پاکستان میں بڑے سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے اور جب ڈاکٹری کی پوسٹ گریجویشن کی بات کی جائے تو تمام کی تمام آنکھیں ایک ایسے ادارے کی طرف جاتی ہیں، جو ایوب خان کے دور میں ان کے دست راست لیفٹنٹ جنرل واجد علی برکی کی کاوشوں سے 1962ءمیں ایک آرڈیننس کے ذریعے قائم کیا گیا۔جنرل برکی 1947 ءمیں برطانیہ سے پاکستان آگئے اور ڈپٹی ڈائیریکٹر جنرل میڈیکل سروسز پاکستان بن گئے، یہ وہ وقت تھا، جب جنرل برکی ،جنرل ایوب کے بہت قریب آگئے اور پاکستان میں پوسٹ گریجویٹ میڈیکل تعلیم کے لیے کسی ایسے ادارے کی بنیاد کی ٹھانی جو برطانیہ کے رائل کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کی طرح ملکی ڈاکٹری کی اعلی تعلیم کو ریگولیٹ کرے۔یوں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کی 1962 ءمیں بنیاد پڑی۔اس ادارے پر بہت بڑی ذمہ داری تھی، وسائل کم تھے، مگر جنرل برکی بہت زیادہ پر امید تھے۔جنرل برکی کے دور میں کالج کے فیلو، کالج کی کونسل کا حصہ نہیں بن سکتے تھے اور اس کالج اور رائل کالج لندن میں فرق، جمہوریت کا تھا۔ کونسل کے ارکان جنرل برکی خود منتخب کرتے یوں یہ ادارہ کئی دہائیوں تک جمہوری ارتقاءسے مرحوم رہا ۔اس وقت یہ ادارہ ایک ہاسٹل کی بلڈنگ نما تھا، جس میں پینتیس ملازمین تھے اور سالانہ سرکار سے اس ادارے کو پانچ لاکھ روپے گرانٹ ملا کرتی تھی۔1980ءکی دہائی میں ملتان میں ہونے والے کالج کے کانوکیشن میں پروفیسر سلطان فاروقی نے جنرل برکی کے سامنے اس کالج کے فیلوز کی کونسل میں شمولیت کی گزارش کی اور یہ پہلا وقت تھا ،جب اس ادارے میں جمہوری عمل کا آغاز شروع ہوا۔1989 ءمیں جنرل برکی کی وفات وہ وقت تھا جب پروفیسر حیات ظفر، پروفیسر سلطان فاروقی،پروفیسر ایس ایم رب اور پروفیسر لقمان جیسے نام اس ادارے کے جمہوری ارتقاءکا حصہ بن گئے اور باقائدہ الیکشنزسے کالج کے فیلوز میں کونسل کے ارکان اور ان میں سے سینئر وائس پریزیڈنٹ، پریزیڈنٹ منتخب ہونے لگے۔ پروفیسر سلطان فاروقی 1992-1994ءاور پھر 1998-2007ءتک کالج کے پریزیڈنٹ منتخب ہوتے رہے 2007ءمیں پروفیسر سلطان فاروقی اور ان کی کونسل سی پی ایس پی فرینڈزکے اساتذہ کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے الیکشن بری طرح ہار گئی اور یوں ارتقاءکا عمل پروفیسرڈاکٹر ظفر اللہ چوہدری اور پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل اور ان کی کونسل کے ساتھیوں تک آپہنچا۔پروفیسر ظفر اللہ چوہدری کا دور ، جنرل برکی اور پروفیسر سلطان فاروقی کے دور کا Climax کہلاتا ہے۔ محقق اس بات پر متفق ہیں کہ اس دہائی میں ملکی میڈیکل پوسٹ گریجویشن انٹرنیشنل رابطوں اور پورے ملک میںکالج کے بہترین سینٹرز کے قیام میں سب کو پیچھے چھوڑ گئی۔ پروفیسر ظفر اللہ کی کونسل کے فعال ترین ارکان میں صدارتی تمغہ امتیاز یافتہ ڈائیریکٹر جنرل انٹرنیشنل افئیرز پروفیسر خالد مسعود گوندل نے کونسل کے ارکان کو آپس میں متحد رکھا اور اساتذہ کے بڑے ناموں کے ساتھ کونسل کے کئی ساتھیوں کے ذریعے ، برطانیہ کے رائل کالج سے بہترین تعلقات استوار کرلیے،یوں ملکی تاریخ میں پہلی بار میڈیکل پوسٹ گریجویشن کے ایسے سلسلے چل نکلے کہ کالج کے ٹرینی ڈاکٹرز برطانیہ اور آئر لینڈ کے بہترین اداروں میں سکالر شپ پر جانے لگے۔ہاسٹل نما عمارت میں پینتیس ملازمین پر مشتمل ایک چھوٹی سی عمارت ارتقاءکی منازل طے کرتی،ملک کی ڈاکٹری کی اعلی تعلیم برطانیہ کے بہترین اداروں تک لے آئی۔کالج کی ڈگری کو رائل کالج اپنی ڈگری کے برابر ماننے لگا اور آج اینستھیزیا، ایمرجنسی میڈیسن اور اطفال کے شعبوں کے ڈاکٹرز کو پاکستان کے اس ادارے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پورے یورپ میں سپیشلسٹ ڈاکٹر کے طور پر لیا جانے لگا ہے۔ گزشتہ دہائی میں سی پی ایس پی فرینڈز کے اساتذہ کی کونسل نے جو کام کیے ہیں،انہوں نے یقینی طور پر پاکستان میں ڈاکٹری کے شعبے میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ اپنے موجودہ چار سالہ دور میں کوئیٹہ ، حیدرآباد، ایبٹ آباد اور بہاولپور میں اس کالج کے عظیم الشان نئے سنٹر تعمیر کیے گئے۔رحیم یار خان، ملٹری ہسپتال راولپنڈی حتی کہ گلگت بلتستان میں بھی نئے سنٹر زکا سنگ ِ بنیاد ڈالا گیا۔برطانیہ اور آئرلینڈ میں انٹرنیشنل سنٹرز کا قیام عروج کی داستان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کراچی کے ہیڈ کوارٹر کو نئے جدید بلاکس ،بہترین آڈیٹوریم اور ڈاکٹروں کے لیے گیسٹ ہاﺅسز سے مزعین کیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کے لیے پوسٹ گریجویشن کے مرحلے کو آسان کرنے کے لیے 2008ءسے کسی ورکشاپ،ٹریننگ اور 2011ءسے کسی امتحان کی فیس نہیں بڑھائی گئی۔ہمیشہ ڈاکٹروں کو تحقیق بار بار جمع کرانے کے لیے مدد دی جاتی رہی۔تعلیمی معیار پر بات کی جائے تو ان سالوں میں 20 نئے شعبوں میں فیلوشپ متعارف کرانے کے ساتھ ان کی تعداد کو دس سالوں میں 54 سے 74 کردیا گیا۔ ٹریننگ کے ریزیڈنسی پروگراموں کو جدت دینے کے لیے جدید ترین E-log System کے ساتھ نصاب کے انتظامی ڈھانچے کو بھی جدت دی گئی۔ پورے ملک میں بین الاقوامی BLS, ATLS, ACLS, PALS ,ALSO جیسے کورسز کے WHO کے ساتھ جدید تحقیق کا آغاز کیا گیا اور اس کے ساتھ جرنل آف سی پی ایس پی کو بھی پوری دنیا میں تحقیق کے شعبے میں بہترین جرنلز کے سب سے مضبوطImpact Factor کا درجہ دلوایا گیا۔سی پی ایس پی فرینڈز نے گزشتہ دہائی میں چار اہم ترین بین الاقوامی کامیابیاں بھی ملک کے نام کیں۔ 2013ءمیں Brain Gain and not Brain Drain کے نام سے WHO کے ساتھ الحاق میں پاکستانی فیلو ڈاکٹرز کو بیرونِ ملک ٹرینینگ کے لیے بجھوانے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ کالج آف فزیشز اینڈ سرجنز کے فیلو ڈاکٹر سعودی عرب میں اعلی عہدوں پر تعینیات ہونے لگے۔2014ءمیں اس ادارے کو جینیوا میں گولڈن یورپ ایوارڈ سے نوازا گیا، دسمبر 2015ءمیں سی پی ایس پی کو آکسفورڈ برطانیہ میں سوکراٹس ایوارڈ سے نواز گیا۔ امریکہ کی میڈیکل ایجوکیشن کی کونسل نے بھی اس ادارے کو اسی عرصے میں اپنے ساتھ رجسٹر کرلیا۔ برطانیہ میں بھیجے گئے پاکستانی ڈاکٹرز کی بات کی جائے تو اس وقت 11 شعبوں میں 361 پاکستانی ڈاکٹرز اسی ادارے کے ذریعے دنیا کے بہترین میڈیکل تعلیمی اداروں میں ٹریننگ کرکے ملک واپس لوٹنے کو ہیں ۔ E-Log سسٹم کو آئیر لینڈ کے رائل کالج کے صدر Eillis Mcgovern رول ماڈل قراد دے چکے ہیں۔ سی پی ایس پی فرینڈز کی موجودہ کونسل آنے والے سالوں میں ملک میں جدید ترین سپیشلائیزینشنز کا انقلاب لانے کے لیے پر عزم دکھائی دیتی ہے۔اس ضمن میں جہاں پورے ملک میں مزید سنٹرز کا جال بچھایا جائے گا وہیں کئی ملکوں میں بین الاقوامی سنٹر بھی بنائے جائیں گے۔اسی طرح آنے والے سالوں میں سی پیک کی طرز پر چین کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت پاکستانی ڈاکٹروں کی ٹریننگ اور فیلوشپ کو چین میں بھی فروغ دیا جائے گا۔ یہ سب تفصیل اس ملک سے باہر بھاگتے، ڈیپریشن کا شکار ڈاکٹروں کے لیے اندھیروں میں جلتے سورج کی طرح روشن مستقبل کی نوید ہے۔
سی پی ایس پی فرینڈز کی کونسل نے جنرل برکی کے ارتقائی عمل کو اپنی معراج پر پہنچایا ہے اور فیلو ڈاکٹروں میں بے پناہ مقبولیت کے باعث حالیہ الیکشن میں اسی کونسل کا کلین سویپ دکھائی دے رہا اور یوں ڈاکٹری کی پوسٹ گریجویشن کا مستقبل روشن نظر آرہا ہے۔ اس ضمن میں ان سالوں میں انتھک محنت کرنے والے سی پی ایس پی فرینڈز کے اساتذہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ چوہدری، پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل اور ان کی ٹیم پاکستان میں ڈاکٹر ی کی اعلی تعلیم اور فیلوشپ کی ڈگری کو پوری دنیا میں رائل کالج کے برابر لانے کا عزم لیے دکھائی دیتے ہیں اور شاید صحت کے شعبے میں CPSP وہ واحد ادارہ ہے جس کی حالیہ ترقی نے پڑوسی ملک بھارت کے مقابلے میں ہمیں پوری دنیا میں عروج پر پہنچادیا ہے۔ دعا ہے یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے تاکہ اس ملک کے ڈاکٹروں کو پوری دنیا میں بہترین مقام حاصل ہواور ہماری قوم مقداری نہیں معیاری طورپر ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کرے۔
فیس بک کمینٹ