معلوم نہیں دونوں میں سے کیا زیادہ تکلیف دہ ہے۔پورا راستہ طے کرنے کے بعد آپ کو پتہ چلے کہ آپ غلط منزل پر پہنچے ہیں۔یا آدھا راستہ طے کرنے کے بعد معلوم ہو کہ آپ غلط راستے پر ہیں۔شائد دوسری حالت زیادہ تکلیف دہ ہے،کیونکہ اس صورت میں یہ مشکل فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ سفر پورا کیا جائے یا واپسی اختیار کی جائے، یا پھر اس سفر میں کوئی بیچ کا راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے جو منزل کی طرف نہ جاتا ہو، مگر منزل جیسے کسی راستے کی جانب لے جائے۔ یہ الفاظ ایک ایسے دوست کے تھے، جو اپنی شادی شدہ زندگی کے اتار چڑھاﺅ لے کر پریشان تھا، لگتا تھا گھر ٹوٹ جائے گا،اور ایک ہی بیٹی کہ جس سے وہ بہت پیار کرتا ہے، اس کی ،غلطیوں کی سزا کاٹے گی۔ ہر کامیاب انسان کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا،اور راقم الحروف کی زندگی کے مشاہدات یہی بتاتے ہیں کہ وہ ہاتھ زندگی کی پہلی تین دہائیوں میں ماں اور پھر بیوی کا ہوتا ہے۔ یہ کوئی بہت جامع تحقیق نہیں ہے، مگر اکثر کامیاب انسانوں میں Successful couple کی اصطلاح کا پایا جانا اسی بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مرد کو اچھی عورت اور عورت کو اچھا مرد مل جائے تو وہ ایک دوسرے کے لیے سیسہ پلائی دیوار کا کام کرتے ہیں اور دونوں ہی اس میں محنت، لگن،جستجو ڈال کر کسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں یہ امر بہت ضروری ہے کہ ان کا ملاپ کامیابی حاصل کرنے کے بعد ہوا یا یہ دونوں اس جہد کے دوران ایک دوسرے کے جیون میں آئے کہ جب وہ کچھ بھی نہیں تھے۔ بالی وڈ کے مشہور اداکار شاہ رخ خان اورگوری خان ، ہالی وڈ کے انجلینا اور بریڈپٹ سے لے کر امریکی صدر اوباما اور مشعل جیسے کئی افراد ایسے ہیں جو خالصتا Successful couple کی اصطلاح پر پورے اترتے ہیں،جن کی پوری زندگی محنت سے عبارت ہے، جنہوں نے صفر کو سینکڑوں میں تبدیل کیا، اور ان کی جہد آج بھی جاری ہے۔راقم الحروف نے جن مشاہدات کا ذکر کیا،ان میں سب سے بڑا مشاہدہ خود ذاتی زندگی میں اپنے والدین کا تھا۔ والد ایک معمولی کلرک کے بیٹے تھے اور گھر میں غربت اپنے عروج پر تھی، انہی حالات میں سخت محنت کی ، مگر کسی طور سرکاری میڈیکل کالج میں پہنچ گئے،ایسی ہی محنت کرتی ایک اور ہستی بھی اسی جماعت میں ،اسی کالج میں پہنچی کہ جو گیارہ ماہ کی عمر میں یتیم ہوگئی تھی اور پوری عمر ماں کی سلائی مشین پر پلتی یہاں تک پہنچی تھی۔یہ کوئی Love Game نہیں تھا،یہ قسمت کا ملاپ تھا، دونوں کی شادی ہوگئی۔دونوں نے سخت ترین حالات میں محنت جاری رکھی، ایک دوسرے کے لیے دیوار کا کام کرتے رہے اور بالآخر ،اسی ہسپتال میں سب سے بڑے ڈاکٹری کے عہدوں پر پہنچ گئے۔دونوں اعلی سرکاری گریڈ کے پروفیسر بن گئے، اپنے اپنے شعبوں کے سربراہ بن گئے ، اور اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹس کو بھی سرکاری ہسپتال کے سب سے بہترین محکموں میں تبدیل کردیا،اس دوران زندگی میں نجانے کتنے اتار چڑھاؤ آئے، دونوں نے ذاتی طور پر بدترین بیماریوں سے بھی جنگ کی، اولاد کو بھی خوب پڑھایا، پچھلوں کے حالات بھی سدھارے اور یہ جہد آج بھی جاری ہے۔ کس طرح جوڑوں کی دیوار ایک دوسرے کو سہارا دیتی ہے،اس پر مشاہدہ زیادہ ہی بڑھنے لگا،اور قسمت راقم القلم کو اپنے ملک کے معدہ اور جگر کی بیماریوں کے سب سے جدید یونٹ میں ٹریننگ میں کھینچ لائی۔یہ صرف قسمت ہوسکتی کہ جوڑوں کے مشاہدہ کی امثال ذاتی زندگی سے شروع ہوکر، خون میں شامل کرنے کے لیے یہاں ملاقات دو ایسے شفیق اساتذہ سے ہوگئی، جنہوں نے اپنا آپ پوری دنیا میں منوایا۔ والدین کی طرح ، روحانی والدین نے بھی شروعات ایسی ہی کیں، اور پھر وہ وقت بھی آیا جب ڈاکٹر بشری خار 1979ءمیں اپنے کالج کے بہترین گریجویٹ بن گئیں اور اپنے ہی ہم جماعت ڈاکٹر محمد عمر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ یہاں پھر قدرت کا بہترین Fusion ہوا، اور ایک دوسرے کے لیے دیوار کا کام کرتے ،یہ دونوں اساتذہ ،اس قدر بلندیوں پر پہنچ گئے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر اپنے ہی کالج و ہسپتال سے سب سے بڑے سرکاری عہدے پر فائز ہوگئے اور پرنسپل بن گئے اور پروفیسر بشری نے یونٹ کی سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ ، پروفیسر عمر کا اتنا ساتھ دیا کہ دونوں نے میڈیسن کے شعبے میں انقلاب برپا کردیا۔ دونوں نے ہی میڈیسن کا انتخاب کر رکھا تھا،اور دونوں ہی معدہ اور جگر کی بیماریوں میں عبور حاصل کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا چکے تھے، جہاں اپنی اولاد کو بھی اسی شعبے کی طرف مائل کرتے بہترین تعلیم دینے بیرون ملک بھیجا ،وہیں سرکار کی توجہ اس ملک کے سب سے بڑے مسئلے ہیپاٹائٹس کی طرف دلوا دی۔ یوں بے شمار غیر ملکی دوستوں کے فنڈز، سرکاری امداد،ذاتی محنت سے کئی کروڑ روپے کی لاگت سے ملک کا سب سے بڑا ’ معدہ و لیو ر سنٹر‘ تعمیر کیا گیا۔ یہ پورے ملک میں جگر اور معدے کی بیماریوں کا سرکاری سطح پر سب سے جدید اور بڑا سنٹر ہے۔اس ادارے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں دنیا کے سب سے بڑے معدہ جگر کے ڈاکٹر،David Carr-Locke سمیت ، دنیا بھر سے جگر کی پیوندکاری کی بنیاد رکھنے والی چینی و دیگر غیر ملکی ڈاکٹروں کی ٹیمیں متعدد وورکشاپس اور سیمینار منعقد کروا چکی ہیں۔ دیوار کا کام کرتا ، جگر کی پیوندکاری سے منسلک دنیا بھر میں ٹرانسپلانٹ کی بنیاد رکھنے والا جوڑا پروفیسر زی چاؤ اور پروفیسر سن لی ، پروفیسر لی پینگ کے ساتھ ،حال ہی میں جہاں پنجاب کی سرکار کے ساتھ جگر کی پیوندکاری کا معاہدہ کرنے آیا،وہیں وہ اپنے تین روزہ دورے کے ڈھائی دن اس لیور سنٹر میں گزار کر گیا اور جاتے جاتے جب یہ چینی الفاظ سماعتوں سے ٹکراتے سنائی دیے کہ یہ سنٹر ہمارے جگر سنٹر سے زیادہ خوبصورت اور جدید ہے تو راقم الحروف کو والدین کی محنت سے عبارت زندگی کی جھلک ، پروفیسر عمر،بشری اور پروفیسر چاؤ اور سن لی کی شکل میں دکھائی دینے لگی۔ انسان کی زندگی کا سب سے اہم موڑ ،اس کے جیون ساتھ کا چناﺅ ہوتا ہے۔ یہ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا جوا ہے ۔ حیران کن حد تک یہ جوا اکثر قدرت خود کھیلتی ہے اور کبھی کبھار آپ غلط راستوں کے مسافر ہوکر،واپسی کی تکلیف کی سوچ میں پڑ جاتے ہیں اور کبھی کبھار ،آپ کا جوڑ ایسا بن جاتا ہے کہ آپ پوری دنیا کو حیران کردیتے ہیں۔ یوں یہ ملاپ جہاں شاہ رخ اور گوری پیدا کرتے ہیں، وہیں پوری دنیا میں اپنے اپنے شعبوں میں انقلاب پیدا کرتے پروفیسر عمر ،بشری ، پروفیسر چاؤ ، سن لی اور پروفیسر قیصر ، نسرین جیسے لوگ بھی پیدا کرتا ہے۔ جوڑوں کی اس دیوار میں دراڑیں بھی پڑتی ہیں، لوگ انہیں توڑ کر راستے بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں،اس دیوار کو موسمی سیم بھی لگتا ہے اور کبھی کبھی یہ دیوار تیز آندھیوں میں ڈگمگانے بھی لگتی ہے، مگر اگر مقصد بڑے ہوں، قسمت ساتھ ہو اور سب سے بڑھ ایک دوسرے کی برداشت،ان پر بھروسہ اور محنت ساتھ ہو ،تو منزل آسان ہوجاتی ہے، پھر آپ کو جہاں ایک تھرڈ ورلڈ ملک میں ، ترقی یافتہ ملکوں سے زیادہ جدید لیور سنٹر کھڑے نظر آتے ہیں ،وہیں پوری دنیا بھی آپ کی قابلیت کو سلام کرتی دکھائی دیتی ہے۔شاید تب کوئی کسی غلط راستے کا مسافر بنتا دکھائی نہیں دیتا۔ جوڑوں کی دیوار ، جتنی مضبوط ہوتی ہے، اتنا ہی اس میں کئی اور زندگیوں کو سہارنے کی طاقت ہوتی ہے اور یہی طاقت انسانیت کو امر کردیتی ہے۔
فیس بک کمینٹ