات جبکہ بلوچستان میں نہ ہونے کے برابر۔ چاروں صوبوں کی آبادی کی بہت بڑی اکثریت ایک ہی دین اسلام سے تعلق رکھتی ہے،پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مذہبی کٹرپن دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ ہے ، سماجی معاشی اور معاشرتی عوامل چاروں صوبوں میں کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں ،طبقاتی اور جاگیر دارانہ نظام چاروں صوبوں میں ایک ہی شدومد سے ہے بلکہ سندھ اور بلوچستان میں وڈیرہ شاہی اور سرداری نظام سندھ اور پنجاب کی نسبت زیادہ مضبوط ہے پھر ان انسانیت سوز جرائم کا مرکز پنجاب ہی کیوں، اس پر سماجیات اور علوم معاشرت کے ماہرین کو غور کرنا چاہیے۔۔۔۔۔
راقم الحروف غور وفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ گزشتہ تین دہائیوں سے اس صوبے پر چلی آنے والی ایک خاندان کی حکومت ہے جس نے اداروں کو بے حیثیت اور بے معنی کر دیا ہے، پولیس بیوروکریسی اور عدلیہ میں ذاتی اور خاندانی وفادار پیدا کیے ہیں جو ملک وقوم اور آئین و قانون سے زیادہ اس خاندان کے وفادار ہیں ۔ 1985 میں پنجاب میں برسر اقتدار آنے والے شریف خاندان نے بڑی ہوشیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ پولیس انتظامیہ اور عدلیہ میں اپنے وفادار بھرتی کیے، ان کے لگائے ہوئے اے ایس آئی آج ایس ایس پی اور ڈی آئی جی ہیں ،ان کے بھرتی کردہ پٹواری اب تحصیل دار ہیں،ان کے لگائے ہوئے بعض نائب تحصیلدار تو بیوروکریسی میں انتہائی اعلی عہدوں پر پہنچ گئے ہیں، ان کے لگائے ہوئے سول جج ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں پہنچ گئے ہیں، عدلیہ کے حوالے سے میرے قارئین کو جسٹس قیوم ملک کو میاں شہباز شریف کے احکامات کی لیک شدہ گفتگو اچھی طرح یاد ہو گی جو اس خاندان کے طرز حکمرانی کی واضح مثال ہے ۔ پنجاب کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او شہباز شریف خود لگاتے ہیں اور ان کا سب سے بڑا میرٹ ذاتی وفاداری ہوتا ہے ۔
اسی طرح تمام ایم پی اے اور ایم این ایز نظریے یا جماعت کے نہیں خاندان کے وفادار ہوتے ہیں، پنجاب کے ایک ایم این اے اور موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی مثال لیں جو تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ میرے وزیراعظم نواز شریف ہیں اور وہ کئی بار وزیر اعلیٰ پنجاب کی طلبی پر لاہور حاضر ہو چکے ہیں۔
چونکہ یہ خاندان خود کو بادشاہ اور آئین و قانون سے بالاتر سمجھتا ہے لہذا ان کے وفادار سرکاری افسر اور ارکان اسمبلی بھی کسی قانون کو خاطر میں لانے کے قائل نہیں ، تمام فیصلے ارکان اسمبلی کے ڈیروں پہ ہوتے ہیں پولیس اور انتظامی افسر ان کے ڈیروں پر حاضریاں دیتے ہیں۔
عوام کو دبا کر رکھنے اور ان کے ووٹ چھیننے کے لئے ارکان اسمبلی نے ایک اور طبقہ سفید پوش بدمعاشوں کا تیار کر رکھا ہے جن کی مجرمانہ جڑت تھانیداروں کی ساتھ ہوتی ہے ، ان کے ڈیرے بھی جبر اور جرائم کے مرکز ہوتے ہیں ،یہی لوگ جوا شراب منشیات اور قحبہ گری کے اڈے چلاتے ہیں ، زمینوں اور پلاٹوں پر قبضے کرتے ہیں ،بھتہ خوری کرتے ہیں ، چوری ڈکیتی کراتے ہیں، ایسے ہی اڈوں پہ بچوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں اور ان کی ویڈیوز بنتی ہیں اور جب ان مظالم کی خبریں میڈیا پر آتی ہیں یا لوگ ان کے خلاف اٹھتے ہیں تو رانا ثناء اللہ جیسے وزیر ان بدمعاشوں کی صفائیاں دیتے ہیں کہ ان کا تو زمین کا جھگڑا تھا ،یہ تو سیاسی مخالفت کا شاخسانہ ہے۔
آپ اعدادوشمار دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ پاکستان میں جرائم کی شرح سب سے زیادہ پنجاب میں ہے، کراچی سے بھی کہیں زیادہ ، اور یہ بھی قابلِ غور ہے کہ جب یہ خاندان سعودی عرب میں تھا اور پنجاب پر چودھری پرویز الٰہی کی حکومت تھی تو صوبے میں جرائم کی شرح حیرت انگیز طور پہ کم ہو گئی تھی۔
اس خاندان نے اداروں کے اختیارات طاقت ور افراد اور مافیاز کے حوالے کر دیے ہیں لہذا قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا ہے ،قانون سے بالا تر افراد کا ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہو گیا ہے ، صنعت کاروں کے اس خاندان نے پنجاب پر بدترین فیوڈل نظام مسلط کر دیا ہے۔ لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ وہ کوئی بھی جرم کر کے اپنے سماجی مرتبے ،سیاسی تعلق یا رشوت کی بنیاد پر چھوٹ جائیں گے لہذا انسانیت سوز جرائم میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔
اور جب تک پنجاب کی پولیس انتظامیہ اور عدلیہ کو شریف خاندان اور ان کے ذاتی وفاداروں کے چنگل سے چھٹکارا نہیں دلایا جائے گا یہ صوبہ مجرموں کے لئے جنت اور عام لوگوں کے لیے جہنم بنا رہے گا۔
فیس بک کمینٹ