ایک طویل مگر انتہائی خوش گوار اور رومانس بھری پرواز کے بعد گلف ایئر کا خوبصورت اور جدید بوئنگ طیارہ شہر دلبراں و گل عذاراں لندن کے معروف اور شاندار ہیتھرو ائیرپورٹ پر اترنے لگا، لندن کا تاریخی اور تہذیبی شہر جس نے صدیوں دنیا پر حکمرانی کی اور آج بھی ایک عالم کی تہذیبوں کو متاثر کر رہا ہے، ہماری پیاسی نظروں کے سامنے اور ہمارے مسافر قدموں کے نیچے بچھا ہوا تھا،عظیم دریائے ٹیمز جسے عظیم تر شعراء نے اپنی ابدی شاعری کا موضوع بنایا ہے اپنے نیلونیل ازلی پانیوں میں بےشمار کشتیوں اور جہازوں کو سموئے کسی نامعلوم منزل کی جانب بہا چلا جا رہا تھا، یہ بہاؤ ہی تو حیات ہے اور یہی تو بقائے کائنات ہے ،کہکشائیں سیارے ستارے سبھی بہاؤ میں ہیں ،نامعلوم منزل کی جانب سفر کا اپنا ہی ایک لطف ہے ، جہاں کوئی شناسا سنگ میل نہیں ہوتے ، معلوم آبادیاں نہیں ہوتیں ،آشنا لوگ نہیں ہوتے ، اور کسی پڑاؤ پہ آپ کی آبلہ پائی کا انعام کسی حسین چہرے کی شکل میں آپ کے سامنے آتا ہے اور ایک ملکوتی تبسم آپ پہ نچھاور کرتا ہے اور وہ لمحہ آپ کی یادداشت میں امر ہو جاتا ہے، ہم ایسے ہی کئی امر لمحوں کی حسین یادوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ ایک مترنم آواز سے چونکے تو دیکھا کہ ایک اور یادگار لمحہ مجسم کھڑا تھا، یہ بزنس کلاس کی ایک حسین ایئر ہوسٹس تھی جو دوران پرواز ایک آدھ بار ہی اپنی کولیگز سے مسکراہٹوں کا تبادلہ کرنے اکانومی کلاس میں آئی تھی اور ایک نگاہ غلط انداز مسافروں پہ بھی ڈال گئی تھی، غرور کی کئی اقسام ہیں لیکن غرور حسن سب پہ بھاری ہے اور ہماری ناقص رائے میں یہ واحد غرور ہے جو جائز ہے ،
وہ مغرور حسینہ تشویش بھرے تبسم کے ساتھ ہم سے مخاطب تھی ، سر ہم لینڈ کر چکے ہیں خیریت تو ہے آپ اٹھ نہیں رہے، معاف کیجئے گا ہم شاعر اور لکھاری ہیں ہمارے تصورات اور تخیلات کبھی بھی کہیں بھی ہم پہ حاوی ہو جاتے ہیں۔۔ سر یہ کوئی اچھی بات نہیں، میرا ایک بوائے فرینڈ بھی شاعر تھا اور آپ کی طرح اچانک کھو جانے والی بیماری میں مبتلا تھا ،ایک بار اچانک سڑک پار کرتے ہوئے ایک تیزرفتار گاڑی کی زد میں آ کر عمر بھر کے لئے اپاہج ہو گیا۔۔۔۔ آپ محتاط رہا کیجیے اور اب اٹھ جائیے۔۔ ہم نے اس کی غزالی آنکھوں میں نمی سی تیرتی دیکھی ، ہمیں یاد آیا کہ کچھ دیر قبل ہم نے لنچ ٹرے میں سے ایک ٹشو پیپر اٹھا کے جیب میں ڈال لیا تھا ،ہم اس کی اشک شوئی کے ارادے سے ٹشو نکالنے کے لیے جیب ٹٹول ہی رہے تھے کہ وہ برق رفتاری سے مڑی اور ہمیں ششدر چھوڑ کے چلی گئی۔۔۔۔۔ جہاز مسافروں سے خالی ہو چکا تھا ، ہم نے جلدی سے دستی بیگ اٹھایا جس میں ہماری بیاض ڈائری پنج سورہ کیمرہ اور کچھ ادویات ہوتی ہیں اور جہاز کے خارجی دروازے کی طرف بڑھے ، کائنات ہمہ وقت تبدیلی کا شکار ہے ، دو ڈھائی پہر قبل یہی دروازہ داخلی دروازہ تھا ، اس سے قبل کہ ہم داخلیت کو خارجیت میں بدلنے والے عوامل پہ غور کرتے ایک اور حسین فضائی میزبان ہم سے مخاطب ہوئی اور موسیقیت بھرے لہجے میں بولی سر امید ہے ہمارے ساتھ آپ کا سفر خوش گوار گزرا ہو گا اور آپ آئندہ بھی آپ ہمارے ساتھ سفر کرنا پسند کریں گے ۔۔۔ اب ہم اسے کیا بتاتے کہ ہم تو پورا جیون بلکہ سات جنم اس کے ساتھ سفر حیات گزارنے کو تیار ہیں۔۔۔۔ اس نازنیں کا شکریہ ادا کیا اور سرخ قالین بچھی ایک سرنگ میں سے گزرتے ہوئے لاؤ نج میں داخل ہوئے۔
ہم لگیج ڈھونے والے متحرک پلیٹ فارم کے پاس کھڑے ہو گئے جلد ہی ہمارا سفر سفر کا ساتھی سوٹ کیس آ پہنچا ،ہم اسے اٹھا کے چلنے لگے تھے کہ خوبصورت چمکتی اور کڑکڑاتی ہوئی یونیفارم میں ملبوس دو جوان رعنا اور دو حسین پریاں ایکسکیوز اس سر کہتی ہوئی مسکراتی ہوئی ہماری جانب بڑھیں ، ایک پری کے ہاتھ میں ایک پیارے سے کتے کی زنجیر تھی ، اس سگ لیلیٰ نے آگے بڑھ کر ہمارے سوٹ کیس کی خوشبو سے اپنے مشام جاں کو اچھی طرح معطر کیا ، پھر ہمیں سونگھنا شروع کیا ، جب وہ دو ٹانگوں پہ کھڑا ہوا تو اس کی پیاری سی تھوتھنی ہمارے کندھوں تک پہنچ گئی اور ہم نے اس کی گرم سانسوں کو اپنے چہرےمحسوس کیا ، ہمارے لندن میں مقیم دوست غریب الوطن لائلپوری نے ہمیں بتایا تھا کہ اگر آپ نے کسی انگریز حسینہ کے کتے پر اس سے کم توجہ دی تو وہ آپ کو غیر مہذب سمجھے گی چنانچہ ہم سویٹ اینڈ لولی ڈوگ کہتے ہوئے کتے کی پشت سہلانے کے لئے جھکے جسے اس حسینہ نے تو پسند کیا لیکن کتے نے پسند نہیں کیا اور ایک ہلکی سی احتجاجی بخ کر کے دور ہٹ گیا۔
سگ بدست حسینہ اور ایک مرد افسر میرا شکریہ ادا کر کے چلے گئے ، جبکہ دوسری حسینہ اور مرد افسر ۔۔۔۔مرد افسر بھی اچھا خاصا غلمان ہی تھا، اپنے ملک کے وردی والے اہلکاروں پہ نظر ڈالیں، توندیں نکلی ہوئی بڑی بڑی مونچھیں یا بےہنگم داڑھیاں، خشونت بھرے چہرے ،بدزبان اور بدتمیز،خواتین اہلکار بھی بدصورت موٹی بھدی اور مردوں جیسی ہی بدتمیز ، مغرب یقیناً مغرب ہے ،تہذیب ابھی تک مشرق یا کم ازکم برصغیر نہیں پہنچی۔
ہاں تو ان دو افسروں نے لجاجت بھرے لہجے میں ہم سے کہا سر آپ کو زحمت تو ہو گی لیکن یہ بھی ایک ضروری فارمیلٹی ہے، رولز کی پاسداری کرنی پڑتی ہے، پلیز سر ہمارے ساتھ آئیے،سامان یہیں چھوڑ دیجیے ۔
وہ ہمیں ایک چھوٹے سے ،فرنیچر سے محروم، مگر صاف شفاف کمرے میں لے گئے ،اس میں دیواروں کے ساتھ کچھ نامانوس مشینیں نصب تھیں، خاتون افسر ۔۔بچی ہی تھی۔۔ بولی سر زحمت نہ ہو تو جوتے اتار دیجئے اور جرابیں بھی ، ہم نے جوتے اور جرابیں اتار دیے، غلمان افسر انہیں چیک کرنے لگا ، پھر اس بچی نے کہا سر پتلون کی بیلٹ اتار دیجئے ، ہم نے بیلٹ نکالی تو وہ بولی سر آپ نے زیرجامہ تو پہن رکھا ہو گا ہم نے ہاں میں سر ہلایا تو وہ عاجزانہ لہجے میں بولی سر پتلون بھی اتار دیجئے، ایسے پیار اور لجاجت بھرے لہجے میں ایک آسمانی حور جیسی حسینہ کہے تو ہم سر بھی اتار کے دینے کو تیار تھے، یہ تو محض پتلون تھی قدرت کے عطا کردہ سچے جسم پہ چڑھایا گیا ایک جھوٹا تہذیبی لفافہ…. ہم نے پتلون اتار کر اس کی خدمت میں پیش کر دی ،اور شرٹ اتارنے لگے تو اس نے کہا نہیں رہنے دیں۔۔ چلیں اب پتلون پہن لیں ،اور جوتے بھی ، پھر انہوں نے کافی دیر ہم سے معذرت کی اور ہمارے تعاون کا شکریہ ادا کیا ، جب ہم کمرے سے باہر نکل رہے تھے تو وہ حسینہ مسکراتے اور لجاتے ہوئے بولی سر ناراض نہ ہوں تو ایک ذاتی بات کہوں، آپ کی کتنی شاندار مردانہ شخصیت اور قدوقامت ہے ،یہ توند آپ کو زیب نہیں دیتی ،وہ ہم سے ہاتھ ملا کر چلی گئی، ہم جانے کتنی دیر اس کے دست حنائی کے لمس سے معطر اپنے ہاتھ کو وفور جذبات سے تکتے سرخوشی اور شرمندگی کا ملا جلا احساس لئے کھڑے رہے، ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں چاہے کتنی ورزشیں اور کتنے فاقے کرنا پڑیں اس نامراد توند سے چھٹکارا حاصل کر کے رہیں گے۔امیگریشن وغیرہ کے مراحل سے گزر کے باہر نکلے تو ہمارے دوست اور میزبان برادران عزیز غریب الوطن لائل پوری اور جلاوطن مرادآبادی بھابھیوں سمیت ہمارے پرتپاک استقبال کے لئے موجود تھے ، اور وہ ورکنگ ڈے کے باوجود ہمیں لینے بریڈفورڈ سے یہاں آئے تھے، ان کی محبت دیکھ کر ہماری آنکھوں کے گوشے نم آلود ہو گئے ۔۔
بھائی غریب الوطن لائلپوری کا نام چودھری عبدالشکور ہے ، بولے دی جھگی فیصل آباد سے تعلق ہے ،بریڈفورڈ میں حلال گوشت کے ایک بڑے سٹور پر کام کرتے ہیں ، باکمال شاعر ہیں، ان کے ساتھ کیتھرین بھابھی بھی آئی تھیں، نسوانی وجاہت کا شاہکار ہیں ، اپنی عمر سے دس سال چھوٹی لگتی ہیں ، اگرچہ مغربی لباس میں ملبوس تھیں مگر اس میں حیا کا عنصر موجود تھا، سکرٹ گھٹنوں سے زیادہ اوپر نہیں تھی اور بلاؤ ز بھی کچھ زیادہ نمائش نہیں کرتا تھا۔۔بھائی جلاوطن مرادآبادی کا اسم گرامی عبدالقدوس ہے پہلے فتنہ تخلص فرماتے تھے پھر عبدالشکور سے متاثر ہو کر جلاوطن رکھ لیا، ایک وائن شاپ چلاتے ہیں لیکن خود نہیں پیتے، بھابھی شبنم آرا کا تعلق بھی بھارت سے ہے ،ایک پب میں ویٹریس تھیں ان کا تعلق ایک ہندو فیملی سے ہے شانتی بائی نام تھا ،مشرف بہ اسلام ہو کر بھائی عبدالقدوس کے نکاح میں آئیں ، ساڑھی پہنتی ہیں اور بندی بھی لگاتی ہیں ،ملیح رنگت ہے ہندوستانی حسن کا شاہکار ہیں۔۔
ہم بھائی عبدالقدوس کی کار میں بیٹھ گئے اور دو گاڑیوں پر مشتمل یہ کاروان محبت سوئے بریڈفورڈ روانہ ہو گیا۔
فیس بک کمینٹ