ہم جب اس دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں، تو معاشرہ ہمیں وہ بنانے میں لگ جاتا ہے ، جو شائد ہم نہیں بننا چاہتے، ڈاکٹر یا انجینئر۔ ہمارے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہوتا،جو پڑھتا ہے ،اسے ڈاکٹر یا انجینئر ہی بننا ہوتا ہے، جو نہیں پڑھتا وہ پھر جو مرضی بن جائے۔مگر بعض لوگوں کو قدرت ڈاکٹر یا انجینئر بناتے بناتے ان کی ابدی خواہش کی طرف لے جاتی۔یہ لڑکا کیا بننا چاہتا تھا؟اس کی زندگی کے زاویے اس معاملے کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔3 ستمبر 1964ءکو راولپنڈی میں پیدا ہونے والے اس لڑکے کو نہ جانے کیا بننا تھا۔اس کے والد ائیر فورس سے ریٹائرڈ تھے،سو یہ ائیر فورس میں جانا چاہتا تھا۔سکول سے تعلیم مکمل کی، ایف 16 طیارے کا پائلٹ بننا چاہا۔نظر کمزور تھی،مگر سر پر جنون سوار تھا، چنانچہ انجینئر بن کے ائیر فورس میں شامل ہونے کا سوچا ،اور یوں سچی لگن ،اسے ملک کی بہترین انجینئرنگ یونیورسٹی میں لے آئی۔لاہور کی اس یونیورسٹی کے ہاسٹل میں جہاں باقی طلباءصرف انجینئر بننے کا خواب دیکھ رہے تھے۔اسے قدرت کچھ اور خواب دکھا رہی تھی۔دراز قد، گورا جسم،خوبروہ چہرہ اور خوبصورت آواز، وہ یونیورسٹی کے فنکشنز میں گانے لگا۔1983ءمیں یہ اسلام آباد، راولپنڈی ،لاہور کے مقامی کالجز میں گانے لگا،شہرت ملنے لگی،چرچا ہونے لگا،تو ائیر فورس کا جنون پس پردہ جانے لگا۔اس دوران لیاقت علی خان کے قریبی ساتھی، نواب حیات خان کا پوتا اور نواب حیات خان کا بیٹا ، روحیل حیات اپنے نومولود میوزک بینڈ ’Vital Signs‘ کے لئے اچھی آواز کی کھوج میں تھا۔1984 ءمیں پشاور یونیورسٹی کے کیمپس میں اس لڑکے نے جیورج مائیکل کا گیت ’Careless Whisper‘ گایا، اور یوں یہ لاپرواہ سرگوشی اسے روحیل حیات کی نظروں میں لے آئی۔آنے والے چند سالوں میں ایک جوشیلہ خوبصورت انجینئر ،Vital Signs کا سنگر تھا۔14 اگست 1987ءکو پاکستان کے قومی نشریاتی ادارے سے شعیب منصور نے اسی بینڈ کا گانا ’ دل دل پاکستان‘ آن ائیر کیا۔یہ گانا آن ائیر ہونے کی دیر تھی کہ پاکستان کی میوزک انڈسٹری میں ایک انقلاب آگیا ۔ ہری ہری گھاس پے گٹار بجاتے،دل دل پاکستان گاتے یہ جوان ، لوگوں کو اتنے بھائے کہ وائٹل سائن کے یہ جوشیلے جوان پوری دنیا میں دیکھتے ہی دیکھتے چھاتے چلے گئے۔ایک پر ایک ہٹ البم،یہ لڑکا شہرت کی بلندیاں پر پہنچ گیا۔ بے پناہ دولت ، بے پناہ شہرت، لڑکیوں کا دیوانہ پن، یہ سب جوانی میں مل جانا،کسی جوان کا خواب ہی ہوسکتا ہے۔2003 ءمیں بی بی سی ورلڈ سروس کی رپورٹ میں اس لڑکے کا گایا گانا ’دل دل پاکستان‘ مشہور ترین گانوں میں تیسرے نمبر تھا۔مگر اس سروے سے چار پانچ سال پہلے ہی اس لڑکے کی زندگی ایک اور زاویے پر گھومنا شروع ہوگئی تھی۔وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہونے لگا تھا۔وہ جس پر ہزاروں لوگ فدا تھے،وہ ان سے دور جانے لگا تھا۔اس کے بعد اس لڑکے نے اپنا ایک سولو البم ریلیز کیا اور 2001ءمیں مکمل طور پر اس نے خود کو میوزک سے جدا کرکے خدا سے لو لگا لی۔اتنی شہرت،اتنا عروج،اتنے مداحوں کی محبت کے باوجود کچھ تھا کہ جس نے اس کی زندگی مکمل موڑ دی۔اب وہ دین تبلیغ کے کام سے جڑ گیا تھا۔اس دوران اس نے ما سوائے ایک یا دو بار کے کبھی ماضی کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔اس دوران اس لڑکے کی زندگی میں ایک اور زاویے نے سب کو حیران کردیا۔اس نے کپڑوں کی بوتیک کا ایک برانڈ لانچ کیا اور اسے موسیقی سے بھی زیادہ پیسہ ملنے لگا۔یہ برانڈ پورے ملک میں دل دل پاکستان کی طرح مقبول ہوگیا ۔ یہ سب ایک شخص کی زندگی کے زوایے تھے۔اب یہ شخص دین کی تبلیغ میں مصروف تھا،اسے انتہائی معتبر علماءکرام ،کہ جن میں مولانا طارق جمیل صاحب جیسے با برکت نام بھی شامل ہیں، ان کی قربت میسر تھی۔ مگر جب علم پر پورا عبور حاصل نہ ہو اور زندگی زوایوں کی زد میں ہو، تو کہیں کوئی آزمائش جال بچائے پکڑ کو تیار رہتی ہے۔2014 ءکے اختتام پر ایک وڈیو کلپ نے اس شخص کی 17 سالہ تبلیغ اور دین کی طرف اس کے جنون کو ایک تاریک دوراہے پر لاکھڑا کیا۔اس سے ایک اور لاپرواہ سرگوشی ہوگئی۔یہ سرگوشی علم کی کمی اور نادانی کا شاخسانہ تھی، مگر اس قدر نادانی بعض اوقات ،انسان کو اندھی کھائی میں دھکیل دیتی ہے۔اس وڈیو کلپ میں بیان کے دوران اس شخص کے منہ سے چند ایسے الفاظ ادا ہوگئے ،جو گناہ کے ساتھ ساتھ مجرامانہ غفلت اور شدید مزمت کے مستحق تھے۔یہ شخص پکڑ میں آگیا۔معاشرے کی انتہا پسندی اسے گستاخی کے دوراہے تک لے گئی اور یوں وہ شخص کہ جس نے اس دنیا کی ہر عیاشی فقط خدا کے راہ میں ترک کردی تھی ، گستاخ قرار دیا جانے لگا۔اس شخص کو جلد اس بات کا احساس ہوا،پھر دنیا نے ایک اور منظر دیکھا، اسلام کی تبلیغ کرنے والے یہ جوان ، گڑگڑا کر سب سے ہاتھ جوڑ کر معافی کا طلب گار تھا۔وہ رو رہا تھا،اسے اپنی نادانی کا شدید احساس تھا۔یہ بھی اس کی زندگی کا ایک زاویہ تھا،یہ شخص جنید جمشید تھا۔
کہتے ہیں کہ خدا ظاہر ہوجاتا،تو دین جبر ہوجاتا۔ہمارے دین کا حسن ہی غیب میں پنہاں ہے۔کس کا خدا کے نزدیک کیا درجہ ہے ، بس خدا جانتا ہے۔اس کی ذات غفور الرحیم ہے کہ جس کے ہاں ہمیشہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔غیب کے نزدیک کون کیا ہے؟یہ صرف عرشوں کا ما لک ہی جانتا ہے۔ایک گونج یہ کہتی ہے کہ ہم کون ہوتے ہیں؟ خدا کے نزدیک انسانوں کے درجات کے فیصلے کرنے والے؟ ہم خود گناہوں کے پتلے ہیں، ہم خود دن رات استغفار کے طلب گار ہیں۔ہمیں کسی کو بھی آگ لگانے،گولیاں مارنے کا حق ،اگر انتہا پسند رویے دیتے ہیں ، تو ہمیں غیب کے عذاب سے ہمہ وقت ڈرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے یہی رویے آج ہمیں بطور امت ، غیر مسلموں کی بربریت میں مبتلا کیے ہیں، مگر ہمیں فتوی لگاکر ، ایک دوسرے کو اسلام سے خارج کرکے ، خود کو مسلمان ثابت کرنا ہے۔یہ امت پر خدا کا عذاب ہے۔ یہ زوال ہے، بدترین زوال۔جب امت ہی ایک دوسرے کے گلے کاٹے گی ،تو پھر ہمیں باہر سے کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہم سب گمراہی پر ہیں، سب کے سب۔اس سے پہلے کہ کوئی لاپرواہ سرگوشی ہمیں اپنی پکڑ میں لے لے ، ہمیں اپنے قبلے درست کرنا ہوں گے۔اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور خدا ہمیں انہیں پیمانوں پر جانچتا ہے۔غیب کے فیصلے ، غیب کو کرنے دیں، ہم بس سجدوں میں گر کر خدا سے اپنے گناہوں کی دن رات معافی مانگیں، نہیں تو ہماری کوئی لاپرواہ سرگوشی ہمیں اندھیروں میں دھکیلنے میں دیر نہیں لگائے گی۔ہمیں اپنی نیتوں کو درست کرنا ہوگا،اپنا آپ سدھارنا ہوگا۔
فیس بک کمینٹ