لگتا یہ ہے کہ معاشرے میں کچھ ٹیرھا پن آتا جا رہا ہے – اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے میں تہذیب ختم ہورہی ہو ۔۔ اور شوخ مزاجی ، چنچل پن ، شوخی و شرارت عام ہو رہی ہو۔ معاشرہ صرف پاکستان میں ایسا نہیں بلکہ پوری دنیا کے اندر اس کا کچھ نہ کچھ اثر ہے ۔ اگر آج سے پچیس سال پہلے چلے جائیں تو دنیاوی معاشروں میں ایسا کچھ نہیں تھا ، تمام دنیا میں تہذیب کو اہمیت حا صل تھی ۔ چنچل مزاجی ، شو خی ،اور شرارت کا جہاں تک تعلق ہے انسانی مزاج کی خوبصورت ادائیں ہیں اور اچھی بھی ہیں ۔ لیکن ایسی بھی کیا شوخی اور شرارت کہ جو انسانی شخصیت کو بگاڑ اور بے ڈھنگے پن کا شکار کر دے ۔ اور شخصیت بلا وجہ تنقید اور تذلیل کا نشان بن جائے۔۔ اگر مجھ سے اس کی وجہ پوچھی جائے تو میں بلا جھجھک یہ کہنے کیلئے تیار ہوں کہ معاشروں کا بگاڑ کیمرے کی پیدوار ہے ۔ انسانی نفسیات میں شہرت اور تعریف پسندی کی خواہش پائی جاتی ہے ، اور کیمرے اور سوشل میڈیا کی ٹیکنالوجی نے انسانی ذہن کو جہاں شہرت اور تعریف کے مواقع فراہم کئے ہیں وہاں تہذیب و اخلاق ، اور بہت سی دوسری قدروں کو پامال کر دیا ہے ۔ آزادی اظہار نے ایک عورت کے حسن کو نمائشی بت بنا دیا ہے – اور سیلفی نےہر خاص و عا م کے چہرے میں بگاڑپیدا کر دئے ۔ ہمارے ایک بزرگ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ پہلے لقوہ ایک جسمانی بیماری تھی اور اب ایک روحانی بیماری کا روپ دھار چکی ہے ۔ اب جب تک منہ کا اینگل نہ دیا جائے تو سیلفی مکمل نہیں ہوتی ، اگر کچھ لڑکیاں اس خوف سے کہ کو ئی دیکھ نہ لے چہرہ چھپاتی ہیں تو وہ اپنی دھڑ کی تصویر سوشل میڈیا پر آویزاں کر دیتی ہیں ۔ اور آجکل تو چہرے کی بجائے ناگن جیسے بال تصویروں میں نظر آتے ہیں – کیمرے اور سوشل میڈیا شہرت اتنا سستا کر دے گا یہ سوشل میڈیا اور کیمرے کی تخلیق کرنے والوں نے شاید سوچا بھی نہ ہو گا- اور شہرت کے خواہش میں معاشروں میں اس قدر بگاڑ پیدا ہو جائیں گے یہ مہذب دنیا نے کبھی نہیں سوچا ہو گا ۔
کہتے ہیں کہ دریا اور وقت اور معاشرتی تبدیلیاں پیچھے کی طرف نہیں بہتی – اور میرے جیسے تنقید نگاروں اور نکتہ چینوں کے پاس اس کو قبول کرنے کے علاوہ کچھ چارہ بھی نہیں ہوتا – عزیزان من علم اور تعلیم اتنی ترقی کرچکی ہے ہر آدمی کے پاس معلومات کا خزانہ ہے یہ انٹریٹ کے ذریعے معلومات تک پہنچ ضرور ہے – یہ علمی اور سائنسی ترقی اس نہج تک جا پہنچے گی یہ شاید کسی نے نہ سوچا تھا – لیکن آج معاشرتی سطح پر علم کے نہیں شاید تربیت کی ضرورت زیادہ ہے – یہ جو علم ہمارے پاس مذاہب نے دیے ان کو روحانی سطح پر سمجھنے کی ضرورت ہے – دریا اڑتے رخ نہین جاتا معاشرتی تبدیلی بھی نہیں روکی جا سکتی – اس تبدیلی کی اخیر کیا ہو گی یہ تو میں کچھ نہیں کہ سکتا لیکن انسانیت اور انسانی کردار وتشخص کیلئے کو اچھی علامت نہیں ہے – بہر ہمارے معاشروں کو سادگی پر عمل پیرا ہونے اور مشینوں کی بجائے انسانوں کو ایک دوسروں کے قریب لانے کی ضرورت ہے – شکریہ
فیس بک کمینٹ