عجیب مضحکہ خیز سیاسی صورتحال کا قوم کو سامنا ہے ، سیاست رفتہ رفتہ اس موڑ پر آگئی ہے کہ مسخرے اس میدان کے شہسوار اور نظریاتی لوگ اس کوچے سے بے دخل ہوکر رہ گئے ہیں، کوئی بااصول سنجیدہ اور بالغ نظر آدمی بھول کر اس گلی میں قدم رکھ بیٹھے تو اس کا حشر وہی ہوتا ہے جو لڑکوں بالوں کی محفل میں کسی سفید ریش کا، سالوں پہلے سیاست کرنیوالے لوگ بھی فرشتے نہیں تھے لیکن ایسے ”شطرے“ بھی نہیں تھے جس سے ان کے بعد قوم کو پالا پڑا ہے، ان کے طرز سیاست سے اختلاف رکھنے کے باوجود یہ ماننا پڑتا ہے کہ ان میں اکثر صاحب علم تھے، وہ دماغ رکھتے تھے، ملکی و بین الاقوامی امور کے ماہر نہ سہی مگر واقف ضرورت تھے، ان کی کچھ اقدار تھیں، محض دشنام طراز اور گردن فراز نہیں تھے، آج جو ٹیم میدان سیاست میں ہے انکے عہد میں جینا یوں لگتا ہے کہ ” جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں “، اصل موضوع کی طرف پلٹتا ہوں، عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد پہلے دن سے فرمارہے ہیں کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا اور فواد چوہدری نے تو یہ راگ الاپے رکھا کہ نہ رو نہ رو جبکہ اپوزیشن اور بالخصوص شریف فیملی کے ہمدرد یہ کہتے آرہے ہیں کہ آپ سے کون این آر او مانگ رہاہے، پھر اپنے باخبر دوست وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے تواتر کے ساتھ کہنا شروع کیا کہ شہباز شریف این آر او مانگ رہا ہے لیکن اب تو یہ بات ملک میں آگ کی طرح پھیلی ہوئی ہے کہ کچھ تو ہے کہ جس کی پردہ پوشی کی جارہی ہے ، کوئی ڈیل کہہ رہاہے ، کسی کو ڈھیل نظر آرہی ہے اور پیپلزپارٹی کے چوہدری منظور صاحب فرماتے ہیں کہ این آر او ہوگیا ہے، وقت کا انتظار کرو، اسی فضا میں مریم نواز صاحبہ خاموشی اختیار کرلیتی ہیں، ان کو ٹویٹر غائب ہوجاتا ہے ، مجھے کیوں نکالا والا بیانیہ تو بہت پہلے سے ہی جاتی امراءمیں گم ہوکر رہ گیاتھا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے حمزہ شہباز کا نام ای سی ایل سے نکل جاتا ہے ، میاں شہباز شریف صاحب کا داماد پہلے ہی مفرور ہے، ایک بیٹا جاچکا تھا، پھر حکومت کی مرضی کے برعکس پی اے سی کی چیئرمینی پورے پروٹوکول کےساتھ میاں شہباز شریف کو دیدی جاتی ہے ، جس پر شیخ رشید احمد احتجاج کرتے ہیں، بڑے میاں صاحب جیل سے ہسپتال منتقل ہو جاتے ہیں تو این آر او ، این آر او کے شور میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ڈیل ، ڈھیل اور این آر او کا ہی ذکر ہے، حکومت کا انکار ہے اور باخبر حلقوں کا اصرار ہے، بات کسی کو این آر او دینے کی نہیں، بات یہ ہے کہ قانون کیا سب کیلئے ایک ہے، معاف کیجئے ریفرنڈم کرالیں، عوام سو فیصد اس کے خلاف ووٹ دینگے کہ قانون سب کیلئے برابر ہے، عوام حکومت کے اس دعوے کی نفی کریگی۔
ہمارے یہاں عام آدمی کو قانون کی وہ کارروائی نظر آتی ہے جو بڑے لوگوں کے حوالے سے دیکھنے کو ملتی ہے ،نچلی عدالتوں میں جو کچھ ہورہاہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، وکلاءحضرات بھی عام آدمی کے کیس میں وہ مہارت اور قابلیت نہیں دکھاتے جو بڑی شخصیات کے مقدموں میں دکھائی دیتی ہے، ان کو عدالت میں آتے جاتے بار بار ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے، میڈیا ان کو شہرت دیتا ہے ، پھر ان کی فیسیں آسمان تک پہنچ جاتی ہیں، عام آدمیوں کی توانصاف حاصل کرنے کیلئے زندگیاں گذر جاتی ہیں، جتنے بڑے آدمی ہوتے ہیں یا بااثر حضرات ہوں اگر گرفتار ہوتے ہیں تو دوسرے دن ہسپتال ہوتے ہیں، لوٹ مار کرتے ہوئے نہ انکی بیماری رکاوٹ بنتی ہے اور نہ ان کو عارضے لاحق ہوتے ہیں، جیسے ہی پکڑے جاتے ہیں تو ان کی خدمت کرنے کیلئے ڈاکٹر تیار بیٹھے ہوتے ہیں، پھر ہسپتال میں کمرے بھی مل جاتے ہیں ، خوراک بھی گھر سے آنے لگتی ہے ، شہد کی بوتل میں شراب بھی مہیا ہوجاتی ہے، عام مریض تو ہسپتال کی راہ داریوں میں دم توڑ رہے ہوتے ہیں، اب حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ اگر شریفوں کو ڈیل، ڈھیل یا این آر او ملتا ہے تو عوامی و سیاسی سطح پر انہی کا نقصان ہوگا، ان کی مظلومیت کا موثر ہتھیار کند پڑجائیگا، ان کے حمایتی منہ چھپائے پھریں گے، ارے بابا اگر یہ لوگ این آر او مانگ رہے ہیں تو ضرور دو ، ان کے جیل میں رہنے سے آپ کا کوئی فائدہ نہیں ، ان سے ”مڈی“ حاصل کرو، اگر کچھ رقم قومی خزانے میں آتی ہے تو کیا برا ہے ، سیاست میں کسی کی جان نہیں لی جاتی ، سیاسی نقصان پہنچایا جاتا ہے ، ویسے بھی میاں نوازشریف صاحب جیل کا میٹریل نہیں ہیں، ان سے لاکھ اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میاں صاحب بنیادی طور پر مہذب اور شریف انسان ہیں، جیل ویل میں رہنا نہ انکا مزاج ہے اور نہ انکی ایسی سیاسی تربیت ہے، آصف زرداری صاحب کی اور بات ہے ، وہ کاریگر ہستی ہیں، انہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے ، وہ جانتے ہیں کہ کس کی کیا قیمت ہے ، کس کا کیا وزن ہے، اور کیا اوقات ہے، اس دھرتی کے اوپر اور اس نیلے آسمان تلے دنیا نے دیکھا کہ ذہین و فطین ذوالفقار علی بھٹو پھانسی پر چڑھا دیئے گئے ، بیگم نصرت بھٹو ذہنی توازن کھو بیٹھیں ، میر مرتضےٰ بھٹو اپنے گھر کے آگے اپنی بہن کے دور اقتدار میں مار دیئے گئے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ محترمہ بینظیر بھٹو دو مرتبہ اپنی وزارت عظمیٰ کی مدت پوری نہ کرسکیں جبکہ پٹارو کے پڑھے ہوئے اور ”بمبینو یونیورسٹی“ کے فارغ التحصیل آصف علی زرداری صدارتی محل میں اپنے پانچ سال پورے کرگئے اور گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصت ہوئے اور آج پارلیمنٹ میں موجود ہیں اور حکومت کے لوگوں کو بیوقوف اور ناسمجھ قرار دے رہے ہیں، کس کس عدالت کا زرداری صاحب نے سامنا نہیں کیا اور نہ ہی ان کو اپنے پارسا ہونے کا دعویٰ ہے ، انور مجید کو دھڑلے سے اپنا دوست مانتے ہیں اور بانگ دہل راو¿ انوار کو اپنا کہتے ہیں، ان پر یہ بات سو فیصد صادق آتی ہے کہ ” مولا کو مولا نہ مارے تو مولا نیں مرتا“۔
اب تو اللہ میاں نے انکے خلاف سوموٹو لیا ہوا ہے ، باقی عدالتوں کو تو یہ بھگتا چکے ہیں، اگر میاں نوازشریف کو این آر او ملتا ہے تو اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کیلئے یہ دیر نہیں لگائیں گے ، بہتر یہ ہی ہوگا کہ ”مڈی“ حاصل کی جائے، جیلوں میں ڈالنے سے کیا فائدہ،یہ کل ہی کی بات ہے کہ میاں نواز شریف صاحب کہا کرتے تھے کہ تم سڑکیں ناپو ہم سڑکیں بناتے رہیں گے اور یہ پھبتی بھی کسی تھی کہ تم مجھ سے استعفیٰ مانگتے ہو، یہ منہ اور مسور کی دال، اللہ کو بڑے بول پسند نہیں ، ثاقب نثار ان ہی کے دور میں چیف جسٹس بنے، باجوہ صاحب کو انہوں نے ہی سپہ سالار مقرر کیا، نویدمختار صاحب کو بھی یہ ہی آب پارہ میں لائے، جسٹس جاوید اقبال بھی انکی منظوری سے پکڑ دھکڑ کے چیئرمین بنے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، سرائیکی زبان کی ایک ضرب المثل ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ”بندہ کرے تو ڈرے اور نہ کرے تو زیادہ ڈرے“ یہ نہ ہو کہ اس گمان میں مارا جائے کہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں “وہ جبار بھی ہے وہ قہار بھی ہے ، اس کی پکڑ کے اپنے انداز اور اپنا ٹائم ہے، یہ جائے عبرت ہے کہ تین بار وزیراعظم رہنے والے اور اہم سیاسی جماعت کے روح رواں میاں محمد نوازشریف کو فیاض الحسن چوہان سے یہ سننا پڑے کہ ” میاں نوازشریف کی طبیعت خراب نہیں ہے۔نیت خراب ہے، نہ انکا دل لگ رہاہے اور نہ دالگ رہاہے، کھودا پہاڑ نکلا چوہا وہ بھی پلاسٹک کا “، یہ وقت بھی میاں صاحب پر آنا تھا کہ ہسپتال گئے تو علاج پسند نہیں ، عدالت گئے تو انصاف پسند نہیں، جیل گئے تو بیرک پسند نہیں لیکن چوہان صاحب کو کسی کی بیماری پر تضحیک اڑانے کی کیا ضرورت ہے، تمسخر اڑایا جارہاہے ، غیر انسانی تماشہ لگایا ہوا ہے ، ماضی میں مشاہد اللہ خان، طلال چوہدری اور دانیال عزیز بھی مذاق اڑایا کرتے تھے، میاں صاحب کا معاملہ پنجاب حکومت نے مس ہینڈل کیا ہے، لیکن جو زبان استعمال کی جارہی ہے اس سے جمہوریت بدنام ہورہی ہے ، بات کرنے کا سلیقہ ہوتا ہے ، معاشی دہشت گرد اور لوٹ مار کرنے والے سارے کے سارے پچھلی گلی سے بھاگنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں لیکن آگے چیک پوسٹیں ہیں۔
حکومت کے حال کا کیا ذکر کروں، میاں نواز شریف جیل میں ہیں، میاں شہباز شریف صاحب گرفتار ہیں، ان کی آل اولاد باہر ہے ، زرداری صاحب کو مقدمات کا سامنا ہے ، سڑک خالی پڑی ہے اور حکومت کو سکون کے ساتھ اپنی گاڑی چلانا نہیں آرہی ہے ، وزیراعظم عمران خان کی سیاسی بصیرت اور معاشی صلاحیت پر کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ، انکی دیانتداری کو کب تک چاٹیں گے، اگر ہوسکے چاپلوسوں او رمنافقوں سے جان چھڑالیں، اکبر بادشاہ آکسفورڈ کا پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن اس نے چن چن کر نورتن اپنے پاس جمع کئے تھے جن کی وجہ سے پچاس سال بادشاہت کرنا نصیب ہوا اور سبحان اللہ آپ کے مشیروں نے چھ ماہ کے اندر اپوزیشن کو متحد کردیا اور آپ کی مدت حکمرانی پر باتیں شروع ہوگئیں، کئی معاملات پر آپ کو اندھیرے میں رکھا جارہاہے، خود میں تبادلہ خیالات کرنے کی صلاحیت بڑھاو¿، آپ عوام کے مسائل حل کریں، کرپشن کا معاملہ اداروں پر چھوڑیں، اب آپ اپنا کام کریں، آپ ایک دیانتدار اور محنت کرنے والے انسان ہیں، آپ جیسا بندہ بھی اگر خدانخواستہ ناکام ہوگیا تو یہ ملک کا المیہ ہوگا، کون اچھا ہے کون برا ہے ، کون کیا تھا اور اب کیا ہے، سب کچھ جاننے والے جانتے ہیں اور عوام سمجھتے ہیں،فوج نے آپ کو فری ہینڈ دیا ہوا ہے ، فوج کا فیصلہ ہے کہ گند بلا کو صاف ہونا چاہئے، میدان بھرا ہواہے ، اس میں آپ کو اتار دیا گیا ہے ، کھیلنا آپ نے ہی ہے ، فوج نے نہیں کھیلنا، مشاورت اور دور اندیشی سے کام لو، فوج کیلئے بوجھ نہ بنو، راقم صاف اور کھلے لفظوں میں عرض کررہاہے ، فوج کے اپنے کرنے کے کام بہت ہیں، فوج اور قومی اداروں کیلئے آسانیاں پیدا کرو، دہشتگردوں کیخلاف فوج اس وقت بھی نبردآزما ہے، بلوچستان کی قومی دھارے میں واپسی فوج کی مرہون منت ہے، شمالی وزیرستان پر کنٹرول کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، مستقبل میں اگر شریفوں کو طبی بنیادوں پر بیرون ملک بھیجے جانے کی قیاس آرائیاں حقیقت کا روپ دھارتی ہیں تو ملکی سیاست میں وقتی طور پر تو ایک ٹھہراو¿ آسکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ سیاسی فضا میں بہتری آجائے اور ملک میں سرمایہ کاری کو بھی فروغ مل جائے، لیکن انصاف کے عمل پر عوامی اعتماد کو دائمی نقصان پہنچے گا، احتساب کے عمل پر عوام کا اعتماد ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اٹھ جائیگا اور قومی خزانے سے خرچ کئے جانے والے کروڑوں روپے کے اخراجات پر بھی سوالیہ نشانات ابھریں گے۔
ملزمان یا مجرمان کو مکمل طبی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے لیکن حکومت کو چاہیے کہ جاری مقدمات کو سرد خانے کے سپرد کرنے کی بجائے انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے تاکہ عوام کو حقائق اور پروپیگنڈہ میں فرق صاف نظر آئے اور حکومت یہ مذاق ختم کرے کہ حکومتیں بھی کیا اپوزیشن سے استعفیٰ مانگتی ہیں، رحیم یار خان کے چوہدری منیر صاحب اور قطر کے سیف الرحمن کو اپنا کام کرنے دو، آپ ہوشیار باش رہو، بولو کم اور سنو زیادہ ، صحیح وقت پر صحیح فیصلہ بصیرت کہلاتا ہے ، غلط وقت پر صحیح فیصلہ جہالت ہے اور غلط وقت پر غلط فیصلہ سراسر حماقت ہے، اصول فطرت نپے تلے اور پائیدار ہیں جن کو جناب جبرائیل اور اسرافیل بھی نہیں پھلانگ سکتے، خدا ان سے راضی جو اپنے رب سے خوش، یہ ہے فطری زندگی اور اصل زندگی کا حسن۔
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ