یہ لوگ کس قدر واضح ، صاف اور کھرے تھے۔ بلکہ کسی شفاف آئینہ کی مانند۔ آمر مطلق تھے، ڈکٹیٹر تھے، مفتوح تھے، جو بھی تھے،وہ تھے۔ یہ لوگ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کھوپڑیوں کے مینار بناتے تھے، ان میناروں پر انسانی چربی کو آگ لگا کر جشن مناتے تھے،تاکہ دنیا کو بتا سکیں کہ وہ کس قدر سفاک ہیں۔ سیزر، فرعون،ہلاکو خان، چنگیز خان، ہٹلر، سٹالن ، رام سیسس، کیلی گولایا یہ سب جس قدر بھی ہولناک سہی ، ان کا چہرہ سب پر عیاں تھا،یہ سب تھے، مگر منافق نہیں تھے۔ ان سب میں کوئی صرف اپنی حکمرانی چاہتا تھا اور کوئی ہٹلر کی طرح اپنی قوم کی ۔ ہم آج کی دنیا میں ا ن سب چہروں کو اکٹھا کرلیں تو ہمیں یہ سب دنیا کی سپر پاور امریکہ میں نظر آتا ہے اور پینٹاگون میں گول میزوں پر بیٹھے سفاک چہرے ،ہٹلر ،سٹالن جیسے نظر آتے ہیں ۔ مگر دوسری طرف جب ہم امریکہ کی ترقی اور اس کی قوم کی خوشحالی دیکھتے ہیں تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ وہ دنیا کے لیے جو بھی ہوں، وہ اپنی قوم کے لیے انہی کی طرح واضح،صاف اور کھرے ہیں۔ وہ پوری دنیا کے لیے قاتل ہیں، مگر قوم کے لیے خود جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔ اس لیے وہ بدترین صحیح ،منافق نہیں ہیں۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے عجوبے سٹیفن ہاکنگ کی کہانی ہے۔ یہ شخص البرٹ آئنسٹائن کے بعد، تاریخ کا سب سے بڑا سائنسدان کہلاتا ہے۔ اس کی پوری زندگی معجزات سے بھری پڑی ہے۔اسے دنیا کا سب سے ذہین شخص بھی کہا جاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں چودہ سو سال پہلے فرمایا تھا‘یہ کائنات ابھی نا مکمل ہے اور دنیا میں روزانہ نئے سیارے جنم لے رہے ہیں۔ قرآن کی اس تھیوری کو سٹیفن ہاکنگ نے ثابت کیاتھا۔ اس نے کائنات میں ایک ایسا ”بلیک ہول“ دریافت کیا جس سے روزانہ نئے نئے سیارے جنم لے رہے ہیں‘ اس نے اس بلیک ہول میں ایسی شعاعیں بھی دریافت کیں جو کائنات میں بڑی بڑی تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں‘ یہ شعاعیں سٹیفن ہاکنگ کی مناسبت سے ”ہاکنگ ریڈایشن“ کہلاتی ہیں۔وہ فزکس اور ریاضی کا ایکسپرٹ ہے اور دنیا کے تمام بڑے سائنسدان اسے اپنا گرو سمجھتے ہیں لیکن یہ اس کی زندگی کا محض ایک پہلو ہے‘ اس کا اصل کمال اس کی بیماری ہے‘ وہ ایم ایس سی تک ایک عام درمیانے درجے کا طالب علم تھا‘ اسے کھیلنے کودنے کا شوق تھا‘ وہ سائیکل چلاتا تھا‘ فٹ بال کھیلتا تھا‘ کشتی رانی کے مقابلوں میں حصہ لیتا تھا ۔ وہ 1963ءمیں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا کہ وہ ایک دن سیڑھیوں سے نیچے پھسل گیا‘ اسے ہسپتال لے جایا گیا وہاں اس کا طبی معائنہ ہوا تو پتہ چلا وہ دنیا کی پیچیدہ ترین بیماری ”موٹر نیوران ڈزیز“ میں مبتلا ہے‘ یہ بیماری طبی زبان میں ”اے ایل ایس“ کہلاتی ہے۔ اس بیماری کا دل سے تعلق ہوتا ہے ‘ہمارے دل پر چھوٹے چھوٹے عضلات ہوتے ہیں‘ یہ عضلات ہمارے جسم کو کنٹرول کرتے ہیں‘ اس بیماری کے انکشاف سے پہلے سائنسدان دماغ کو انسانی جسم کا ڈرائیور سمجھتے تھے۔لیکن بیسویں صدی کے شروع میں جب ”اے ایل ایس“ کا پہلا مریض سامنے آیا تو پتہ چلا انسانی زندگی کا مرکز دماغ نہیں بلکہ قلب ہے اوردنیا کے تمام مذہب ٹھیک کہتے تھے انسان کو دماغ کی بجائے دل پر توجہ دینی چاہئے۔ دل کے یہ عضلات ”موٹرز“ کہلاتے ہیں‘ اگر یہ ”موٹرز“ مرنا شروع ہو جائیں تو انسان کے تمام اعضا ءایک ایک کر کے ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں اور انسان خود کو آہستہ آہستہ مرتے دیکھتا ہے۔اے ایل ایس کے مریض کی زندگی دو سے تین سال کی مہمان ہوتی ہے ‘ ۔ سٹیفن ہاکنگ 21سال کی عمر میں اس بیماری کا شکار ہوا تھا‘ سب سے پہلے اس کے ہاتھ کی انگلیاں مفلوج ہوئیں‘ پھر اس کے ہاتھ‘ پھر اس کے بازو‘ پھر اس کا بالائی دھڑ‘ پھر اس کے پاو¿ں‘ پھر اس کی ٹانگیں اور آخر میں اس کی زبان بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔یوں وہ 1965ء میں ویل چیئر تک محدود ہو گیا۔ وہ 1974ءتک خوراک اور واش روم کیلئے بھی دوسروں کا محتاج ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے اسے 1974ءمیں قریب المرگ قرار دے دیا۔لیکن اسے اس کی ہمت اور معاشرے نے زندہ رہنے‘ آگے بڑھنے اور اس معذوری کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان بننے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ویل چیئرپر کائنات کے رموز کھولنا شروع کئے تو سائنس حیران رہ گئی۔ کیمبرج کے کمپیوٹر سائنسدانوں نے ہاکنگ کیلئے ”ٹاکنگ“ کمپیوٹر بنایا‘ یہ کمپیوٹر اس کی ویل چیئر پر لگا دیا گیا‘ یہ کمپیوٹر اس کی پلکوں کی زبان سمجھتا ہے‘ سٹیفن اپنی سوچ کو پلکوں پر شفٹ کرتا ہے‘ پلکیں ایک خاص زاویے اور ردھم میں ہلتی ہیں‘ یہ ردھم لفظوں کی شکل اختیار کرتا ہے‘ یہ لفظ کمپیوٹر کی سکرین پر ٹائپ ہوتے ہیں اور بعدازاں سپیکر کے ذریعے نشر ہونے لگتے ہیں چنانچہ سٹیفن ہاکنگ دنیا کا واحد شخص ہے جو اپنی پلکوں سے بولتا ہے اور پوری دنیا اس کی آواز سنتی ہے۔ سٹیفن ہاکنگ نے پلکوں کے ذریعے اب تک بے شمار کتابیں لکھیں‘ اس نے ”کوانٹم گریوٹی“ اور کائناتی سائنس (کاسمالوجی) کو بے شمار نئے فلسفے بھی دئیے‘ اس کی کتاب ”اے بریف ہسٹری آف ٹائم“ نے پوری دنیا میں تہلکا مچا دیاتھا‘ یہ کتاب 237 ہفتے دنیا کی بیسٹ سیلر کتاب رہی ۔صدر اوباما نے 12اگست 2009ء کو سٹیفن ہاکنگ کو امریکا کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ صدارتی تمغہ برائے آزادی (پریذیڈنشل میڈل آف فریڈم) پیش کیا۔ سٹیفن ہاکنگ جو میڈیکل سائنس کی رو سے 1974ءمیں مرچکا تھا، 2018ءتک زندہ رہا۔ یعنی وہ معاشرہ ،جس کی بقا افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور کئی دیگر ممالک میں صرف موت لائی ہے،انہوں نے44 سال صرف ایک دماغ کو پالا،اس کے ناز نخرے اٹھائے اور یوں دنیا کے ایسے راز افشاں کرلیے، جنہوں نے کئی نئی دنیاﺅں کے دروازے ان پر کھول دیے۔موجودہ سائنسدانوں کا یہ ماننا ہے کہ آنے والے وقت میں ٹائم مشین کا وہ خواب جو انسان پرانے وقت میں جاکر زمانے کو دیکھنا چاہتا ہے،وہ بھی بلیک ہولز کی تھیوری کے ذریعے پورا ہوجائے گا۔ سٹیفن ہاکنگ کی زندگی کے 44 سال ،اس لیے معجزہ نہیں ہیں کہ اسے اتنے سال زندہ کیسے رکھا گیا، بلکہ اس لیے معجزہ ہیں کہ ایک ایسا معاشرہ کہ جس کی سفاکیت سے دنیا کانپتی ہے،اس نے ایک مفلوج جسم کے بہترین دماغ کو کیوں زندہ رکھا؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں راقم القلم اس رات تک جاپہنچا کہ جب میں دنیا کی رینکنگ میں نمبر ایک ماہر امراض معدہ و جگر ڈیوڈ کارلوک کا انٹرویو کرکے لوٹا۔ڈیوڈ ٹریننگ کرانے کے لیے اسلام آباد آئے تھے اور یوں میری ان سے ملاقات ہوگئی۔ انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں ڈیوڈ کہنے لگا، تم جانتے ہو، تم لوگ کیوں ہم سے پیچھے ہو؟ تم نے اپنے معاشرے میں ذہنوں کی بجائے جسموں کی نشونما کی ہے اور ان کی پوجا کی ہے۔ وہ جسم جو منافق ہیں۔ رات گئے، میں اس جملے کا مطلب سمجھ نہ پایا۔ ایک بے چینی تھی جو سونے نہیں دے رہی تھی۔باہر تیز بارش ہورہی تھی، میں بالکونی سے صاف سڑک پر بارش کی بوندیں پڑتی دیکھنے لگا۔ منافق جسم؟ پوجا؟ پھر ذہن ان ستر دہائیوں کے گرداب میں گھومنے لگا۔ آزادی کے بعد سے ہم فرقہ واریت، اناد پرستی، مذہبی منافرت، ذات پات، صوبائیت اور نجانے کن مسائل کا شکار ہیں۔ ان سب کی جڑ ہم خود ہیں؟ یا ہم نے واقعی اجسام کی پرستش کی ہے۔ ان کی نسلوں کی پرستش کی ہے۔ ہمارے ذہنوں کواس ملک کے جاگیرداری،وڈیرہ، آمر اور اشرافیہ کلچر نے اغوا کرلیا۔ یہی ہم پر حاکم بن بیٹھے۔ پھر نسل در نسل غلام ابن غلام کے سلسلے اپنی بدترین شکل میں چل نکلے۔ ہم ان کی پرستش میں محو رہے ،اس لیے ہمارے جسموں کو تو زندہ رکھا گیا، مگر ذہنوں کو مفلوج کر دیا گیا۔ تعلیم، روزگار،صحت ہم سے چھین لیا گیا۔ جوں جوں ہم جہالت کی طرف سفر کرتے گئے، ہم اشرافیہ کی پرستش میں اندھے ہوتے گئے۔ یعنی دنیا کی فاتح قوم نے مفلوج جسم میں موجود صرف ایک ذہین دماغ کو پال کر، دنیا کے راز پالیے، اور ہم نے جہالت کا ایسا بلیک ہول خود پیدا کیا،جس میں ایک دوسرے سے لڑنے، مرنے مارنے اور ٹرالی بھر ووٹوں کے لیے جسم تو زندہ رہے ، مگر دماغ مر گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پستی کے ایک ایسے نہ ختم ہونے والے سلسلے کی طرف بڑھتے جارہے ہیں کہ نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ عمر کوٹ کے ہسپتالوں میں بلکتے بچے،مر جاتے ہیں،ووٹ انہی اشرافیہ کا ہے۔ چولستان میں قحط سے نسلیں ختم ہوجاتی ہیں،ووٹ انہیں اشرافیہ کا ہے۔ ہم بھی سٹالن،ہٹلر کے دور کے باسی ہیں، مگر یہاں ہمارے جسم تو زندہ رکھے جارہے ہیں ، ذہنوں کو ختم کیا جارہا ہے۔ منافقانہ آمریت کہ جس میں بھلائی کے دعوی کرنے والے،ہم پر حاکم بھی ہیں اور ہمارے دماغ سے عاری کھوپڑیوں کے میناروں پر ، جہالت،غربت،بے بسی کی چربی کی آگ جلا کر اپنی فتح کا جشن بھی منارہے ہیں اور ہم وہی اجسام کی پرستش کرنے والے،لوگ در در یہ سوال کرنے بھی پہنچ جاتے ہیں کہ ہم تم سے پیچھے کیوں ہیں؟ بارش تھم چکی تھی اور ڈیوڈ کا جواب میری روح میں اصل معنی لیے پیوست ہوچکا تھا۔
فیس بک کمینٹ