یہاں کسی انقلاب کے دور دور تک کوئی آثار نہیں، یہاں لاکھوں پیروکار اور ہزاروں عسکری تربیت یافتہ افرادی قوت رکھنے والے لوگ بھی طالبانی یا ایرانی طرز کا انقلاب نہیں لا سکتے چہ جائیکہ چند سو مارکسسٹ کوئی پرولتاری انقلاب لانے کا خواب دیکھیں، تبدیلی کی دعویدار تیسری قوت کے کارنامے بھی سب کے سامنے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہاں اسی بری بھلی لنگڑی لولی پارلیمانی جمہوریت کو ہی چلنا ہو گا اور چلنے دینا ہو گا۔ اس وقت تمام ادارے خود کو مضبوط کرنے اور اختیارات حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔بعض عدالتی فیصلوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن عدلیہ مضبوطی کی طرف جا رہی ہے اور مضبوط عدلیہ کی اہمیت اور ضرورت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، اور عدلیہ کو اپنی پالیسیوں پہ کوئی یوٹرن نہیں لینا چاہیئے۔فوج نے پہاڑ جیسی غلطیاں کی ہیں لیکن وہ اب انہیں سدھار بھی رہی ہے ، آرمی چیف پارلیمنٹ میں گئے، انہوں نے گزشتہ چالیس سال کی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا، فوج نے اپنی ہی غلطیوں یا مجبوریوں سے پیدا کردہ عسکریت پسندوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی، یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اگر ایک مضبوط اور منظم فوج نہ ہوتی تو ہمارے مغربی مہربان پاکستان کو بھی عراق افغانستان، یمن اور شام بنا چکے ہوتے۔۔ اگرچہ اب بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
آخر میں بات کریں پارلیمنٹ کی، پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت نے بہت کام کیا، صدر زرداری اپنے اختیارات سے دستبردار ہوئے ، آئین میں ترامیم کر کے اس کی اصل پارلیمانی روح بحال کی گئی، اگرچہ نون لیگ کے افتخار چودھری اور اسٹیبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ کی وجہ سے پارلیمان کو اس کی مثالی بالادستی حاصل نہ ہو سکی، پیپلز پارٹی کی حکومت کو پریشان کرنے کے لئے نون لیگ نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ بدقسمتی سے انہوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے اور الیکشنز میں بڑی کامیابی حاصل کرنے کے لئے حسب روایت افتخار چودھری اور جنرل کیانی کا سہارا لیا۔۔۔ نوازشریف کی شہنشاہ بننے کی خواہش کے نتیجے میں جب پارلیمانی نظام خطرے سے دوچار ہوا تو پیپلز پارٹی نے غیر مشروط طور پر نوازشریف کا ساتھ دیا، لیکن نوازشریف نے پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی بجائے روایتی محلاتی سازشوں کا سہارا لیا۔ اور آج جب ان کے خاندان کا تخت ڈول رہا ہے تو وہ نا صرف انقلابی،نظریاتی اور مزاحمتی ہونے کا ڈرامہ کر رہے ہیں بلکہ فوج عدلیہ اور بیوروکریسی سمیت تمام اداروں کی تباہی کے درپے ہیں، وہ عدلیہ اور نیب کے پر کترنے کے لیے آئینی ترمیم کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں ، بیوروکریسی کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ وہ پہلے بھی فوج کو آپس میں لڑانے ،عدلیہ کو تقسیم کرنے اور بار اور میڈیا کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی روایت رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ ضیاء الدین بٹ اور رفیق تارڑ فینومینا ذہن میں لائیے۔
آج ہماری معیشت اور خارجہ پالیسی جس ابتری کا شکار ہے ، ہمارے خطے میں جو حالات ہیں، مغربی طاقتیں جس طرح ہمیں شمالی کوریا بلکہ صومالیہ بنانے کے درپے ہیں، تمام اداروں کو اپنی اپنی اناؤ ں کی قربانی دینا ہو گی اور اپنی اپنی حدود میں رہ کر ملک کی بقا و سلامتی کے لئے کام کرنا ہو گا۔۔جمہوریت اور پارلیمان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔۔۔
لیکن امیر المومنین اور صاحب السمو ذہنیت رکھنے والے نوازشریف کو روکنا بہت ضروری ہے۔۔۔
میں نے زرداری صاحب سے اختلاف کا اظہار کیا تھا لیکن اب میں ان کی اس بات سے متفق ہوں کہ میاں صاحب پاکستان کے لئے ایک بوجھ بلکہ ناسور بن چکے ہیں۔
فیس بک کمینٹ