امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ساتھ لاس اینجیلس سے ملحقہ سان فرنینڈو ویلی ایک حسین وادی ہے۔دریائے لاس اینجیلس کی طرح اس وادی کی تاریخ بھی صدیوں پرانی ہے۔ یہ وادی 1970ءکی دہائی تک شائد امریکہ سے باہر کسی اور دیس کے باسیوں کی زبانوں تک نہیں آئی تھی۔ قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ انسانی حسن سے مالا مال اس وادی کے دامن سے سیلیکون ویلی کا ظہور ہوا۔یہ نام مائیکرو سافٹ اور کمپیوٹر سافٹ وئیر بنانے میں کمال حاصل کرنے پر رکھا گیا۔ترقی کے عروج کے ساتھ اس وادی میں دنیا کی پہلی ملٹی ملین ڈالر پورن انڈسٹری لگائی گئی۔ اس انڈسٹری کے لگانے والوں میں ایک ایسا امریکی بھی شامل تھا، جو زرد ملکوں یعنی تھائی لینڈ اور امریکا کے درمیان انسانی سمگلنگ کے دھندے میں ملوث تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ انڈسٹری پوری سٹیٹ کیلیفورنیا کی سب سے زیادہ سرمایہ دینے والی انڈسٹری بن گئی۔اب گمان یہ ہونے لگا کہ پورن انڈسٹری کا کاروبار امریکہ کی باقی ریاستوں میں بھی پھیل جائے گا اور پورے امریکہ پر ترقی یافتہ ملک کی بجائے فحش فلموں کی سب سے بڑی انڈسٹری کا لیبل لگ جائے گا، چنانچہ خود حکومت نے ایسے قوانین مرتب کیے اور سیلیکون وادی کو پرکشش مراعات دی گئیں کہ یہ انڈسٹری صرف لاس اینجیلس،سان فرنینڈو وادی تک محدود ہوگئی، مگر اس کی تشہیر میں خود حکومت بھی اس قدر شامل ہوگئی کہ پوری دنیا میں سیلیکون وادی کی فلموں کو ہی اس انڈسٹری کی معراج مانا جانے لگا۔ اس سب کاروبار کے باوجود پورے امریکہ میں اخلاقیات کو دائرے میں رکھنے کے لیے ،کسی بھی اور سٹوڈیو میں خاص قسم کی فلمیں بنانا بین کردی گئیں، پبلک مقامات پر کسی قسم بھی نازیبا حرکت پر حکومت سخت ایکشن لینے لگی اور یوں ایک انتہائی منافع بخش انڈسٹری کی بنیاد رکھ کر بھی ،پوری قوم کو اخلاقیات کی شدید پستی پر جانے سے روک لیا گیا۔ ایک ایسی وادی جس کے اس قدر حسن کے باوجود ،شہرت کی وجہ 1970 ءمیں قائم کی گئی ایک ایسی انڈسٹری کا بن جانا ، ذاتی طور پر بہت سے لوگوں کے لیے دنیا میں نام بنانے کی ایک مثال بن گیا۔Every Publicity is a Good Publicity کا فارمولہ پڑوسی ملک کی فلم انڈسٹری میں بہت سی جونیئر اداکاراﺅں اور ماڈلز کے لیے کوئی نیا نہیں تھا، مگر فیس بک کی ایجاد اور اس کے بعد ہر کسی کی دسترس میں آجانے سے اس فارمولے کا استعمال بہت آسان ہوگیا۔ جوں جوں سوشل میڈیا ترقی کرتا گیا، متنازع تصاویر اور ایم ایم ایس وڈیوز کے ذریعے کئی لوکل ماڈلز شہرت کے بازار میں داخل ہوتی گئیں۔ ایسا ہی ایک نام ماڈل پونم پانڈے کا بھی تھا۔ پونم پانڈے نے اپنے فیس بک پیج اور ٹویٹر اکاﺅنٹ سے کئی بار متنازع مواد شائع کرکے میڈیا کی جانب اپنی توجہ حاصل کرلی۔ خاطر خواہ شہرت حاصل کرنے کے بعد اس ماڈل نے 2011ءمیں بھارت کی ورلڈ کپ میں جیت پر بے لباس رقص کا اعلان کیا، جو بھارتی کرکٹ بورڈ کی مداخلت کے بعد رکوا دیا گیا۔پونم کے اس اقدام پر وہ پورے بھارت میں کسی بھی مشہور سٹار سے زیادہ شہرت حاصل کرگئی اور کرکٹ سے زیادہ سوشل میڈیا پر پونم پر ہی تبصرے جاری رہے۔ مشہور بھارتی اداکار شاہ رخ خان کی کرکٹ ٹیم کی انڈین پریمیئر لیگ میں کامیابی پر بھی پونم نے مختصر لباس پر منحصر رقص کا اعلان کیا۔یہ اعلان سوشل میڈیا پر اخلاقیات کا جنازہ نکالتے عوام کے لیے خود کرکٹ کی پوری سیریز سے زیادہ مقبول ہوگیا، نتیجہ یہ حاصل ہوا کہ لوگوں نے سوشل میڈیا پر پونم کی حرکات پر تبصرہ اور گالیوں کی بوچھاڑ کرکے ایک تیلیگو لوکل ماڈل کو بالی وڈ کی نگری تک پہنچا دیا۔ پونم کا مقصد پورا ہوگیا اور آج پونم پانڈے بالی وڈ کی ایک مشہور اداکارہ ہیں۔پونم کو دیکھنے کے لیے ائیر پورٹ پر لمبی قطاروں میں لوگ کھڑے ہوکر اس کا انتظار کرتے ہیں اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہزاروں کا مجمع لگ جاتا ہے۔ اس قدر متنازع شخصیت کا یوں ابھر کر آنا اور خود سیلیکون ویلی کی فلموں میں کام کرنے والی چند اداکاراﺅں کے بالی وڈ میں آجانے کے بعد، پوری بالی وڈ فلم انڈسٹری اخلاقیات کی پستیوں کو چھوتی چلی گئی ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے بھارت میں سے نازیبا مواد اکٹھا کرنا ، انٹرنیشنل مافیا کے لیے انتہائی آسان ہوگیا اور یوں آج کے انٹرنیٹ پر بیشتر مواد ان سیلفی وڈیوز پر مشتمل ہے کہ جن کے گھرانوں کا اس قسم کی اخلاقیات سے کوئی لینا دینا ہی نہیں، اس امر میں بھارت میں کئی جوان اموات کے واقعات سامنے آئے،جن میں لڑکیوں کو یا تو قتل کردیا گیا یا پھر انہوں نے خود کشی کرلی۔ بے حیائی کو جب بھی حد سے زیادہ دبایا جائے یا کھلی اجازت دے دی جائے ، تو وہ ایک خاص جگہ سے نکل کر ہر گھر میں داخل ہونے لگتی ہے۔سوشل میڈیا کی ترقی اور پونم جیسے افراد کی بالی وڈ میں آمد نے بھارتی معاشرے کی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ اگر سیلیکون وادی کی طرح پونم کے اس اقدام کو سختی سے گرفت میں لیا جاتا اورعام شخصیت کو یوں بغیر کسی سنسر کے پبلک میں اپنی تشہیر سے روک لیا جاتا تو شائد بھارت کے کئی گھرانے بے حیائی کی آگ میں جلنے سے بچ جاتے۔ 2016ءکے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی ٹیم کی پرفارمنس سب کے سامنے ہے۔ ایسے میں جب کوئی روشن نوید نہیں ملتی ، لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک لوکل ماڈل جو پونم کی طرح ہی متنازع تصاویر اور وڈیوز کی تشہیر سے پورے سوشل میڈیا پر لوگوں کے بے تحاشہ تبصروں کے ذریعے کافی شہرت سمیٹ چکی تھیں ، پونم کی کاپی پر ایک متنازع ترین اعلان کر بیٹھیں، یہ اعلان پاکستان کی ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف جیت پر پونم جیسے اقدام پر مبنی تھا۔ایک سال کے اندر کچھ نہ سے سب کچھ کا سفر طے کرنے والی اس ماڈل کے لیے ایک اعلان اس قدر مفید ثابت ہوگیا ،کہ بھارتی میڈیا نے اس ماڈل کی وڈیوز اور تصاویر کو اپنے ہر بلیٹن کا حصہ بنالیا۔یوں یہ ماڈل ایک سٹار کے طور پر ابھر کر سامنے آگئیں ، یہ اقدام اس قدر شہرت حاصل کرگیا کہ مشہور بھارتی گلوکار سونو نگم نے اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ سے اس ماڈل کے لیے خاص پیغامات جاری کر دیے۔ اخلاقیات کی جنازہ نکالتی اس ماڈل کی ہمارے میڈیا نے کوریج نہ کرکے جہاں قومی اخلاقیات کی بلندی کے مظاہرہ کیا ،وہیں حکومت کی طرف سے اس ماڈل کے ایسے اقدام پر کوئی ایکشن نہ لینا یقینا تشویش کا باعث بن گیا۔ سوشل میڈیا کی اس قدر آزادی اور اس پر موجود عوام کی ایسے پبلسٹی سٹنٹ کرتے افراد کی حوصلہ افزائی ہمارے معاشرے میں یقینا بے حیائی کے فروغ کا ذریعہ بن رہا ہے۔ بھارت نے ایک ملین ڈالر انڈسٹری کی آڑ میں اپنے پورے ملک کی اخلاقیات کا جو جنازہ نکالا ہے،اس کا اندازہ فقط اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت پوری دنیا میں ایڈز کے روزانہ کی بنیاد پر نئے مریض پیدا کرنے میں پوری دنیا میں سرِ فہرست مانا جاتا ہے،اسی طرح بالغوں کے لیے بننے والی فلموں کی ویب سائٹس پرچوری یا دھوکے سے حاصل کیے گئے مواد میں بھی بھارت کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ ایسے میں اگر لوکل ماڈل کی طرح ، ہمارے ملک سے کئی پونم پیدا کی گئیں ،تو غربت ، بے روزگاری اور رات و رات امیر بننے کے سپنے دیکھنے والے اس دیس میں ایک ایسی سیلیکون ویلی کی کھیپ لگنے کا امکان پیدا ہوجائے گا کہ جس کی کوئی فزیکل موجودگی نہ ہونے اور کسی قسم کا قانون نہ ہونے کے باعث اس پر گرفت ناممکن ہوجائے گی۔ بھارتی معاشرے کی طرح اخلاقیات سے عاری معاشرہ کسی طور ایک ایسے ملک کی جڑیں کھوکھلی نہیں کرسکتا جس کی معراج ہی اخلاقیات کے عروج کے حصول پر رکھی گئی ہو ۔ سوشل میڈیا کی آزادی کا ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے اس قسم کا استعمال پورے معاشرے کی اخلاقیات کا جنازہ کس طرح نکال دیتا ہے ،اس کی مثال پونم پانڈے اور بھارتی معاشرے سے لی جاسکتی ہے،اور اس اخلاقیات کو دائرہ میں کس طرح رکھنا ہے ،اس کے لیے ہمیں جنازہ نکال کربھی ،اس کے گزر کی گلیاں متعین کرنے والی سان فرنینڈ و وادی کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
فیس بک کمینٹ